فہم و ادارک میں آؤ نہ اگر ممکن ہو
افتخار راغبؔ
فہم و ادارک میں آؤ نہ اگر ممکن ہو
عکسِ پُر تاب دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
چاہتا ہوں کہ نہ ہو درد کی شدت میں کمی
دل کو ہر روز دُکھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
اور کب تک رہے دیوار جھجک کی حائل
اب یہ دیوار گراؤ نہ اگر ممکن ہو
…
دیکھو کس طرح پڑا ہوں میں تمھارے در پر
دستِ الفت سے اٹھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
کچھ تو اعجاز دکھاؤ لبِ شیریں کا مجھے
میرا اک شعر سناؤ نہ اگر ممکن ہو
…
ایک دو گھونٹ بھی مل جائے تو خوش بختی ہے
شربتِ دید پلاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
اور کب تک یوں ہی ڈھاؤ گے ستم رہ کر دور
دو بدو ہوکے ستاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
تم تو واقف ہو کہ ہے آس پہ دنیا قائم
دل کو ڈھارس ہی بندھاؤ نہ اگر ممکن ہو
…
ایسا لگتا ہے کہ ہو جائے گا پتھر راغبؔ
اک ذرا چھو کے دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو
تبصرے بند ہیں۔