وہ بے وقوف بناتے رہے، مسلمان بنتے رہے!

مدثر احمد

ہندوستان کے مسلمانوں کی معصومیت کہیے یا پھر حماقت و لاپرواہی، جب بھی مسلمانوں کو حکومتوں اور حکومتی نمائندوں  نے بے وقوف بنایااور مسلمان بے وقوف بنتے رہے ہیں جس کی سب سے بہترین مثال سچر کمیٹی کی رپورٹ کو لے کر ہے۔ یو پی اے حکومت نے مسلمانوں کے سماجی، تعلیمی، اقتصادی و معاشی حالات کا جائزہ لینے کے لئے جسٹس راجندر سچر کی صدارت میں ایک کمیٹی کی تشکیل دی تھی اور اس کمیٹی نے ایک سال کی مختصر مدت میں دن رات محنت کرتے ہوئے ایک رپورٹ مرکزی حکومت کو سونپی جس میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کی حالت بے حد خراب ہے اور خرابی کی مشابہت دلتوں کے ساتھ کی گئی ہے۔

ایک طرف مسلمان جانتے ہیں کہ جو حالات آزادی کے بعد سے مسلمانوں کی ہیں اور جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات کے وقت تھیں وہی حالات آج بھی ہیں مگر مرکزی حکومت نے مارچ 2018کو سچر کمیٹی کی سفارشات کے سلسلے میں ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں حکومت نے تصدیق کی ہے کہ سچر کمیٹی کے جملہ 76سفارشات میں سے 72سفارشات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے، 3 سفارشات کو مسترد کیاگیا ہے اور ایک کو ناقابل قبول قرار دیاہے۔ جبکہ 72سفارشات کی جوبات مرکزی حکومت کہہ رہی ہے اس میں 80فی صد سفارشات ایسی ہیں جس میں مسلمانوں کو ڈائرکٹ یا ان ڈائرکٹ فائدہ نہیں پہنچ رہاہے بلکہ براہ نام فائدہ پہنچانے کی بات کہی جارہی ہے، مثلاََ حکومت کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دینےکے لئے آر یم یس اے یعنی راشٹریہ مادھیمک شکشا ابھیان کو نافذ کیا گیا ہے اسی طرح سے یس یس اے یعنی سرواشکشنا ابھیان کو نافذ کیاگیا ہے، ان اسکیموں سے مسلمانوں کو تعلیمی سہولیات دی جارہی ہیں۔ جب کہ دونوں ہی اسکیمیں مرکزی حکومت نے سال 2000میں ہی شروع کررکھی تھیں یعنی کہ سچر رپورٹ کی سفارشات آنے سے پہلے ہی حکومت نے مسلمانوں کو تعلیمی سہولت دینے کا فیصلہ کرلیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں اسکیموں میں صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ہندوستان میں بسے ہوئے ہر شہر ی کو تعلیم دینے کا مقصد ہے۔

اسی طرح سے آر ٹی ای کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں نجی اسکولوں میں مفت تعلیم دینے کی بات کی جاتی ہے، ان تمام اسکیموں کا سرسری طور پر جائزہ لیاجائے تو تمام اسکیموں میں تمام ذات، مذہب اور قوموں کو یکساں حقوق دئے گئے ہیں لیکن جسٹس سچر نے جس زور سے مسلمانوں کو حق دینے کی بات کہی ہے وہ یہاں پر کھری نہیں اترتی۔ آج مسلمانوں کو حقوق دینے کی بات تو کہی جارہی ہے لیکن حقیقت میں انہیں حقوق سے محروم رکھاگیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے لئے حکومت نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا خیال نہیں کیا ہے البتہ امتحان کی جانب سے جو فیس لی جاتی ہے اس میں یس سی یس ٹی کو مکمل چھوٹ یا رعایت تو دی جارہی ہے لیکن مسلمانوں کو جنرل کیٹگیری میں شمار کرتے ہوئے باقاعدہ امتحانات کی فیس کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح سے بے گھروں کے لئے دیئے جانے والے گھروں کی آشریہ اسکیموں کی بات کی جائے تو وہاں پر بھی مسلمانوں کے لئے مخصوص رعایت نہیں ہے جبکہ دلتوں کے لئے نصف فیصد رقم سے گھرمہیا کئے جارہے ہیں اور مسلمانوں کو عام لوگوں کی طرح ہی گھروں کو حاصل کرنے کے لئے قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہے۔

