علماء کیوں یہ سمجھنا نہیں چاہتے؟

ڈاکٹر علیم خان فلکی

             علما ء کی جانب سے انسدادِ جہیز مہم برسہابرس سے جاری ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ لعنت ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں لڑکیوں کا ارتداد، لڑکوں کی بیروزگاری، جرائم اور پیسے والوں کی طرف سے شادیوں میں اپنی دولت کی نمائش  میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مسلم پرسنل بورڈ، علمائے دیوبند، اہلِ حدیث اور مختلف سماجی تنظیمیں جہیز کے خلاف جتنے بھی جتن کررہی ہیں، ہم ان کے خلوص سے انکار نہیں کرسکتے۔ لیکن جس طریقے سے یہ لوگ جہیز اورکھانوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ ایک مریض کو جسے سرجری کی فوری ضرورت ہے، بجائے آپریشن کرنے کے، صرف مرہم پٹّی کے مماثل ہے۔ یہ لوگ نکاح کو آسان کرنے کا نعرہ لگا تو رہے ہیں، لیکن نکاح کو مشکل بنانے والے اوامر کیا ہیں، ان پر غور نہیں کرنا چاہتے۔ بالخصوص علما اور مفتی حضرات جو دیگرموضوعات پر تو تقاریر اور مضامین کے انبار لگادیتے ہیں، عہدِ حاضر میں شادیوں میں مفسدات پر فتویٰ دینے سے گریز کرتے ہیں، اور ان کا جواز نکالنے کے لئے خود چور دروازے کھول کر دیتے ہیں۔ منشائے شریعت کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے اکثریت کی سہولت کو رعایت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

۱۔ غیرشرعی دعوت کا دعوت نامہ قبول کرنا کیا جائز ہے؟

شریعت کا اصول ہے کہ ہر مسئلہ کا حل پہلے قرآن میں تلاش کریں۔ وہاں نہ ملے تو سنّت میں، اور پھر اس کے بعد صحابہؓ، پھر تابعین، تبع تابعین وغیرہ کے اقوال میں۔ اگر وہاں بھی نہ ملے تو قیاس یا اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ لیکن جس مسئلے کا حل سنّت میں موجود ہے، اس کو نظرانداز کرکے دوسروں سے جواز لانادین سے کھلا انحراف ہے۔ جب علما اس بات پر متفق ہیں کہ نماز، روزہ، حج، وضو، غسل، طلاق، وغیرہ کے پورے طریقے اگر رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے ذرا سے بھی ہٹ کر ہوئے تو وہ عبادت باطل ہے، ایسے شخص کے پیچھے نہ نماز پڑھنا جائز ہے، اور نہ اسے مسجد میں آنے دیا جاتا ہے۔ بلکہ اس اختلاف کے نتیجے میں تو فرقے، مسلک، اور مذہب وجود میں لائے گئے، سب کا اسلام الگ ہوگیا، مسجدیں، علما، لباس سب الگ الگ قائم ہوگئے۔ پھر نکاح جو کہ آدھا ایمان ہے، رسول اللہ ﷺ کے گیارہ نکاح، آپ ﷺ کی صاحبزادیوں ؓ، اہلِ بیتؓ، عشرہ مبشرہ  ؓاور کئی اہم ترین صحابیوں ؓ کے نکاح موجود ہیں، ان سب کو نظر انداز کرکے اگر کوئی ہندوؤانہ  رسموں کو اس نکاح میں مباح کہہ کر شامل کرتا ہے، اور ان خرافات کو جائز کرنے کے لئے تحفہ، ہدیہ، مہمان نوازی، دعوت کو قبول کرنے اور قطع رحمی و صلہ رحمی کی آیتوں یا حدیثوں کی انتہائی غلط تعبیر کر کے جواز پیش کرتا ہے،لاکھوں روپیہ بے دردی سے خرچ کرتا ہے ان علما کے فتوے پیش کرتا ہے جو منگنی، شادی اور جہیزسے آلودہ کھانے کی دعوتوں کو خوشی سے دینے کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں، کیا ایسی شادی کی دعوت قبول کرنا جائز ہے؟ ایک لفظ میں جواب دیجئے کہ یہ اخلاقی ہے، غیراخلاقی ہے، جائزہے، ناجائز ہے، مکروہ ہے، افضل ہے، کیا ہے؟

