ڈونالڈ ٹرمپ کی مسلم دشمنی، عیسائی دہشت گردی کا فروغ

ٹرمپ کےقصرِ سفید میں داخلہ سے قبل جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا ۔وہ خدشات درست ثابت ہورہے ہیں۔ ٹرمپ یکے بعد دیگرے ایسے حکم ناموں پر دستخط کررہے ہیں جن سے ’مسلم دہشت گردی‘ کا تصور بلندیوں کے نئے منطقے پر پہنچ گیا ہے ۔ سات مسلم ممالک کے ویزا پر پابندی عائد کردینے کا فیصلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔’مسلم دہشت گردی‘ کے تصور کو فروغ مل رہا ہے اور اس کا نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے ۔ کیوبک سٹی میں نمازیوں پر فائرنگ کردینے کا دہشت گردانہ واقعہ اسی کا حاصل ہے۔ دنیا ایک غیر محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل ہورہی ہے ۔

امریکہ اور صہیونی مقتدرہ نے ہمیشہ دنیا اور اپنے عوام کے سامنے کسی نہ کسی کو دشمن کے روپ میں زندہ رکھا۔انہیں ہمیشہ ہی ایک ویلن کی ضرورت رہی ہے ۔ اس لئے وہ دشمن تراشتے رہے۔ یہ’ تراشیدہ دشمن‘ ان کےلئے ہمیشہ ہی کارآمد رہا ۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت نازی جرمنی سے یہ کام لیا گیا اس کے بعد سرد جنگ کے دور میں کمیونسٹوں کو اس مقام پر بٹھایا گیا ۔ 90؍کی دہائی میں روس کے ٹوٹ جانے کے بعد ان کے’ دشمن کا طلسم‘ بھی ٹوٹنے لگا۔ ایسے وقت میں ایک نئے دشمن کی تلاش تھی ،جو انہوں نے اسلام میں ڈھونڈلیا۔ 11/9 کے بعد عوام کو بھی باور کرادیا گیا کہ دشمن واقعی خطرناک ہے۔11/9 جیسے واقعات سے افسانوی نظریات کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور عوام کے ذہن میں افسانوی کردار کے حقیقی ہیولے تیرنے لگتے ہیں۔