ایسے میں سچر کمیٹی کی سفارشات کا کھلے عام مذاق اڑایا جارہاہے اور مسلمان اس مذاق کو سمجھنے کے بجائے حکومت کی گمراہ کن باتوں پر یقین کرتے ہوئے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک ہم سچر کمیٹی کی سفارشات اور اسے عملی جامہ پہنائے جانے کی رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں اس سے تو یہ بات واضح ہورہی ہے کہ سچر کمیٹی کی جملہ سفارشات میں سے 50فیصد سفارشات کے تحت بھی مسلمانوں کو انکا حق نہیں دیا گیا ہے۔ صرف سچر کمیٹی کی ہی سفارشات نہیں بلکہ پرائم منسٹر  15پوائنٹس پروگرام کا بھی مذاق ہی اڑایا جارہاہے۔ مسلمانوں کو پوری طرح سے گمراہ کیاجارہاہے۔ سچر کمیٹی نے اپنی سفارشات میں یہ بھی کہاہے کہ مظلوم مسلمانوں کو انکا حق ادا کرنے کے لئے عدالتوں کی کارروائیوں میں تیزی لائی جائے لیکن فرقہ وارانہ فسادات میں گرفتار ہونے والے ہزاروں مسلمان مہینوں تک زنداں کی صعبتیں برداشت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، دس پندرہ سالوں تک وہ اپنے مقدموں سے آزادہونے کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے اپنی زندگیوں کے ایام گزار دیتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں حق کہاں مل رہاہے خود آپ سوچیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سب باتوں کی فکر کرنے کا کام ہمارا نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے لوگوں کا ہے جبکہ بڑے بڑے لوگ چھوٹے چھوٹے لوگوں کے بارے میں نہیں سوچتے، نہ سیاستدان اس تعلق سے سوچتے ہیں نہ ہی اہل علم حضرات کو عام لوگوںکی فکر ہے۔

اگر ہماری حالت کو بدلنا ہے تو ہمیں خود سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی غور کریں کہ بڑے لوگوں کے بچوں کو ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے، بڑے لوگوں کو آشریہ اسکیموں کے ذریعے سے گھروں کی ضرورت نہیں ہے، بڑے لوگوں کو مائناریٹی ڈیویلپمنٹ کارپوریشنش کے قرضوںکی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی انہیں سرکاری اسپتال میں ملنے والی سہولیات کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بڑے لوگ ہیں اور انکے مسائل کسی بھی طریقے سے حل ہوسکتے ہیں لیکن آپ اور ہم عام لوگ ہیں اور ہمیں نہ صحیح آنے والی نسلوں کی خاطر سہولیات کی ضرورت ہوگی۔ بابا صاحب امبیڈکر جس وقت ملک کے دستور کو تیار کررہے تھے اس وقت انہیں حکومت نے تمام تر سہولیات سے آراستہ کیاتھا، انکے لئے تمام سرکاری سہولیات مہیا کی تھیں باوجود اسکے انہوںنے دلتوں کے حقوق کے لئے بہترین قانون بنایا اور آئین کے کی ہر شق میں دلتوں کو فائدہ ہی پہنچایا ہے۔

اگر وہ بھی سرکاری سہولیات ملنے پر مطمئن ہوجاتے، خود دلت ہوکر دلتوں کے بارے میں نہ سوچتے تو یقیناََ دلتوں کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ دراصل مسلمان سیاسی قائدین بھی ان باتوں پر سنجید گی سے غور کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مسلمانوں کے حقوق کے لئے سوچنا بھی انکے لئے گنوارہ نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ تو مسلمانوں کا نام لے لے کر اپنی نائو پار لگاچکے ہیں، انکی سیاسی روٹیاںمسلمانوں کے نام سے اچھی طرح پک چکی ہیں اور مسلمان انکے چولہوں کی لکڑیا ں بن چکی ہیں جنہیں یہ سوکھا سوکھا کر وقتََا فوقتََا استعمال کرتے ہیں۔

اب مسلمانوں کو خود ہی اس سمت میں سوچنے کی ضرورت ہے، مسلمان اپنے آپ کو چولہے کی لکڑیا ں بن کر دوسروں کی روٹیاں سینکھنے کے کام آنے کے بجائے اپنے اندر ایسی آگ پیدا کریں جس کی چنگاریوں سے حکومتیں گھبرا کر مسلمانوں کو انکا حق دینے کے لئے آگے آئیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