جس شادی میں اسراف و تبذیر جیسے حرام کا ارتکاب ہورہا ہو، وہاں علما اور مشائخین کا داخل ہونا بھی غلط ہے۔ حکم تو یہی ہے کہ اگر انہیں جانے کے بعد علم ہو کہ وہاں منکرات کا ارتکاب ہورہا ہو تو علما اور مشائخین واپس پلٹ جائیں۔ صحابہؓ اگر ایسی کوئی دعوت ہوتی تو نہ صرف پلٹ جاتے تھے کہ بلکہ میزبان کو خلافِ سنّت دکھاوا کرنے پر تھپّڑ رسید کرکے آتے۔ ایک طرف جہیز، عالیشان دعوتوں اور دیگر ہندوؤانہ رسموں کو حرام کہنا، لیکن ایسی شادیوں کا دعوت نامہ قبول کرنا، علما کا عام چلن ہے۔ ان کی وجہ سے عوام کو یہ پروانہ مل جاتا ہے کہ ایسی شادیوں میں شرکت کرنے میں کوئی برائی نہیں۔

ابھی حال ہی میں مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک انتہائی غلط مثال قائم کی۔ پاکستان کے ایک امبانی کی بیٹی کی شادی میں جہاں کروڑوں کا اسراف ہوا، اسٹیج پر جہاں دلہن کے ساتھ بے پردہ انتہائی خوبصورت دوشیزائیں موجود تھیں، ہزاروں مہمانوں کے مجمع میں بڑے بڑے ناچ گانے والے سیلیبریٹیز موجود تھے، مولانا کا شرکت کرنا، تقریر کرنا، ایک بدعت کو ایک سنّت بنادینے کے لئے کافی تھا۔ انہی مولانا کو آئیڈیل سمجھنے والے وجئے واڑہ کے ایک عالم اور مفتی جو قاسمی بھی ہیں، کروڑپتی ہیں، انہوں نے پچھلے ہفتہ اپنی بیٹی کی شادی پر ہزاروں کا مجمع جمع کیا، جن میں کئی سرکاری عہدے داروں اور پولیس آفیسرز کے ساتھ ساتھ مولانا عبدالخالق مدراسی نائب امیر دارلعلوم دیوبندکی سطح کے بڑے علمائے دیوبند، ذمہ دارانِ مسلم پرسنل لابورڈ جن کی نکاح کو آسان کرنے کے موضوع پر شاندار تقریریں موجود ہیں، وہ تمام جہاز سے بلوائے گئے اور فائیواسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرائے گئے،جب کچھ دردمند نوجوان علما نے انہیں فون کرکے توجہ دلائی کہ لڑکی کا باپ کا اس طرح فضول خرچی کرنا غلط ہے تو جواب میں مفتی قاسمی صاحب نے کروڑوں روپئے کی ایسی دعوت کے جائز ہونے کے حق میں قرآن یا حدیث سے کوئی دلیل دینے کے بجائے،  سوال کرنے والوں کو انتہائی فحش گالیوں کے ساتھ دھمکی دی کہ وہ کمشنر سے کہہ کر ان کے خلاف ہتک ِ عزت کا دعویٰ دائر کردیں گے۔ کچھ نوجوانوں نے ان کی مغلظات سے پُر جاہلانہ گفتگو کو ریکارڈ کرکے سوشیل میڈیا پر پھیلادیا۔ یہ تو اب بھی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ جو کچھ کیا بالکل شریعت کے مطابق ہی کیا، لیکن ان کی ریکارڈنگ کی وجہ سے تمام علما، اکابرین، دیوبند اور بالخصوص تبلیغی جماعت کا وقار جو خاک میں ملا ہے، انہیں اس کا احساس نہیں۔ سوال تو ان تمام علما سے ہے جو ایک طرف نکاح کو آسان کرنے کی تقریریں فرماتے ہیں، لیکن ایسی دعوتوں کا رقعہ اور چیک ملتے ہی دوڑ کر شرکت کرتے ہیں۔ سالانہ چندوں کی آس میں یہ لوگ یہ سوال نہیں کرسکتے کہ ایسی شادیاں نہ صرف مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک کے خلاف ہے بلکہ عام انسانوں پر اس کے بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے لوگ گھر بیچنے، سود پر پیسہ لانے، یاپھر خیرات اور چندے مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔انہی مفتی قاسمی صاحب کے سمدھی جو محبوب نگر،تلنگانہ کے علما میں سب سے بڑا مقام رکھتے ہیں،  انہوں نے بھی کئی ڈِ ش پر مشتمل عالیشان ولیمہ دیا۔ خیر یہ کسی ایک علاقہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ پورے ہندوستان میں علما کا یہی چلن ہے۔ کل تک جنہوں نے دو چار کمروں کے کرائے کے گھروں میں کچھ یتیموں اور مسکینوں کے بچوں کو شریک کرکے جو مدرسے قائم کئے تھے، آج وہ مدرسے کروڑہا روپئے کی ذاتی جائدادوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان کے گھروں کی شادیاں سیاسی لیڈروں کی شادیوں کی برابری کرتی ہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ سارے فضول خرچ علما ایک دوسرے کے سمدھی، سالے یا داماد ہیں۔ کرونا سے پہلے ہم نے جب دارلعلوم دیوبند حاضر ہوئے، تو ہمیں طلبا سے ہی یہ پتہ چلا کہ وہاں کے دو بڑے استاد جو سگے بھائی ہیں، انہوں نے آپس میں اپنے بیٹا اور بیٹی کی شادی کی تو بالکل سیاسی لیڈروں کی طرح پرتعیّش شادی کی۔ ہم نے یہ سوال دیوبند کے دارالافتا کے ذمہ داروں کے سامنے اٹھایا، تو وہ ناراض ہوگئے اور کہا کہ یہ کسی کا ذاتی معاملہ ہے، آپ کو دخل دینے کا حق نہیں۔ ہم نے کہا دارلعلوم سارے ہندوستان کا دینی اور علمی مرکز ہے۔ ہزاروں طلبا کے لئے یہی استاد ایک عملی نمونہ  ہیں۔ اگر ان طلبا نے یہاں سے یہ سیکھ کر نکلا کہ اسراف اور تبذیر کے خلاف تقریریں کیا کرنی ہیں، اور جب اپنی شادیاں ہوں تو وہ کس طرح کرنی ہے تو اس میں پوری امت کی گمراہی ہے۔ ہم کو امر بالمعروف کے تحت یہ حق ہے کہ اس معاملے کو اٹھائیں اور احتساب کریں۔ لیکن ہم کو یہ کہہ کر بے عزتی سے نکال دیا گیا کہ کالج اور یونیورسٹی میں کیا پڑھ لیتے ہیں، علما پر تنقیدیں کرنے لگتے ہیں۔ ایک بہت بڑے عالم صاحب نے یہ تک کہا کہ پہلے اپنی جینس کی پائینچے سنّت پر کیجئے پھر نکاح کی سنت کی بات کیجئے۔

بہرحال، علما یہ فرمائیں کہ کیا ایسی شادیوں کا رقعہ قبول کرنا جائز ہے جن شادیوں میں اللہ کے نبی ﷺ کی سنت کو نظرانداز کرکے مہارانی جودھا بائی یا رامچندجی اور سیتا کی شادیوں کی رسموں کو جائز کرلیا جاتا ہے؟بعض علما کا یہ کہنا کہ شرکت نہیں کرنی چاہئے، ہاں؛ صرف نکاح کی محفل میں یا ولیمہ میں شرکت کی جاسکتی ہے۔ یہ تو اور بھی بڑا فتنہ ہے۔ شادی کی دس تقریبات میں سے ایک میں شرکت کرلینا بھی پوری شادی کو معتبر بنادینا ہے۔

