سب کی نگاہ میں کیوں، اب ہم کھٹک رہے ہیں
کاشف لاشاری
سب کی نگاہ میں کیوں، اب ہم کھٹک رہے ہیں
تیری تلاش میں جو در در بھٹک رہے ہیں
…
پتھر کے ہو گئے ہیں پتھر تراش کر ہم
پھندے میں آپ اپنے خود ہی لٹک رہے ہیں
…
پہلے تو بھول بیٹھے مُجھ کو خوشی خوشی آپ
یاد آ رہا ہوں اب جو، کیوں سر جھٹک رہے ہیں؟
…
جنبش ہی آخری ہے، قصّہ تمام شد اب
چلنے کے حوصلے ہیں چھالے اٹک رہے ہیں
…
سنتے نہیں ہو کیا تُم، سینے میں شور سا اک؟
سپنے وصال کے سب اندر چٹک رہے ہیں
…
اے راہبر بتا نا! تیرا ہے مسئلہ کیا؟
کیوں آج بے تحاشہ تُجھ کو کھٹک رہے ہیں
…
تَک کر مَیں آپ کو ہی، یاں دنگ رہ گیا ہوں
غصّے سے دیکھ کر کیوں، آنکھیں ٹھٹک رہے ہیں
…
دل کو سکوں ملا ہے، کچھ درد بھی ہوئے کم
سائے پہ کاشف اپنے، پاؤں پٹک رہے ہیں
تبصرے بند ہیں۔