غالب اکیڈمی میں ماہانہ ادبی نشست کا اہتمام

گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ایک ماہانہ ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کی۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ زبان شاعری سے زندہ رہتی ہے۔ جس زبان میں شاعری نہیں ہوتی تو وہ زبان بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اردو شاعری کی وجہ سے زندہ ہے اسے نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔

اس موقع پر انجم عثمانی اور چشمہ فاروقی نے اپنے افسانے پیش کئے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمود عاصم نے مولانا آزاد کی کہانی ان کی ما ں کی زبانی کے عنوان سے ایک مضمون پیش کیا۔ ڈاکٹر شہلا احمد نے ساحر لدھیانوی پر ایک تاثراتی مضمون پڑھا۔ کناڈا سے آئے شعرو سخن ڈاٹ نیٹ کے ایڈیٹر جناب سردار علی صاحب نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ انھوں نے کہا کہ کینڈا میں بھی مشاعرے ہوتے ہیں دور دور سے لوگ مشاعرہ سننے آتے ہیں۔ ڈاکٹر فریاد آذر نے انھیں اپنا تازہ مجموعہ کلام پیش کیا۔

نشست میں تقریباً بیس شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:

رہبر ہیں آج کل کے سیاست کے بازیگر
تھے رہنما کبھی جو ہمارے کچھ اور تھے

احمد علی برقی اعظمی

عبرت سے ہمیں دیکھو ہم نے یہ سزا پائی
ہم آج تماشا ہیں کل تک تھے تماشائی

متین امروہوی

ننگِ مے خانہ ہے تو خالی ہیں سب جام و سبو
ساقیا اس میکدے کی داستاں کچھ اور ہے

عزم سہریاوی

بس اس کے وعدۂ فرداپہ عارف
ضعیفی کو جوانی لکھ رہا ہوں

عارف برقی جونپوری

یارب دل و دماغ مرے یوں اجال دے
میری شبِ خیال میں سورج نکال دے

اسرار رازی

غم دل کو ن سی شے ہے غم فرقت کیا ہے

آج تک میں نہ یہ سمجھا کہ محبت کیا ہے

فراز احمد فراز

سب کی نظروں کا میں ہی مرکز ہوں
سر سے چادر سرک گئی ہے کیا

مینا نقوی مرادآبادی

یہ کون اپنا ہے بدلے ہوئے زمانے میں
چراغ جس نے جلایا غریب خانے میں

بشیر چراغ

سوال زندگی کے ختم ہی نہیں ہوتے
کہ امتحان ہی رکھا ہے امتحان کے بعد

رضیہ حیدر خان

قطرے قطرے کو جو ترستے ہیں
میکدہ آج ان کے نام کرو

ذہینہ صدیقی

پرندوں سے کہو جاکر کہ پر مرے بھی ہیں
کہ آسمانوں کے سائے میں گھر میرے بھی ہیں

دویا جین

دوا پھاہے سوئی نشتر سبھی لایا تھا چارہ گر
بڑھے ہیں زخم تو اس نے کریدے اور سلے کتنے

شہلا احمد

نشست میں سیماب سلطان پوری،منوج بیتاب، فریاد آذر،ظہیر برنی نے اپنے کلام پیش کئے۔

تبصرے بند ہیں۔