ٹرمپ ، امریکہ کی انتہائی شدت پسند پارٹی ری پبلکن کے رکن ہیں۔اس پارٹی کی فکر پر صہیونی مقتدرہ کے گہرے نقوش ہیں یا کہہ سکتےہیں کہ یہ پارٹی صہیونی مقتدرہ کی کنیز ہے۔
اسرائیل کی بقا ، اس کی وسعت کو یقینی بنانا اور ساری دنیا پر اپنے سامراج کو قائم رکھنا ہی اس مقتدرہ کا مقصدِ اولیٰ ہے۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے اس نے دنیا کے تقریباً تمام بڑے میڈیا گھرانوںاور بینکوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھرکے ممالک میں مختلف ناموں سے کئی اہم ادارے اورتنظیمیں بنا رکھی ہیں ۔ کئی حکومتوں کو اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے، اور کئی جمہوری ممالک کی اہم پارٹیوں کو اپنا ہم نوا بنا رکھا ہے ۔امریکہ کی ری پبلکن پارٹی اس کا سب سےطاقتور اور اہم بازو ہے۔
اسی پارٹی کے لیڈر ٹرمپ کی شکل میں ایک شر پسند شخص دنیا کے طاقتور ترین ملک کا سربراہ بن بیٹھا ، جو انسانی مساوات کے کسی بھی اصول پر یقین نہیں رکھتا ہے ، جو انسانوں کو اس کے رنگ ، نسل ، قوم اور مذہب سے پرکھتا ہے ۔جس کے دل میں اسلام کے تئیں بغض و عناد کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔یہ ایک ذہنیت ہے اور کناڈا کے کیوبک سٹی میں نمازیوں پر اے کے 47؍سے فائرنگ کردینا اسی ذہنیت کا آئینہ ہے جو گزشتہ کئی سال سے پروان چڑھائی گئی ہے ۔ اس فکر کو نفرت کی کھاد، عصبیتکے پانی اور دشمنی کی دھوپ سے کاشت کیا گیا ہے ۔ اب اس کشتِ نفرت کی لہلہاتی فصل کے روپ میں فرانسیسی دہشت گرد ’الیگزنڈر بیسونیٹ‘پیداہورہے ہیں۔
بات صرف ایک الیگزنڈر بیسونیٹ کی نہیں ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے دہشت گرد امریکہ ، کناڈا اوریوروپ میں گھوم رہے ہیں۔ جن کے ذہنوں میں 24؍گھنٹے صہیونی مالکان کا میڈیا اسلام کےخلاف زہر بھرتا رہتا ہے ۔ اسی میڈیا کا کمال تھا کہ کیوبیک سٹی کی مسجد میں جب دہشت گردانہ حملہ ہوا تو حملہ کے ساتھ ہی میڈیا نے اسے مسلم دہشت گردی سے جوڑنا شروع کردیا۔ نہ صرف جوڑنا شروع کیا بلکہ کئی من گھڑت کہانیاں بھی اپنے ناظرین کو بتانے لگا۔ ان ہی من گھڑت کہانیوں میں سے ایک یہ تھی کہ دہشت گرد نے پہلے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور پھر مشین گن کا دہانہ کھول دیانیز دہشت گرد کا تعلق مراقش سے ہے، جبکہ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ حملہ آور ایک مسیحی دہشت گرد ہے۔
دہشت گرد الیگزنڈ بیسونیٹ ایک فرانسیسی ہے ۔ الیگزنڈر کا فیس بک اکاؤنٹ اس کے نظریات کا غماز ہے۔وہ ڈونالڈ ٹرمپ کا شیدائی ، جرمنی کی شدت پسند لیڈر ’پین ۔لی‘ کا بھی مداح ہے اور سب سے اہم وہ صہیونی فوج کا پرستار ہے ۔ اس نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ان تینوں کو پسند کیا ہے ۔ ان تینوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ’اسلام دشمنی‘، جس کی کھاد ’مسلم دہشت گردی‘ کا سوانگ ہے۔
امریکہ اور یوروپ میں پنپتی اور فروغ پاتی’ اسلام دشمنی ‘ایک بہت ہی کارآمد ہتھیار ہے ۔ ایک فرضی مشترکہ دشمن ، جو بالکل حقیقی نظر آئے۔ اس فرضی تصویر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے ’مسلم دہشت گردی‘ کی کہانیوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ٹرمپ کا سات ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگادینا بھی اسی مشق کا حصہ ہے۔
سات ممالک کے شہریوںکے امریکہ میں داخلہ پر پابندی میں بھی ٹرمپ نے چند باتوں کی احتیاط برتی ہے ۔ ٹرمپ نے دہشت گردی کو روکنے کے نام پرجن ممالک پر پابندی لگائی ہے ان میں پاکستان اور افغانستان نہیں ہیں۔ اگر واقعی ٹرمپ دہشت گردی کے معاملہ میں سنجیدہ تھے تب تو انہیں سب سے پہلے ان دو ممالک پر ہی پابندی لگانی چاہئے تھی، کیونکہ 11/9 کا حملہ ، جس کے بطن سے ان نظریات کا جنم ہوا ،  اس کے سب سے بڑے مجرم اسامہ (امریکہ کی نظر میں) کو افغانستان نے ہی پناہ دی تھی اور اسے پاکستان میں مارا گیاتھا۔ ان حالات میں دہشت گردی کی پرورش کا سب سے زیادہ خطرہ تو ان دو ممالک سے ہی ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بجائے دیگر سات ممالک کے سینوں پر مسلم دشمنی کا تمغہ سجا دیا گیا۔
ان ساتوں ممالک میں دو قدریں مشترک ہیں ۔ ایک یہ کہ ان میں سے کسی بھی ملک میں ٹرمپ کے کاروبار نہیں ہیں، اور دوسرا یہ کہ 11/9 حملہ میں شامل ایک بھی حملہ آور کا تعلق ان سات ممالک سے نہیں تھا ۔ اس فہرست ایران، عراق، شام ، یمن ، سوڈان ، صومالیہ اور یمن کو شامل کیا گیا۔
ترکی میں حال ہی میں کئی شدید دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں ۔ یہاں امریکیوں پر حملہ کا خطرہ بھی ظاہر کیا گیا لیکن چونکہ استنبول میں ٹرمپ کی کمپنی دو مہنگے اور پر تعیش ٹاور کی تعمیر و آرائش میں شامل ہے اس لئے ترکی کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا ۔ اس سے ٹرمپ کو سالانہ ۶؍ملین پونڈ کا منافع ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بھی ٹرمپ کچھ پرتعیش مکانات ، اسپا سینٹر اور گولف کورس کی تعمیر میںحصہ دار ہیں۔ انڈونیشیا میں ٹرمپ کی کمپنی مقامی بزنس مین کے اشتراک سے دو مہنگے ریسورٹ تعمیر کررہی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نےدہشت گردی کے نام پر اس اقدام کی بنیاد رکھی ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 11/9 حملےکےایک بھی حملہ آور کا تعلق ان سات ممالک میں سے کسی سے بھی نہیں تھا۔ 19؍حملہ آوروں میں سے 15؍کا تعلق سعودی عربیہ سے تھا جبکہ باقی متحدہ عرب امارات، لبنان اور مصر سے تعلق رکھتے تھے۔ ’مسلم دہشت گردی ‘ کی دہشت کو قائم رکھنے کیلئے کسی کے سر تو یہ سہرا باندھنا تھا۔ دنیا ایک غیر محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل ہورہی ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