طارق فتح اپنے باطل افکار و نظریات کے آئینے میں

اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں جنم لینے والے خوف ناک فتنوں مثلاًشیعہ، خوارج،معتزلہ،قادیانیت اور انکار حدیث کی طرح دور حاضر میں ایک بڑا فتنہ تجدد پسندی اور فکری الحاد کاہے؛ جس کا مقصد امت مسلمہ کو اس کے ماضی سے کاٹ دینا اور اسے دین اسلام کی چودہ سو سالہ متفقہ،متوارث تعبیر سےمحروم کر دینا ہے۔

اسلام کےحوالےسےآج ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے اکثرپروگراموں کی سربراہی نیوز چینل پر نظر آنے والاوہ روشن خیال طبقہ کرتاہے؛جوفسطائی طاقتوں اورمغربی آقاؤں کا زرخرید غلام ہے، جس کا کام اسلام کے خلاف دریدہ دہنی اور زہر افشانی ہے ،جو خود کو اسلام کے تابع کرنا پسند نہیں کرتا؛بل کہ اسلام کو اپنے تابع کر نا چاہتاہے؛ اسی لیے قرآن و حدیث کی ایسی من مانی تشریحات کرتاہے کہ ان کے فرشتوں تک کو اس کی خبر نہیں ہوتی ،اسلام کے مبنی برفطرت احکامات کو عقل کے ترازو میں تولتاہے، اگریہ ان کی موٹی عقلوں میں سما جائیں تو ٹھیک، ورنہ ان کی ایسی تاویلات کرتا ہے کہ الامان الحفیظ ۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ چہرے پر اسلامی آثار ، نہ قلب و ذہن اسلام کے تابع ، نہ عادات و اطوار اور اخلاق وکردار پر اسلامی چھاپ؛صرف اپنی ہی لن ترانی ،اپنی ہی کذب بیانی اوراپنی ہی من مانی….
جدیدیت کے اس سیلاب بلاخیز کو ایک طرف تو اسلام دشمن عناصر کا سہارا ہے تو دوسری طرف میڈیا کی پشت پناہی۔
علامہ اقبال نے سچ فرمایا کہ
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اسی مغرب زدہ نظامِ تعلیم کے پروردہ ،ان کی مخصوص تربیت سے متاثر جن بدباطن اور کج فکر، لوگوں نےاسلام کی پاکیزہ شبیہ کو مسخ کرنے میں اہم رول ادا کیا، ان میں جہاں سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین اور جاوید غامدی جیسے دین بیزار افرادسرفہرست ہیں ،وہیں”طارق فتح "کا جادو بھی ان دنوں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ طارق فتح کون ہے ؟اس کے کیا افکارونظریات ہیں ؟کس طرح وہ امت کو اپنے دام تزویر میں پھانس رہاہے ؟
مختصر تعارف:
طارق فتح کے بہ قول اس کے باپ دادا ہندو تھے،جو 20نومبر 1949 کو پاکستان کےمشہورشہر کراچی میں پیدا ہوا،وہیں اس کی نشو نماہوئی،کراچی یونیورسٹی سے حیاتیاتی کیمیا کی تعلیم حاصل کی اورمختلف تحریکات سے جڑا رہا۔
1960اور1970کے ہنگاموں میں جیل جانا پڑا،1977میں اس پرغداروطن ہونے کا فرد جرم عائدہوااور پاکستان کے خلاف تنقیدی بیانات کی وجہ سے تقاریر پر بھی پابندی لگادی گئی،پھر پاکستان سے فرار ہوکر 10سال سعودی عرب میں مقیم رہا،جب وہاں بھی امان نہ ملی تو کناڈا میں مستقل سکونت اختیارکرلی ،اس دوران صحافت سے گہری دل چسپی رہی اور کچھ متنازع کتابیں بھی معرض وجود میں آئیں۔
اب یہ شخص پچھلےڈھائی سال سے ہندوستان میں مقیم ہےاور ہندوستانی میڈیا کی آنکھ کا تارا بنا ہواہے؛جس کا ماننا ہے کہ بدقسمتی سے اس کی پیدائش پاکستان میں ہوئی حالانکہ اس کو ہندوستان اور اس کی جمہوریت سے سچی محبت ہے ۔
بنیادی افکارونظریات:
طارق فتح عجیب وغریب نظریات کا حامل ہے؛ جس کا مقصداسلام دشمنی کوفروغ دینا ،مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچانااور ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاز کرنا ہے؛یہی وجہ ہے کہ اسے ہر مذہبی علامت سے نفرت ہے۔
ایک پروگرام میں اپنے باطل افکار کا اظہار یوں کرتاہے: آپ جانتے ہیں کہ سیکولرزم کیا ہوتی ہے؟سیکولرزم یہ ہےکہ ملک میں کسی طرح کی کوئی مذہبی علامت نہیں ہونی چاہئے۔ فرانس میں جس طرح کی جمہوریت ہے انہی کی طرح اپنی زندگی گذارنی چاہئے جہاں کوئی مذہبی علامت نہیں ہوتی ۔ کوئی فرد اپنے اپنے مذہب پر عمل نہیں کرسکتاہے۔ سب شہریوں کے لئے یکساں قوانین ہے۔