۲۔ شادی کے دن کا کھانا

شائد شمالی ہندوستان میں کھانوں اور بڑے بڑے شادی خانوں کا چلن زیادہ نہیں ہے، وہاں ہنڈا اور جہیز بہت زیادہ ہے۔ لیکن جنوبی ہندوستان میں لوگ کھانوں کے لئے مرجاتے ہیں۔ جہیز تو دو چار لاکھ کا ہوتا ہے، لیکن منگنی، سانچق، شادی کے دن کا کھانا اور دیگر رسموں میں لڑکی والوں کی طرف سے جو کھانے کہیں بطور رسم اور کہیں بطور ڈیمانڈ لئے جاتے ہیں، وہ کئی کئی لاکھ کے ہوجاتے ہیں۔ ارتداد، خودکشیاں، اور غربت کی اصل وجہ یہی ہے۔ علما سے سوال یہ ہے کہ اِس فتنہ پرور بدعت کو جو دورِ رسالت میں موجود تھی ہی نہیں، کیا اس دور میں کوئی خوشی سے دینے کے نام پر جائز کررہا ہے تو یہ حلال ہے؟ حرام ہے؟ جائز ہے؟ ناجائز ہے؟ اگر آپ اسے غلط قرار دیتے ہیں لیکن دعوت قبول کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں، تو کیا آپ ایک غلط کو جائز کرنے کا چور دروازہ کھول کر نہیں دے رہے ہیں؟جب ایسی شادیوں میں شرکت کی اجازت ہے تو پھر ایسی شادیوں کا رکنا ناممکن ہے۔ پورے ہندوستان پاکستا ن میں ایک بھی لڑکی کے ماں باپ ایسے نہیں ملیں گے جو یہ کہہ دیں کہ ہاں؛ ہم  خوشی سے نہیں بلکہ  زبردستی کی وجہ سے دے رہے ہیں۔ اگر کوئی کہہ دے تو پھر اس کی بیٹی کی شادی ممکن نہیں۔ یہ ایک سوشیل بلیک میل ہے۔

اگر علما نکاح کو واقعی آسام بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اِن کھانوں کی دعوت پر شرعی نقطہ نظر پیش کریں۔ اور جائز یا ناجائز کا ایک لفظ میں فیصلہ سنائیں۔

۳۔  نقد مہر

نقد مہر سے مراد صرف کچھ نقد کیش کی نہیں ہے۔ اس میں جہیز اور کھانوں کا مکمل خاتمہ موجود ہے۔ شریعت نے شادی پر خرچ کرنے کا ذمہ دار مرد کو بنایا ہے۔ وہی کھانا کھلائے، وہی مہر دے۔ لڑکی والوں سے کسی بھی قسم کا خرچ کروانا، سنّت کے خلاف ہے۔ گیارہ ہزار کے مہر کے مقابلے میں گیارہ لاکھ کی شادی وصول کرنا رشوت، بھیک، فتنہ اور سوشیل بلیک میل ہے۔ جس طرح نماز میں کوئی واجب کا چھوڑدینا نماز کو باطل کردیتا ہے، اسی طرح نکاح میں بھی اصل سنّت کو ختم کردینا اور ادھار مہر کا رواج دے کر الٹا لڑکی والوں کو خرچ پر مجبور کردینا، نکاح کو بھی باطل کردیتا ہے۔ لیکن علما یہ اجتہاد کرنا نہیں چاہتے کیونکہ ان کے مدرسوں کے نصاب میں جس میں سارے مسائل ہیں، صرف نکاح کو آسان بنانے کے احکام اور مسائل ہی نہیں۔ قاضی کو چونکہ اس کے دو چار روپئے وصول کرنے سے غرض ہوتی ہے، اس لئے وہ نکاح میں فرض، واجب، یا سنّت ادا ہورہے ہیں یا نہیں، یہ نہیں دیکھتا، ایجاب و قبول کرواکر اپنی فیس لے کر چلتا بنتا ہے۔

