میں حجاب کیوں کروں؟

شہلا کلیم

حجاب کی غرض و غایت بیان کرنے سے پہلے بات کرتے ہیں ان یورپی ممالک کی جہاں حجاب پر باقاعدہ پابندیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔

فرانس ایسا پہلا یورپی ملک ہے جس نے حجاب پر پابندی عائد کی۔حجاب پر پابندی سب سے پہلے فرانس میں   2010ء میں  متعارف کی گئی تھی۔

اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں 205 امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ عائد ہو سکتا ہےـ

اسپین میں2010ء میں برشلونہ شہر کی بلدیہ عمارتوں میں برقع اور  نقاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔

فرانس ہی کی طرح بلجئیم نے ایک قانون متعارف کیا جس  کے تحت برقع یا کسی شخص کی شناخت کو عوامی جگہ غیرواضح کرنے والے کسی بھی لباس پر 2012ء میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ قانون شکنوں پر 380 یورو جرمانہ اور سات دن تک کی قید کی گنجائش رکھی گئی تھی۔

اطالیہ میں کوئی سرکاری قانون نہیں ہے جس کی رو سے برقعے پر پابندی لگے۔ تاہم ملک کے 1970ء میں اطالوی  مخالف دہشت گردی قانون کا مقصد سیاسی کارکنوں پر گرفت رکھنا ہے۔ اس کی رو سے عوامی جگہوں پر چہرے کو ڈھانکنا غیر قانونی ہےـ۔

 2013ء میں سویٹزرلینڈ کے اطالوی زبان گو علاقے تیچینو نے عوامی علاقوں میں کسی بھی گروہ کی جانب سے نقاب پر پابندی لگانے کے حق میں ووٹ کیا۔

2008ء سے ججوں پر عدالتی احاطے میں برقع یا اسی  طرح کے مذہبی یا سیاسی نشانات پر پابندی عائد ہے جس میں  صلیب، یہودی ٹوپی، پگڑی شامل ہیں۔

ترکی نے برقع اسی طرح پوشیدہ کرنے والوں نقابوں پر1926ء میں پابندی عائد کر دی تھی۔

ہالینڈ نے کافی بحث کے بعد  2015ء میں مکمل چہرے  کے اسلامی حجاب کو سرکاری عمارتوں، اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی حمل و نقل کی جگہوں پر ممنوع قرار دیا۔

قفقاز علاقے میں بڑھتے  روسیوں اور مسلمانوں کے تصادم کے پیش نظر  سٹاوروپول کے ارباب مجاز نے مملکت کے زیر  انتظام اسکولوں میں اسکارف پر پابندی لگادی۔

چین کے شہر اُرُومچی میں برقعے پر پابندی عائد ہے۔

سوویت یونین کی سابقہ جمہوریہ لٹویا نے عورتوں پر  اسلامی طرز کے مکمل چہرے کے حجاب پر ملک بھر میں پابندی عائد کر  دی ـ۔

اس کے علاوہ ہندوستان کے کئ کالج و یونیورسٹیز میں حجابی طالبات کو بے شمار پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑاـ۔

 نہ صرف یہ کہ کئی ایشیائی و مغربی ممالک حجاب پر پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں ـ بلکہ "میرا جسم میری مرضی” جیسی سوچ رکھنے والی مسلم خواتین بھی آزادی کے پرچم تلے حجاب کی مخالفت میں نکل پڑی ہیں ـ

چھوٹے پردے کی اداکارہ سارہ خان اپنے گانے  "بلیک ہارٹ” کی افتتاحی تقریب میں مسلم ہونے کی حیثیت سے انکی عریانیت پر ایک صحافی کے ذریعہ کئے گئے سوال کا بڑی بے ہودگی سے جواب دیتے ہوئے  گالیوں تک اتر آئیں اور راکھی ساونت کے ساتھ مل کر اسلامی قوانین و اصول کی مذمت کرتے ہوئے مسلم مردوں کو آنکھوں کا پردہ کرنے کی نہ صرف تلقین کی بلکہ دعوی کیا کہ مردوں کو برقعہ پہنا کر اندھا کر دینگی ـ مزید یہ کہ وہ گالی دیتے ہوئے سوال کرتی ہیں کہ "تم ہماری عزت کرو ہم نے تمہیں پیدا کیا ورنہ تم کہاں سے آتے؟؟  ہم پردے میں کیوں رہیں تم اپنی آنکھیں کیوں نہیں ڈھک لیتے تم وہ چیز دیکھتے ہی کیوں ہو؟؟

