حیرت انگیز قرآن- The Amazing Quran قسط (4)

از: پروفیسر گیری ملر        ترجمہ: ذکی الرحمن فلاحی مدنی

کچھ عرصہ  پہلے ساؤتھ افریقہ میں قرآن کے موضوع پر میرا ایک لیکچر تھا۔لیکچر کے بعد ایک شخص میرے پاس آیا، اس کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ وہ میرے لیکچر پر بے حد ناراض ہے۔اس نے مجھ سے کہا کہ وہ آج رات اسی وقت سوئے گا جب اسے قرآن میں کوئی غلطی مل جائے گی۔ میں نے اس کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مبارک باد دی، کیونکہ میری نظر میں اس کا یہ فیصلہ اس کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب لانے والا تھا۔
یقیناً اسی حکیمانہ اسلوب کے ذریعہ امتِ مسلمہ کو قرآ ن کی صداقت میں شک کرنے والے افرادوجماعتوں کے ساتھ تعامل کرنا چاہیے۔کیونکہ قرآن خود اس قسم کا تعامل برتتا ہے۔ اس تعامل کا ایک نتیجہ یقینی ہے کہ ایسے مخالف افراد جب اپنی بحث وتحقیق کے ذریعہ قرآنی بیانات کی صحت وصداقت کو جان لیتے ہیں تو ان کو اس کی تردید یا انکار کا یارا نہیں رہتااور آخر کار وہ اسلام کے سایۂ رحمت میں پناہ لے لیتے ہیں یا کم از کم وہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں اپنے نفرت آمیز رویہ پر باقی نہیں رہ پاتے ،کیونکہ اب اس دین کی لائی ہوئی آسمانی کتاب ان کے لیے ایک محترم، معتبر اور حیرت انگیز کتاب بن جاتی ہے۔
یہاں یہ علمی حقیقت بھی ہمارے ذہنوں سے اوجھل نہ ہو کہ اگر کوئی انسان کسی کائناتی مظہرہ((Phenomenon کی علمی توجیہ نہ کر سکے تو اسے لازماً دوسروں کی توجیہات کی صداقت کا اعتراف کرنا ہی چاہیے۔ہم ایسا نہیں کہتے، لیکن اس صورت میں اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ بذاتِ خود اس کی کوئی معقول توجیہ برآمد کرکے دکھائے۔ یہ علمی نظریہ ہماری زندگی کے بیشمار تصورات پر صادق آتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ قرآنی تحدّی سے مکمل ہم آہنگ ہوتا دکھائی پڑتا ہے۔ قرآن اپنے منکرین کے سامنے بڑی پریشانیاں کھڑی کر دیتا ہے، وہ آغازِ گفتگو ہی میں اپنے مخالف سے اس قسم کا عہد لے لیتا ہے کہ اگر آپ کسی حقیقت کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو اس کو غلط ثابت کرکے دکھائیں۔
قرآن کی متعدد آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی شناعت بیان کی ہے جو حقائق سننے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ سے ان کو نہیں آزماتے، اور عقل کے اندھے ہوکر اپنے عناد وانکار پر اڑے رہتے ہیں :
( وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَءِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَئکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ) (الاعراف:179)، ’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ انسے بھی زیادہ گئے گذرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔
گویا قرآن کے الفاظ میں ایسا شخص قابلِ ملامت ہے جو معلومات کو سن کر رد وقبول کے لیے اپنی عقلی صلاحیتوں کو رو بہ عمل نہیں لاتا ہے۔