ہندوستان میں مسلم پرسنل لا جیسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے۔ بس ایک قانون ہونا چاہئے جو سب پر لاگو رہے ۔ ہندوستان کا ہر شہری کسی مذہب کو نہ مانے۔اس کا مسلمان ہندو اور دیگر مذاہب سے مطالبہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے یہاں آپس میں شادیاں کریں۔جس طرح میں نے اپنی بیٹی کی شادی غیر مسلم سے کی ہے۔
الغرض :طارق فتح ایک خدابیزار،مذہب مخالف اورکمیونسٹ ذہن کا نہایت چالاک شخص ہے،جو اپنے مفادات کی خاطر کچھ بھی بول سکتا ہے۔
آج کل "زی نیوز "پر بحیثیت "مفتی "بیٹھتا ہے اور "فتح کا فتویٰ "کے عنوان سے اپنے پروگرام پیش کرتا ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ پروگرام اس وقت شروع کیا گیا جب ہندوستان کے کئی صوبوںمیں انتخابات کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا تھا ۔ جس میں صوبہ اترپردیش بھی شامل ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ طارق فتح کی ہندوستان آمد اور شرانگیز بیانات کے ذریعہ ہندوستان کی صاف شفاف پرامن فضاءکومکدر بنانا ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
اس کے پروگرام کی نوعیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ طارق اپنے پروگرام میں ایسے مولوی نما لوگوں کو بحث کے لیے دعوت دیتا ہے جو اس کے اعتراضات کا جواب نہیں دے پاتے اور اگر کبھی دیتے بھی ہیں تو چینل والے اس کو کانٹ چھانٹ کر دکھلاتے ہیں ؛جس سے لوگوں میں یہ پیغام جاتا ہے کہ طارق فتح سچ بول رہا ہے۔
کبھی وہ اپنے ساتھ چندجاہل خواتین لے آتا ہے ، پھر برقعہ،حجاب اور حقوق نسواں سے متعلق سوالات ہوتے ہیں ،حجاب سے متعلق کیے گئے سوالات کے ضمن میں طارق فتح پروگرام میں موجود علماء سے استفسار کرتا ہے کہ قرآن میں برقعہ کا ذکر کہاںہے؟ خطرہ ایمان مولویوں کے غیراطمینان بخش جواب سن کر پروگرام میں موجود خواتین ان کا مذاق اڑانے لگتی ہیں۔
طارق فتح کے ملحدانہ افکاروخیالات کی ایک طویل فہرست ہے؛جن میں چند گمراہ کن نظریات ذیل میں مذکورہیں:
1. فتوی دینے کا حق دار کون ؟
2. ملا کا اسلام الگ اور اللہ کا اسلام الگ !
3. اسلام میں کفر کا فلسفہ اور کافر کون؟
4. اورنگ زیب اورمحمود غزنوی جیسے مسلم حکم راں ظالم ہیں!
5. جہاد بالسیف پر پابندی لگنی چاہئے!
6. بین مذاہب شادیوں کا رواج ہونا چاہئے!
7. یکساں سول کوڈ کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت !
امت کے لئے راہ عمل :
ہمارے مذھب،ہمارے شعائر، آگے بڑھ کر ہمارے صحابہ کرام؛ بلکہ خلفائے راشدین کو گالیاں دی جائیں،
ان پر الزامات تھوپے جائیں،جہاد کو دہشت گردی سے جوڑا جائے،علماءامت کی تضلیل و تکفیر کی جائے،شعائراسلام کی بے حرمتی ہواور ہم خاموش تماشائی بنیں رہیں ؟؟؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ فتنوں کے اس مہیب اور تاریک ترین دور میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟؟؟
اس وقت سب سے بڑی ضرورت اسلامی تعلیمات سے واقف ہونا ہے، لہٰذا اس جانب توجہ دیں، تا کہ حلال حرام کی تمیز ہو سکے، علماء سے اپنے مسائل میں رجوع کریں، اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کی فکر کریں۔
سب سے پہلےاسلا می تعلیمات کوخوب عام کریں، اور یقین رکھیں کہ کامیابی اسی پر عمل کرنے میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔
دعاء کا التزام کریں، اپنے لیے پوری امت کے لیے، رو رو کر اللہ کے دربار میں دعائیں کریں، خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ امت کو منافقین کے شر سے نجات دے اور ہم سب کواسلام پر ثابت قدم رکھے۔
غفلت سے بیدار ہوں، اور دشمنوں کے مکر وفریب سے اور ان کے سازشوں سے واقف ہوں اور اس سے بچنے کی تدابیر کریں تاکہ مغرب کے ان خطرناک حملوں سے اپنی نسلوں کا دفاع کرسکیں۔ یہ بیداری تمام محاذوں پر ہونی چاہیے ۔ اللہم اجعل کیدہم فی تضلیل۔
ٹیلی ویژن کی نحوست سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو، کوسوں دور رکھیں ،فلم، کھیل کود اور فضول چیزوں میں وقت صرف نہ کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