جب راکھی ساونت جیسی فضول عورتوں کے سامنے بے شمار مائک و کیمرہ لیے میڈیا کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے تو حیرت ہوتی ہے اس میڈیا پر جسے پریشان حال عوام کے دکھ، درد ،تکلیفیں نظر نہیں آتی ـ باوجود اسکے کہ وہ اپنے فل ٹشن میں صحافی مرد و عورتوں کی بے عزتی کرتی نظر آتی ہیں پھر بھی میڈیا کی اچھی خاصی ٹیم ہر لمحہ انکے ارد گرد با آسانی دیکھی جا سکتی ہےـ۔

اسکے سوا ایک پاکستانی میڈیا اینکر بھی مباحثے کے دوران یہ سوال کرتی نظر آئی کہ اسلام میں جبر بھی نہیں ہےـ پردہ کرنا نہ کرنا عورت کا اپنا اختیار ہے آپ مجبور نہیں کر سکتےـ

سارہ خان یہ بھی کہتی ہیں کہ "I’m muslim my self”

سب سے پہلے تو بتا دیں کہ اگر وہ مسلم ہیں تو اپنی اس خاص تاریخ سے کیسے ناواقف ہیں کہ پہلے  مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد کے جسم سے پیدا کی گئی ـ۔

دوسری بات وہ کہتی ہیں کہ اپنی آنکھیں بند کر لو ہمیں عزت دوـ۔

   یہ کہاں کا انصاف ہوا  تم تو کہو کہ میرا جسم میری مرضی اور مرد نہ کہے کہ "میری آنکھیں میری مرضی!” "میری ہوس میری مرضی!”

جب تم خود مختار ہو تو کیا مرد تمہارا غلام ہے؟؟؟

پھر تم "می ٹو” جیسی تحریکوں کا سہارا لیتی ہوـ۔

تو کیا تم امید کرتی ہو کہ کھلا گوشت سر عام رکھ دیا جائے اور درندے بھی اس پر نہ جھپٹیں؟؟؟

پھر ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آخر حجاب کا فائدہ کیا ہے؟؟

 یقینا جب ایک باپردہ عورت کسی فائو اسٹار ہوٹل مال یا کسی بھی پبلک پلیس پر جاتی ہے تو اسکی جانب اٹھنے والی نگاہیں یا تو تعظیم و تحسین لیے ہو سکتی ہیں یا پھر تعصب پرستوں کی حقارت بھری نگاہیں ہو سکتی ہیں مگر ہوس بھری نگاہیں  کسی صورت نہیں ہو سکتیں ـ اسکے برعکس عریاں لباس آزادانا خواتین کی جانب اٹھنے والی نگاہیں خواہ انکی حمایتی ہوں یا حریف ہوس بھری ہی ہونگی ـ

اسی لیے اسلام اس متعلق تعلیم دیتا ہےـ۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

(اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے)

 دوسرے نظریہ سے بھی خواتین کا حجاب کے ذریعہ ایک بڑا فائدہ دیکھیں تو اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ہر شخص منفرد نظر آنے کی چاہ میں مقابلہ پر اتر آیا ہےـ ۔

اور اگر اس میدان میں خواتین کی بات کی جائے تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا  کہ کسی تقریب میں منفرد نظر آنے کی خواہش عورت کو چہرے پر کئی کئی مصنوعی پرتیں چڑھانے پہ مجبور کر دیتی ہے ـ۔

دوسری عورت کے مقابلے لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے کے چکر میں ہزاروں روپوں  کے قیمتی زرق برق لباس انکے بجٹ کا اچھا خاصہ بیڑا غرق کر کے رکھ دیتے ہیں ـ

یہ سب کیوں کیا جاتا ہے؟

محض واہ واہی بٹورنے، منفرد دکھنے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلیے ـ تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ انہیں کی چال چل کر بازی مار لے جائیں؟

زرق برق لباسوں سے بھری نمود و نمائش کی محفل سجی ہو اور ایک حجابی عورت اس محفل میں داخل ہو جائے یقینا وہی توجہ کا مرکز ہوگی ـ بھیڑ چال چل کر انفرادیت کی امید نہ رکھیےـ منفرد نظر آنے کیلیے منفرد کام بھی شرط ہیں ـ۔

جب ایک تعصب پرست فرانسیسی خاتون حجاب کی مخالفت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مسلم عورتیں داسیوں کی زندگی جیتی  ہیں ـ تو کم علمی کے باعث بے شمار مسلم خواتین آزادی کا نعرہ لگا بیٹھتی ہیں ـ۔