قرآن کی صحت وصداقت جانچنے کے اور بھی طریقے پائے جاتے ہیں۔ان میں ایک مسلّمہ طریقہ’’ استنفادِ بدیل ‘‘ (Exhausting the Alternatives)کا ہے۔بنیادی طور پر ہم قرآن کا یہ دعوی دیکھتے ہیں کہ وہ وحیِ الٰہی ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا ہے….؟یعنی دوسرے الفاظ میں قرآن اپنے قاری کو چیلینج کرتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی توجیہ پیش کرے، ورق اور سیاہی سے تیار یہ کتاب کہاں سے آئی ہے….؟اگر یہ اللہ کی وحی نہیں ہے تو اس کا مصدر کیا ہے…؟حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک کوئی اس مظہرہ کی اطمینان بخش متبادل توجیہ پیش نہیں کرسکاہے۔
غیر مسلموں کی طرف سے قرآن کے منزل من اللہ نہ ہونے کے سلسلے میں جو توجیہات عرض کی گئی ہیں ان کو دو بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مخالفین کی تمام ہرزہ سرائیاں ان دو دائروں سے باہر کم ہی نکلتی ہیں۔
مخالفین کا ایک گروہ جو متعدد اصحابِ علم، سائنس دانوں اور عقلانیت زدہ لوگوں پر مشتمل ہے، کہتاہے کہ بڑے طویل عرصہ تک قرآن اور محمد ﷺکی سیرت کا مطالعہ کرکے ہم اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ درحقیقت محمدﷺ ایک عبقری (Genius)انسان تھے ۔جن کو اپنے بارے میں یہ وہم ہوگیا تھا کہ وہ ایک نبی ہیں۔اس کی وجہ ان کی عقل میں فتور(العیاذ باللہ) اور نامساعد حالات میں ان کی پرورش وپرداخت ہے، یعنی ایک جملہ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ حقیقتاً ایک فریب خوردہ(Fooled) انسان تھے۔
اس گروپ کے بالمقابل مخالفین کا دوسرا گروہ ہے جس کا کہنا ہے کہ دراصل محمد ایک جھوٹے انسان تھے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ آپس میں بھی کبھی قرآن کے متعلق اتفاقِ رائے نہیں کر سکے ہیں۔
اسلام اور اسلامی تاریخ پر لکھے گئے بہت سارے مغربی مصادر ومراجع میں ان دونوں مفروضات کاتذکرہ ملتا ہے۔ وہ پہلے پیراگراف میں محمدﷺ کو ایک فریب خوردہ ،مختل الحواس انسان کی شکل میں پیش کریں گے اور معاًاگلے اقتباس میں انہیں جھوٹا، کذاب کے القاب سے نوازتے دکھائی دیں گے۔حالانکہ اندھی مخالفت کے زور میں یہ حضرات علمِ نفسیات کی ابجدی حقیقت کوبھی دانستہ یا نادانستہ فراموش کر جاتے ہیں کہ کوئی انسان بیک وقت محبوس العقل اور جھوٹاشاطر(Imposter) نہیں ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مخلوط العقل ہے اورا پنے آپ کو نبی سمجھ بیٹھا ہے تو اس کا معمول یہ نہیں ہوگا کہ وہ رات کے آخری پہر میں جاگ کر اگلے دن کے لیے لائحہ عمل تیار کرے تاکہ اس کی نبوت کا ڈھونگ جاری رہ سکے۔ اگر وہ مختل العقل ہے تو وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنی دانست میں سچا نبی ہوگا اور اسے کامل یقین ہوگا کہ آئندہ کل جو بھی ناگہانی سچویشن رونما ہوگی، وحیِ الٰہی ہر موقعہ پر اس کی دادرسی کردے گی۔ اور واقعہ ہے بھی کہ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ کفار ومشرکین کے سوالات واعتراضات کے جواب میں نازل ہوا ہے۔
مختلف خلفیوں(Back Grounds) کے حامل مخالفین الگ الگ سطحوں پر آپﷺ سے سوالات دریافت کرتے تھے اور اللہ کی جانب سے وحی کے ذریعہ آپﷺ کو اس سے باخبر کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اگر آنحضورﷺ کو دماغی خلل(Mind Delusion) کا شکار باور کر بھی لیا جائے تو فطری طور پر ان کا رویہ جھوٹے شخص کا سا نہیں ہو سکتا۔غیر مسلم مخالفین علمی سطح پرکبھی اس بات کااقرار نہیں کر سکتے کہ یہ دونوں از قبیلِ اضداد صفتیں کسی ایک آدمی میں یکجا ہو سکتی ہیں۔کوئی بھی انسان یا تو فریب خوردہ ہوگا یا جھوٹا، بیک وقت دونوں ہرگز نہیں ہو سکتا۔
