میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں!

ایس ایم عارف حسین

            محمد ﷺ نے عالم انسانیت کو آگاہ کیا کہ "مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے”۔ آپ صلعم کا یہ انکشاف دنیا بھر کے معلمین کیلیے باعث افتخار ہے۔

    ” معلم” – استاد- گرو یا ماسٹر اسکو کہتے ہیں جو پڑھنا لکھنا سکھاے- کوئ ہنر بتاے-کسی کھیل میں رہنمائ کرے- اجتماعی و معاشرتی کاموں میں رہنما و سپہ سالاری کی ذمداری سمبھالے وغیرہ وغیرہ۔

     اللہ نے حضور صلعم کو ساری انسانیت کیلیے "معلم” و آخری رسول اور  رحمت اللعلمین بناکر بھیجا اور آپ ص پر اپنی ہدایات کو "قرآن مجید” کی شکل میں نازل فرماکر دین اسلام کی تکمیل کی۔ اسطرح آپ ص کی معلمانہ کیفیت کو مستحکم کیا۔

         آیئے آپ ص کی چند ایک معلمانہ صفات پر نظر ڈالتے ہیں۔   جبریل علیہ سلام جب بھی اللہ کیجانب سے ” وحی” لیکر آتے آپ ص کے آگے دو زانو ہوکر بیٹھتے اور وحی پہونچاتے۔  یہاں قابل ذکر بات یہ ہیکہ ایک فرشتہ ہوتے ہوے معلم حضور ص کا کسقدر احترام کرتے تھے۔ لھذا دنیا کے انسانوں کو چاہیے کہ وہ معلمین کی قدر و عزت کریں تب ہی کہیں جاکر علم کی دولت سے سرفراز ہوسکتے ہیں۔

    ” آپ ص سارے عالم کیلیے ایک معلم بناکر بھیجے گیے” ۔  آپ ص کی نبوت والی زندگی کا ہر لمحہ چاہے وہ ظاہری ہو یا پردہ والا وہ  برتاو کے لحاظ سے معلمانہ صفت سے بھرپور تھا۔

     حسب ذیل متذکرہ چند امور پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہیکہ ایک حقیقی معلم کی کیا صفات ہونی چاہیے۔

     جب جب آپ ص پر وحی نازل ہوتی اسکو اپنے گھر والوں اور صحابہ میں جلد از جلد پہونچا دیتے اور بار بار وحی کے مضمون کو دہراتے اور زبانی یاد فرمالیتے اور صحابہ کو بھی زبانی یاد کرنیکی جانب توجہ مبزول کرواتے۔ یہاں دنیا بھر کے معلمین کو یہ سبق لینا چاہیے کہ کسی "مضمون” کو اپنے شاگردوں تک پہونچانے سے پہلے خود اچھی طرح پڑھ لینا اور یاد کرلینا چاہیے اور پہر شاگردوں کو پڑھنے اور یاد کرنیکی طرف توجہ دلانی چاہیے۔ آپ ص کی اس معلمانہ صفت سے یہ درس ملتا ہیکہ کسی بھی کام کی ہدایت سے قبل از خود اس پر عمل کرنا ضروری ہے تب ہی کہیں جاکر سامنے والے طلباء و حاضرین پر مثبت اثر مرتب ہوتا ہے۔

      ایک "معلم” وہی نہیں ہوتا جو دنیاوی تعلیم کے اسنادات رکھتا ہو بلکہ زندگی کا ہر پہلو جیسے اٹھنا بیٹھنا-چلنا-آرام کرنا- کھانا پینا- اپنے گھروالوں اور پڑوسیوں- رشتہ داروں و دوست احباب کے ساتھ برتاو- روزگار کے حصول کے جایز طریقہ کو اپنانا- اپنے دین کی اشاعت پر محنت کرنا- معاشرہ کے افراد کی ہر اچھی بری خبر کا علم رکھنا اور معاشرہ کی اجتماعی بہتری و سدھار کیلیے عملی اقدامات کرنا اور اپنا اور اپنے مذہب کے ماننے والوں کا تحفظ اور مذہب کی بقاء  کی فکر کرنا اور ضرورت پڑجاے تو مذہبی و سماجی دشمن سے معاشرتی و طبعی مقابلہ کرنا یہ تمام کیفیات کا مالک بھی معلم کا مقام رکھتا ہے۔

