حالتِ دل زبوں تھی زبوں رہ گئی
ابن چمؔن
حالتِ دل زبوں تھی زبوں رہ گئی
شدت تشنگی جوں کی توں رہ گئی
۔
ہم جلاتے رہے ہیں چراغِ وفا
اور چلتی ہوائے فسوں رہ گئی
۔
غم کی بارش سے سارا بدن دھل گیا
پھر بھی ماتھے پہ گرد جنوں رہ گئی
۔
حسرتیں اک کے بعد اک نکلتی گئیں
دل میں بس آرزوئے سکوں رہ گئی
۔
موت کو میں تو آنکھیں دکھا آیا تھا
زندگی ہی مری سرنگوں رہ گئی
۔
سب نکل آئے میت پہ میری مگر
جس کی خاطر مرا، وہ دروں رہ گئی
۔
اہل علم و ادب نے کہا خوب تر
لاج ابن چمؔن تیری یوں رہ گئی
تبصرے بند ہیں۔