جس چیز پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ کہ متعلقہ دونوں صفات دو متضاد شخصیتوں کا مظہر ہیں اور ایک شخص میں ان کا پایا جانا صرف خوابوں کی دنیا میں ممکن ہے۔
آنے والے منظرنامے کے ذریعہ آپ جان لیں گے کہ کس طرح غیرمسلم مخالفین ،کولہو کے بیل کی مانند ایک دائرہ میں گھومتے گھومتے خود اپنے کھودے ہوئے اعتراضات کے گڈھوں میں آگرتے ہیں۔اگر آپ ان میں سے کسی سے پوچھیں کہ تمہارے فہم کے مطابق یہ قرآن کہاں سے آیا ہے؟وہ بے نکت جوابدے گا کہ یہ ایک مخبوط العقل انسان کی خیال آفرینی کا کرشمہ ہے۔ اب آپ اس سے پوچھیں :’’اگر یہ کسی پاگل ذہن کی پیداوار ہے تو اس میں یہ علمی باتیں کہاں سے آ گئیں؟اس کو تو تم بھی مانو گے کہ قرآن میں ایسی معلومات کا تذکرہ ہے جو اس وقت عربوں کو نہیں معلوم تھیں‘‘، اب وہ لاشعوری طور پر اپنے جواب میں تبدیلی کرتے ہوئے کہے گا:’’ہو سکتا ہے کہ محمدﷺمخبوط العقل نہ ہوں، اور انہوں نے یہ معلومات بعض غیر ملکی اجنبیوں سے سن کر ان کو اپنی طرف منسوب کر دیا ہو، اور اس بہانے جھوٹ موٹ نبوت کا دعوی بھی کر دیا ہو‘‘۔
اس نقطہ پر آکر آپ اس سے پوچھیں :’’اگر تمہارے مطابق محمد ﷺ جھوٹے نبی تھے تو کیا وجہ ہے کہ انہیں اپنے آپ پر اس درجہ اعتماد کیوں تھا؟کیوں ان کے تمام تصرفات سے فی البدیہہ جھلکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچا نبی متصور کرتے تھے؟‘‘اس نقطہ پر پہونچ کروہ تنگ نائے میں پھنسی بلی کی طرح اپنے سابقہ موقف کی طرف پلٹی مارتے ہوئے کہے گا :’’ممکن ہے کہ وہ فی الواقع جھوٹا نہ ہو، بلکہ مخبوط العقل ہو جو کہ خود کی نبوت میں یقین کرتاتھا‘‘یہاں آکر بحث وتمحیص کا دائرہ گھوم کر پھر وہیں آرکتا ہے جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی۔
جیسا کہ میں پیچھے ذکر کر چکا ہوں کہ قرآنِ کریم میں ایسے بہت سارے علمی حقائق مذکور ہیں کہ جن کو اللہ عالم الغیب کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے۔علی سبیل المثال: کون تھا جس نے محمدﷺکو سدِ ذی القرنین کے متعلق بتایا جبکہ وہ جزیرۃ العرب کی حدود سے باہر شمال میں ہزاروں کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے… ؟کون تھا جس نے علمِ جنین کے بارے میں بالکل درست معلومات سے محمدﷺ کو آگاہ کیا تھا…..؟
ان حقائق کی کثرت کو دیکھتے ہوئے بھی جو لوگ ان کو ذاتِ الٰہی کا فیضان نہیں ماننا چاہتے، آٹومیٹیکلی ان کے پاس صرف ایک آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ یعنی کسی گمنام اور مجہول شخص نے یہ بیش بہا معلومات کا خزانہ، محمدﷺ کی جھولی میں ڈال دیا تھا، جس کا خاطر خواہ استحصال کرتے ہوئے محمد ﷺنے نبوت کا دعوی کر دیا۔ لیکن اس غلط مفروضہ کو بڑی آسانی کے ساتھ محض ایک مختصر سے سوال کے ذریعہ رد کیا جا سکتا ہے:اگر بموجب اس مفروضہ کے محمدﷺایک جھوٹے نبی تھے، تو آخر انہیں اپنے جھوٹ پر اتنا بھروسہ کیوں تھا؟کیوں کر انہوں نے ایک بت پرستانہ ماحول میں رائج مذہبی عقائد ورسومات پراس درجہ بیباکی و شجاعت کے ساتھ تیز وتند تنقیدیں کیں، جس کا تصور بھی کسی نفاق پرست جھوٹے مدعیِ نبوت سے نہیں کیا جا سکتا؟۔ یہ بے مثال خود اعتمادی وبیباک شجاعت صرف اور صرف سچی وحیِ الٰہی کی سرپرستی میں میسر آ سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