فہم و ادارک میں آؤ نہ اگر ممکن ہو

افتخار راغبؔ

  فہم و ادارک میں آؤ نہ اگر ممکن ہو

عکسِ پُر تاب دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو

چاہتا ہوں کہ نہ ہو درد کی شدت میں کمی

دل کو ہر روز دُکھاؤ نہ اگر ممکن ہو

اور کب تک رہے دیوار جھجک کی حائل

اب یہ دیوار گراؤ نہ اگر ممکن ہو

دیکھو کس طرح پڑا ہوں میں تمھارے در پر

دستِ الفت سے اٹھاؤ نہ اگر ممکن ہو

کچھ تو اعجاز دکھاؤ لبِ شیریں کا مجھے

میرا اک شعر سناؤ نہ اگر ممکن ہو

ایک دو گھونٹ بھی مل جائے تو خوش بختی ہے

شربتِ دید پلاؤ نہ اگر ممکن ہو

اور کب تک یوں ہی ڈھاؤ گے ستم رہ کر دور

دو بدو ہوکے ستاؤ نہ اگر ممکن ہو

تم تو واقف ہو کہ ہے آس پہ دنیا قائم

دل کو ڈھارس ہی بندھاؤ نہ اگر ممکن ہو

ایسا لگتا ہے کہ ہو جائے گا پتھر راغبؔ

اک ذرا چھو کے دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو

تبصرے بند ہیں۔