جہاں علما فقہی مسائل میں قرآن یا سیرت سے استنباط کرتے ہیں، استنباط کے یہی اصول نکاح کے معاملے میں کیوں نہیں روا رکھتے؟ جن چیزوں کو لوگ جہیزِ فاطمی کہہ کر جہیز کے جائز ہونے کا فتویٰ لاتے ہیں، وہ لوگ جہیز کی قیمت کیا تھی یہ کیوں نہیں سوچتے۔ اس جہیز کی قیمت بمشکل پچاس دینار تھی، جبکہ حضرت علی ؓ کا اڈوانش میں دیا ہوا مہر چار سو دینار تھا۔ اب فقہا یہ استنباط کیوں نہیں کرنا چاہتے کہ جہیز کو مہر کی رقم کا دس فیصد ہونا چاہئے۔ اصل وجہ یہ ہے علما  نے اجماع، قیاس یا اجتہاد کے دروازے بند کرڈالے ہیں۔ مسائل کو کئی سو سال پہلے لکھی گئی اس فقہ میں تلاش کرتے ہیں جب نہ لڑکیوں سے کھانا یا جہیز لینے کا رواج تھا، نہ جوڑے کی رقم کا نہ منگنی کا۔ لہذا اس دور کے علما یا ائمہ نے اگر کسی باپ کو خوشی سے مہمان نوازی کی اجازت دے دی تو اسی کو وحی کا درجہ دیتے ہیں اور پوری امت کو اجازت دیتے ہیں کہ لڑکی والوں کو جیسا چاہے لوٹیں۔ لڑکیوں کے باپ استطاعت رکھتے ہیں یا نہیں،یہ علما یا قاضیوں کا مسئلہ نہیں۔ چاہے لڑکیاں بغاوت کریں، چاہے قوم غربت و افلاس کا شکار ہوکر بے شمار برائیوں میں مبتلا ہوجائے۔

۴۔ جیری لین دین

مسلم پرسنل لا بورڈ کے لٹریچر میں توجہ دلانے کے باوجود جبری لین دین کا الفاظ استعمال ہورہے ہیں، گویا جہیز دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک جبری، دوسرا خوشی سے۔ پہلے علما طئے کریں کہ عہدِ حاضر میں جہیز کی تھوڑی سی گنجائش نکالی جاسکتی ہے؟ بالخصوص خوشی سے دینے والوں کے لئے؟ ہرگز نہیں۔ اگر پتہ چل جائے کہ کسی لڑکی کا باپ جہیز نہیں دے سکتا تو لوگ اس کے گھر رشتہ ہی نہیں بھیجتے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ صرف جبری لین دین کو نہیں بلکہ نفس لین دین ہی کی شرعی اور اخلاقی حیثیت طئے کرے کہ فی زمانہ یہ جائز ہے؟ ناجائز ہے؟ حلال ہے؟ حرام ہے؟ بھیک ہے؟ فتنہ ہے؟ بلیک میل ہے یا کیا ہے۔

