سب کی نگاہ میں کیوں، اب ہم کھٹک رہے ہیں

کاشف لاشاری

سب کی نگاہ میں کیوں، اب ہم کھٹک رہے ہیں

تیری تلاش میں جو در در بھٹک رہے ہیں

پتھر کے ہو گئے ہیں پتھر تراش کر ہم

پھندے میں آپ اپنے خود ہی لٹک رہے ہیں

پہلے تو بھول بیٹھے مُجھ کو خوشی خوشی آپ

یاد آ رہا ہوں اب جو، کیوں سر جھٹک رہے ہیں؟

جنبش ہی آخری ہے، قصّہ تمام شد اب

چلنے کے حوصلے ہیں چھالے اٹک رہے ہیں

سنتے نہیں ہو کیا تُم، سینے میں شور سا اک؟

سپنے وصال کے سب اندر چٹک رہے ہیں

اے راہبر بتا نا! تیرا ہے مسئلہ کیا؟

کیوں آج بے تحاشہ تُجھ کو کھٹک رہے ہیں

تَک کر مَیں آپ کو ہی، یاں دنگ رہ گیا ہوں

غصّے سے دیکھ کر کیوں، آنکھیں ٹھٹک رہے ہیں

دل کو سکوں ملا ہے، کچھ درد بھی ہوئے کم

سائے پہ کاشف اپنے، پاؤں پٹک رہے ہیں

تبصرے بند ہیں۔