غریب  بادشاہ

اختر سلطان اصلاحی

آج جب تمام بچے دادی کے پاس کہانی کے لئے جمع ہوئے تو ارشاد نے کہا دادی آج ہم کسی بادشاہ کی کہانی سنیں گے۔ دادی نے کہا’’کہانی تو سناؤں گی مگر ایک غریب بادشاہ کی وہ بھی بالکل سچی ، تمام بچے پوری توجہ سے دادی کے قریب بیٹھ گئے تو دادی نے کہانی شروع کی ۔
یہ کہانی ایک ایسے بادشاہ کی ہے جو اپنے زمانے کا سب سے بڑا بادشاہ تھا اس کی فوجوں نے دنیا کی دو بڑی حکومتوں کو شکست دے کر ان کے ملکوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ بڑے بڑے بادشاہ اس کا نام سن کر کانپتے تھے۔
’’پھر وہ بادشاہ غریب کیسے ہوا‘‘ عفیفہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’بیٹی ذرا صبر سے کام لو وہی تو بتانے جارہی ہوں، تم لوگ درمیان میں سوال کروگی تو میں کہانی ہی بھول جاؤں گی ویسے بھی بوڑھاپے میں حافظہ کمزور ہوجاتاہے ‘‘۔
تمام بچے غصے سے عفیفہ کو دیکھ رہے تھے اس لئے وہ خاموش ہوگئی اور دادی نے گلا کھنکھارتے ہوئے پھر کہانی شروع کی ۔
ہاں، بچواتنا بڑا بادشاہ ہونے کے باوجود وہ بادشاہ بہت غریب تھا اس کا گھر بہت معمولی تھا، ایک دو جوڑے کپڑے تھے اس پر بھی درجنوں پیوند لگے ہوتے تھے، سر پر جو عمامہ ہوتا تھا وہ بھی اکثر پھٹا پرانا ہوتا تھا، پاؤں میں پھٹی جوتیاں ہوتی تھیں۔ مسجد کے فرش پر بغیر کسی بستر کے لیٹا رہتا تھا غذا اتنی سادہ اور معمولی ہوتی تھی کہ کوئی اس کے ساتھ جلدی کھانا کھانے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ اس کے ملک میں قحط پڑا تو اس نے ہر طرح کا سالن کھانا چھوڑ دیا۔ صرف سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے اور کھجوروں پر وہ گزر بسر کرتا تھا۔
ایک دفعہ وہ بادشاہ دیر تک اپنے گھر میں رہا، باہر لوگ انتظار کررہے تھے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک ہی جوڑا کپڑا تھا جسے دھونے کے بعد سکھایا جارہا تھا جب کپڑا سوکھ گیا تب وہ بادشاہ اسے پہن کر باہر آیا۔ وہ گرچہ بادشاہ تھا مگر لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرنے میں اسے کبھی شرم نہ آتی تھی۔ وہ مجاہدین کے گھروں پہ جاتا اور عورتوں سے کہتا تم کو کچھ بازار سے منگوانا ہو تو میں لادوں وہ لونڈیوں کو ساتھ کردیتیں، وہ چیزیں خرید کر ان کے حوالے کردیتا۔
وہ رعایا کی خبر گیری کے لئے راتوں میں شہر اور اس کے اطراف میں گشت کرتا ایک دفعہ وہ شہر کے باہر ایک قافلے کی حفاظت کے لئے پہرہ دے رہا تھا ایک طرف سے رونے کی آواز آئی دیکھا تو ایک چھوٹا بچہ رورہا ہے ماں سے کہا بچے کو چپ کراؤ، تھوڑی دیر کے بعد جب بادشاہ وہاں سے گزرا تو دیکھا بچہ پھر رورہا ہے، بادشاہ کو غصہ آگیا، بولا ’’تو بڑی بے رحم ماں ہے ‘‘ عورت نے کہا تم کو حقیقت معلوم نہیں ہے بات یہ ہے کہ جب تک بچے ماں کا دودھ نہیں چھوڑتے انہیں وظیفہ نہیں ملتا میں بچے کا دودھ چھڑا رہی ہوں تاکہ اسے وظیفہ ملنے لگے۔ عورت کو معلوم نہ تھا کہ وہ بادشاہ ہی سے بات کررہی ہے ۔ بادشاہ کو بڑا افسوس ہوا اور اسی دن بادشاہ نے حکم دیا کہ بچہ جیسے ہی پیدا ہو اس کا وظیفہ جاری کردیا جائے ۔
ایک بار وہ بادشاہ گشت کے لئے نکلا دیکھا کہ ایک عورت کھانا پکارہی ہے اور دو تین بچے رورہے ہیں اس نے بچو ں کے رونے کی وجہ پوچھی تو عورت نے کہا کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا ہے ان کو بہلانے کے لئے میں نے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دیاہے ۔ بادشاہ نے یہ سنا تو اسے بڑا افسوس ہوا وہ شہر میں آیا۔ بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور غلام سے کہا میری پیٹھ پر رکھ دو، غلام نے کہا میں لے چلتا ہوں مگر بادشاہ نے کہا نہیں کل قیامت کے دن تم میرا بوجھ نہیں اٹھاؤ گے۔ تمام سامان بادشاہ نے خود اٹھایا اور عورت کے پاس لے جاکر رکھ دیا۔ عورت نے کھانا تیار کیا اور بچوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اچھلنے کودنے لگے۔ بادشاہ ان بچوں کو دیکھتا تھا اور خوش ہوتا تھا۔ اس عورت نے کہا ’’اللہ تم کو جزائے خیر سے نوازے سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے امیر ہونے کے لائق تم ہو‘‘۔
’’دادی میں جان گئی آپ کس بادشاہ کی کہانی سنارہی ہیں ، یہی کہانی تو میں نے اردو کی کتاب ’’ہماری کتاب ‘‘ میں پڑھی ہے وہ بادشاہ حضرت عمرؓ تھے ‘‘۔ عفیفہ بولی
’’مگر حضرت عمرؓ بادشاہ کہاں تھے وہ تو خلیفہ تھے۔ بادشاہ اور خلیفہ میں تو بہت فرق ہوتا ہے‘‘۔فاطمہ نے درمیان میں لقمہ دیا۔
دادی جان تو ابھی اور نہ جانے کیا کیا بتاتیں مگر بچوں کی گفتگو کی وجہ سے وہ آگے کی کہانی بھول گئیں انہوں نے کہا ’’عفیفہ نے سچ کہا ، میں حضرت عمرؓ کی زندگی کی کہانی سنارہی تھی ایکہفتے سے میں علامہ شبلیؒ نعمانی کی کتاب ’’الفاروق‘‘ پڑھ رہی ہوں بقیہ کہانیاں اور سچے واقعات تم اسی کتاب سے پڑھ لو‘‘۔
عدی نے جھپٹ کر دادی کی الماری سے کتاب لے لی، سب بچے اس کے پیچھے دوڑے۔ اب عدی کتاب پڑھے گا اور سب بچے سنیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