آخر وہ خواتین داسی کیونکر ہو سکتی ہیں جنکے مذہب نے بیٹی کی صورت میں  عورت کو سراپا رحمت قرار دیا ہو اور ماں ہونے  کی صورت میں جنت ان کے قدموں میں ڈال دی گئ ہوـ۔

مسلم خواتین آخر کس آزادی اور مساوات کی بات کرتی ہیں؟

کیا  فطری اور اخلاقی قیود سے آزاد ہو جانے کا نام آزادی ہے؟

اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت ہی دے دیے تھے۔ جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ عورت اور مرد کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ہوئی تھی ـ اس دور جہالت میں دین اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا جب وہ پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دی جاتی تھیںـ۔

مغرب میں آزادی نسواں کا جو تصور اُبھرا ہے وہ بہت غیر متوازن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ تک دیگر معاشروں کی طرح مغرب میں بھی عورت کو کسی قسم کا کوئی معاشرتی حق حاصل نہیں تھا اور اس کی حیثیت مرد کے غلام کی سی تھی۔ اسی رد عمل کے طور پر وہاں آزادی نسواں کی تحریک شروع ہوئی اور اس کی بنیاد مردوزن کی مساوات پر رکھی گئی مطلب یہ تھا کہ ہر معاملہ میں عورت کومرد کے دوش بدوش لایا جائے۔ چنانچہ معاشرت، معیشت، سیاست اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کو بھی ان تمام ذمہ داریوں کا حق دار گردانا گیا جو اب تک صرف مرد پوری کیا کرتا تھا۔ ساتھ ہی عورت کو وہ تمام حقوق بھی حاصل ہو گئے جو مرد کو حاصل تھے۔ اسی بات کو آزادی نسواں یا مساوات مرد و زن قرار دیا گیا۔ اس کا نتیجہ اس بے بنیاد آزادی کی صورت میں برآمد ہوا کہ عورت تمام فطری اور اخلاقی قیود سے بھی آزاد ہو گئیـ

ایک اور اہم سوال ہے جو وقتا فوقتا کبھی تعصب پرست غیر مذاہب کے ذریعہ اور کبھی آزاد پرست ملسم خواتین کے ذریعہ سر ابھارتا رہا ہے کہ  عورت پردہ کیوں کرے؟

اسلامی نقطہ نظر اور شریعت کے اعتبار اس سوال کے بے شمار مدلل جوابات ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ دیے جاتے رہے ہیں ـ۔

مگر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ دشمن سے اپنی طاقت کے قصیدے پڑھوا لیں؟؟؟ کیا عجب کہ وہ بھڑک نہ اٹھے؟؟؟

 کیوں نا غیر مذاہب کو انہیں کی تاریخ اور تہذیب کے ذریعے لاجواب کیا جائےـ۔

اگر آپ جواب دیں کہ میں مسلمان ہوں میرے خدا اور رسول  کا حکم ہے اسلیے میں حجابی ہوں ـ تو غیر مذاہب کو آپکے مطیع و فرمانبردار ہونے سے کوئی سروکار نہیں وہ آپکے مذہب میں یقین نہیں رکھتے آپکی شریعت کو کیسے قبول کر سکتے ہیں ـ۔

لہذا تھوڑی دیر کیلیے اسلامی قوانین سے ہٹ کر سب سے پہلے حجاب کو ثابت  کرتے ہیں دنیا کی  تاریخ سے ـ۔

ایک ایسی تاریخ جسکا انکار روئے زمین  کا کوئی مذہب، کوئ قوم، کوئی ملک، کوئی فرقہ نہیں کر سکتاـ تاریخ گواہ ہے کہ انسان کو اس روئے زمین پر برہنہ اتارا گیا ـ اسکا شعور بیدار ہوا اسے شرم محسوس ہوئی تو پتوں اور درخت کی چھالوں سے جسم کے کچھ اعضاء کی پردہ پوشی کی ـ پھر کچھ اور شعور آیا  تو جانوروں کی کھال سے جسم کے مزید حصوں کو ڈھانپنا شروع کیا پھر اور شعور بڑھا اور بُننا کاتنا سیکھا تو لباس بھی بڑھتا گیاـ غرض جیسے جیسے شعور بڑھتا گیا اسکا لباس بھی بڑھتا گیاـ ۔