     آیئے ھمارے پیارے رسول صلعم کی  زندگی کے چند چھوٹے چھوٹے واقعات پر نظر ڈالیں جو آپ ص کی معلمانہ صفت کو کھول کھول کر بیان کرتی ہیں جو ایک معلم میں پاے جانا لازمی ہے تب کہیں جاکر ایک عام انسان معلم کہلانے کے قابل بنتا ہے۔

حضور صلعم کی زندگی کا معمول تھا کہ آپ ص کم کھاتے- کم سوتے- سادہ لباس زیب تن کرتے- شیریں گفتگو کرتے  اور آواز درمیانی ہوتی-کسی مزاحیہ بات پر بنلد قہقہوں کی بجاے صرف مسکراتے- مقرر کی حیثیت سے مجلس میں ہر فرد کی بات پر توجہ دیتے اور پوچھے گیے سوال کا اطمینان بخش جواب دیتے- ضرورت پر دشمن سے مقابلہ کرنے کیلیے منصوبہ بندی فرماتے اور جنگ کے میدان میں از خود آگے آگے رہتے یعنی سپہ سالاری کی ذمداری بھی نبھاتے- ہر کام کی شروعات سے قبل اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے۔

       جہاں تک آپ ص کی نجی زندگی کا تعلق ہے آپ ص ذیادہ سے ذیادہ وقت عبادات میں گذارتے۔ رات کا قریب دوتہائ حصہ عبادت اور اللہ کے سامنے گڑگڑاکر  رونے اور خاصکر اپنی امت کی بہتری اور بخشش کیلیے دعا کرتے کرتے اور شکر ادا کرنے میں گذرجاتا یہاں تک کہ عبادت میں کھڑے کھڑے آپ ص کے پیر مبارک پر سوجن آجاتی۔ اپنے گھر کے کام میں اپنی زوجہ کی مدد فرماتے۔   اپنی بیوی کو خوش کرنے کیلے کبھی کبھار انکے ساتھ کھیلا کرتے۔  آپ ص کے گھر جب آپکی بیٹی تشریف لاتیں تو محبت میں استقبال کیلیے اٹھکر کھڑے ہوجاتے اور بیٹی کی پیشانی کو چومتے۔  جب کبھی گھر سے باہر جانا ہوتا سب سے آخیر میں بیٹی سے ملاقات کرکے گھر سے وداع ہوتے۔  آپ ص کے بیٹی و داماد میں کچھ ان بن ہوجاتی تب بنفس نفیس معاملہ کو سلجھاتے۔  آپ ص اپنی رضائ بہن کو بھی بہت ذیادہ چاہتے یہاں تک کہ جب بہن آپ ص سے ملنے گھر آتیں تب آپ ص استقبال فرماتے اور اپنی چادر پھیلاکر اسپر بٹھاتے اور جب  وداع ہوکر جانے لگتیں تو آپ ص گھر کےباہر تک آکر وداع کرتے اور بہن کے جاتے ہوے منظر کو آنکھوں سے اوجھل ہونے تک انتظار فرماتے۔ آپ ص اپنے نواسوں سے والہانہ محبت کرتے ایسا بھی دیکھا گیا کہ حالت نماز میں جب نواسہ آپ ص کی پیٹ پر سوار ہوجاتے تب آپ ص سجدوں کو طویل فرماتے یہاں تک کہ بساوقات آپ ص کے پیچھے نماز ادا کرنے والے صحابہ طویل سجدہ کی وجہ سے پریشان ہوجاتے۔

       حضور صلعم کی مذکورہ بالا صفات سے یہ امر واضح ہوجاتا ہیکہ معلم صرف اسی کو نہیں کہتے جو دنیا کی اعلی تعلیم حاصل کرکے اسنادات کا مالک بنے بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کی اچھایئوں اور برایئوں کے فرق سے انسانوں کو واقف کراتے ہوے معاشرہ میں انفرادی و اجتماعی بہتری لاے۔

      لھذا دور حاضر کے معلمین کو چاہیے کہ ایک سچے معلم بنیں۔   اسکے لیے حضور صلعم کی مذکورہ بالا صفات پر عمل کرنا لازمی ہے تب ہی کہیں جاکر” ایک حقیقی معلم”کا مقام حاصل کرسکتے ہیں ۔  صرف دنیاوی تعلیم کی اسنادات کا حاصل کرنا ایک معلم کیلیے کافی نہیں۔

دست قدرت نے سموے ہیں اجالے مجھ میں

جب ضرورت ہو چراغوں کو’ جلالو مجھ کو

تبصرے بند ہیں۔