کئی علما اور دانشوروں نے ہماری ان باتوں کو شدّت پسندی فرمایا۔ حالانکہ شدت پسندی تو وہ لوگ کررہے ہیں جن کو اس دور میں سنّت کے مطابق شادیاں کرنے میں بے انتہا احساسِ کمتری محسوس ہوتا ہے۔ یہ لوگ رسول اللہ کی شادی کے ماڈل پر اپنے رشتہ داروں کی شادیوں کے ماڈل کو ترجیح دیتے ہیں، اور اپنے رشتہ داروں سے مقابلہ آرائی کرتے ہیں۔ علما یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اسلام نے جہاں احکامات دیئے، نافرمانی کی صورت میں تعزیر بھی مقرر کی۔ اگر بچہ دس سال کے بعد نماز نہ پڑھے تو چھڑی اٹھانے کا حکم ہے۔شرابیوں کو کوڑوں کی سزا ہے۔ ایک نشست میں تین طلاق دینے والے کو بھی سزا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے متعہ یا حلالہ کرنے والے کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ زانی یا زانیہ کی بھی سزا ہے۔ حج میں غلطی کرنے والوں کی سزا  ”دم“ دینا ہے، بیوی اگر سمجھانے کے باوجود نافرمانی اور سرکشی کرے تو بستر الگ کرنا اور پھر مارنا بھی ہے۔اور ایسی بے شمار سزائیں ہیں جو تنبیہ کے طور پر شریعت نے مقرر کی ہیں۔ کیا یہ بھی شدّت پسندی ہے؟ انہی احکامات سے استنباط کیا جاسکتا ہے۔ اور نکاح جیسی اہم ترین سنت کو بدل دینے والے پر اس دور میں کوڑے کی سزا مقرر نہیں کی جاسکتی۔ خود سعودی عرب میں جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں، شادیوں پر کروڑوں روپیہ لٹایا جاتا ہے، لیکن کوئی سزا نہیں۔ جتنے بڑے شیوخ یعنی علما ہیں وہ خود اس میں ملوّث ہوتے ہیں۔ اس دور میں اس بدترین لعنت کو ختم کرنے کی کم سے کم سزا یہی ہے کہ پہلے ایسی دعوتوں کا رقعہ قبول کرنے، ایسی شادیوں میں شرکت کرنے اور کھانے کھانے کو ناجائز قرار دیا جائے۔ اس طرح کی شادیاں کرنے والوں کے سماجی بائیکاٹ کی ہمت افزائی کی جائے۔ عام آدمیوں کی شادیوں کا بائیکاٹ کیا جائے، ان کا دعوت نامہ واپس کیا جائے تاکہ سبھی کو شرم آئے۔ اور اگر مدرسوں کے فارغ لوگ ہی ایسا کریں تو ان کی سند واپس لی جائے، انہیں عالم، مفتی یا کامل فاضل کی سند سے محروم کردیا جائے اور اس کی تشہیر کی جائے تاکہ تمام علما کو وارننگ ملے۔

مدرسوں کے نصاب میں تبدیلی کی سخت ضرورت ہے۔ نکاح کو آسان بنانے کے لئے نکاح کو مشکل بنانے والے کاموں کی شرعی حیثیت، ان کو روکنے کے لئے سخت اقدامات اور اس کے باوجود ان پر عمل نہ کرنے والوں کا شریعت میں مقام طئے کیا جائے۔ ہم کو کیرالا کی کمیونسٹ حکومت سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہیکہ اس نے اسلام کے حکم کو نافذ کرکے ایک مثالی قدم اٹھایا۔ تمام گورنمنٹ ملازمین اور گریجویٹس کو پابند کردیا کہ کہ کبھی جہیز نہ لینے کے عہدنامے پر دستخط کریں ورنہ انہیں نوکری اور ڈگری دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ہر مدرسہ یہ عہد لے کہ کوئی سند اس وقت تک نہیں ملے گی جب تک طلبا ایسی دعوتوں میں ہرگز شرکت نہیں کرنے کا عہد نہیں کرینگے جن میں منگنی، بارات، جہیز، ہنڈا یا کسی بھی قسم کی غیرشرعی رسم ہوگی۔ عہد کرکے بھی اگر کوئی حافظ یا عالم ایسی منکرات کا ارتکاب کرے گا تو اسے کسی مدرسے میں نہ استاد رکھا جائیگا، نہ تراویح اس کے پیچھے پڑھی جائیگی۔ اور خود لوگ بھی مدرسوں کو چندہ دینے سے پہلے یہ چیک کریں کہ اس مدرسے کے ذمہ دار کہاں تک جہیز اور کھانوں کے لین دین میں ملوّث ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