اور قدرت یہ تاریخ آج بھی دہرا رہی ہے کہ جب بچہ دنیا میں قدم رکھتا ہے تو برہنہ ہی ہوتا ہےـ جیسے جیسے اسکا شعور بڑھتا ہے اسکا لباس بھی بڑھتا جاتا ہےـ تعصب پرستوں کے سوال پر یہ نہ کہیے کہ میں مسلمان ہوں اس لیے حجابی ہوں بلکہ کہیے کہ میں با شعور ہوں اسلیے حجابی ہوں ـ جسم پر پورے لباس کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم با شعور ، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ دور سے تعلق رکھتے ہیں نہ کہ پسماندہ آدی مانو عہد سےـ۔

ہاں مگر شعور کا مذہب سے بڑا گہرا ربط ہےـ کیونکہ دوسرے مذاہب کی طرح مسلمان صرف سردی گرمی سے بچاؤ کے لیے کپڑے نہیں پہنتےـ اسلام کے سوا دنیا کا کوئی دوسرا  مذہب یہ نہیں کہتا کہ…..

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔

اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اوراے مسلمانو تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ…

جیسا کہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے تو صرف عورتوں  کے لیے ہی تمام تر اصول و قوانین کی پابندی لازم قرار نہیں دی گئ مرد کو بھی احکامات دیے گئےـ

ارشاد باری تعالی ہے…..

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

(ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔)

لیکن کئ ایشیائی اور مغربی ممالک میں حجاب سے  صرف خواتین کا سر چہرہ یا جسم کا ڈھکنا مراد لیا جاتا ہےـ۔

جبکہ حجاب کے لغوی معنی ڈھانکنا یا چھپانا ہے اسلامی فقہ میں حجاب کا تعلق پردے سے ہے جس کو شرم و حیا اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہےـ۔

اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقع ہر گز نہیں ہے اسی برقع کے بارے میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔

"بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار

اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے”

بلکہ اصل پردہ  نمود و نمائش سے دور رہتے ہوئے  شرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہےـ۔

ایک اور سوال بڑی شدت سے اٹھایا جاتا ہے کہ پردہ ترقی میں رکاوٹ ہےـ۔

شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہےـ۔

 پردہ میں رہ کر ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے۔ جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئندہ نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برخلاف جب پردے سے باہر آجاتی ہے تو زیب و زینت، نمائش، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔

 عورت کی عظمت کا راز اس کے فرض امومیت میں پوشیدہ ہے معاشرتی اور سماجی زندگی میں ماں کو مرکز ی حیثیت حاصل ہے۔ اور خاندانوں کی زندگی اسی جذبہ امومیت سے ہی وابستہ ہے۔ ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو اخلاق اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے۔ جس قوم کی مائیں بلند خیال عالی ہمت اور شائستہ و مہذب ہو نگی اس قوم کے بچے یقینا اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل بن سکیں گے۔ گھر سے باہر کی زندگی میں مرد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں عورت کو فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ اس کے ذمہ نئی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔ اور اس نئی نسل کی صحیح پرورش و پرداخت پر قوم کے مسقبل کا دارمدار ہوتا ہے۔ اس ليے عورت کا شرف و امتیاز اس کی ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس قوم کی عورتیں فرائض ِ امومیت ادا کرنے سے کترانے لگتی ہے اس کا معاشرتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اور اخلاقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں۔ مغربی تمدن کی اقدار عالیہ کو اس ليے زوال آگیاہے کہ وہاں کی عورت آزادی کے نام جذبہ امومیت سے بھی محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ماں کی ہستی اس قدر بلند مرتبت ہے کہ قوم کا حال و مسقبل انہی کے فیض سے ترتیب پاتا ہے۔ قوم کی تقدیر بنانے میں ماں کا کردار بنیادی ہے اس ليے عورت کو چاہیے کہ فرض امومیت کی ادائیگی میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر دےـ۔

 حدود و قیود عورت کو نہ تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے۔ اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے عورت کو دے دی ہے۔ نہ یہ پردہ اسلام کا مقصد ہے اور نہ یہ آزادی اسلام دیتا ہے۔ اسلام عورت کے ليے ایسے ماحول اور مقام کا حامی ہے جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بہتر طور پر استعمال کرسکے اور یہ فطرت کے بھی عین مطابق ہے اس کی خلاف ورزی معاشرت میں لازماً بگاڑ اور انتشار کا باعث بنتی ہےـ۔

 اور اسی طرح انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے جاتا ہے۔ البتہ اپنے دائرہ کار میں اسے شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزارنی چاہیے کہ معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اس طرح روشن ہو جس طرح ذاتِ باری تعالٰی کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑتی ہےـ۔

تبصرے بند ہیں۔