ماہ شعبان اور شب برات

آصف اقبال انصاری

اسلامی کیلنڈر کے مطابق شعبان المعظم آٹھواں مہینہ ہے، جو رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں بلا شبہ یہ ماہ بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے، چناں چہ رمضان کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ روزے اسی ماہ میں رکھتے تھے۔

٭…  حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا، سوائے شعبان کے کہ اس کے تقریباً پورے دنوں میں آپ روزہ رکھتے تھے۔ (بخاری، مسلم، ابو داوٴد)

اسی مضمون کی ایک روایت ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ سے ترمذی میں مذکور ہے۔

٭… حضرت اسامہ بن زید  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزہ رکھتے نہیں دیکھا؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔ (نسائی، الترغیب والترھیب، ص425، مسند احمد، ابو داوٴد 2076) محدثین کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

٭… حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شعبان کے تقریباً مکمل مہینے میں روزے رکھتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو شعبان کے روزہ بہت پسند ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سال انتقال کرنے والوں کے نام اس ماہ میں لکھ دیتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میری موت کافیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزہ سے ہوں۔ (رواہ ابویعلی، وہو غریب، واسنادہ حسن۔ الترغیب والترھیب، وذکر الامام الحافظ السیوطی فی ”الدر المنثور)۔

اس ماہ کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے، جو 14 تاریخ کا سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور15 تاریخ کی صبح صادق تک رہتی ہے۔ شب برأت فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی نجات پانے کی رات کے ہیں۔ چوں کہ اس رات میں بے شمار گناہ گاروں کی مغفرت کی جاتی ہے، اس لیے اس شب کو شب برأت کہا جاتا ہے۔

اس رات کی فضیلت کے سلسلہ میں مشہور ومعروف مفسرین (مثلاً حضرت عکرمہ)نے تو قرآن کی آیت ﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکَیْمٍ﴾․ (سورہ الدخان 4-3) سے مراد شعبان کی پندرہویں رات (شب برأت) لی ہے اور ہر زمانے کے مشہور ومعروف مفسرین نے اپنی تفسیروں میں حضرت عکرمہ کی تفسیر کو ذکر کیا ہے۔ اگرچہ جمہور علماء کی رائے میں اس آیت سے مراد شب قدر ہے۔

شب برأت کی فضیلت سے متعلق چند احادیث 

٭… حضرت معاذ بن جبل کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پندرہویں شب میں تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور ساری مخلوق کی سوائے مشرک اور بغض رکھنے والوں کے سب کی مغفرت فرماتا ہے۔ (صحیح ابن حبان، طبرانی،وذکرہ الامام الحافظ السیوطی فی ”الدر المنثور“ عن البیہقی، وذکرہ الحافظ الہیثمی فی ”مجمع الزوائد“ ج8 ص65، وقال: رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط، ورجالہ ثقات)

٭… اسی مضمون کی روایت حضرت عبد اللہ بن عمر سے مسند احمد (176/2) میں بھی مروی ہے(قاتل اور بغض رکھنے والوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرماتا ہے)، جس کو الحافظ الہیثمی نے ”مجمع الزوائد ج8 ص65 “میں صحیح قرار دیا ہے۔ اور اس حدیث کو شیخ محمدناصر الدین البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ (السنہ ص 224،، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ…. ج3)

٭… حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز لگائی جاتی ہے کہ ہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ میں اس کے گناہوں کو معاف کروں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں عطا کروں؟ ہر سوال کرنے والے کو میں عطا کرتا ہوں، سوائے مشرک اور زنا کرنے والے کے ۔ (اخرجہ البیہقی فی شعب الایمان 383/3، الدر المنثور للسیوطی، ذکرہ الحافظ ابن رجب فی اللطائف)․

٭… حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم بقیع میں تشریف فرماتھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں ڈر تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے گمان ہواکہ آپ دیگر ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی شب کو نچلے آسمان پر نزول فرماتاہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتاہے۔ اور اس رات میں بے شمار لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے ،مگر مشرک، عداوت کرنے والے ، رشتہ توڑنے والے، تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والے، والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب پینے والے کی طرف اللہ تعالیٰ کی نظر کرم نہیں ہوتی۔ (مسند احمد 238/6، ترمذی (ابواب الصیام)، ابن ماجہ (کتاب اقامة الصلاة)، بیہقی، مصنف ابن ابی شیبہ، الترغیب والترھیب)

٭… حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس رات میں قیام کرو اوراس دن روزہ رکھو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت سے سمائے دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں : کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی رزق کا متلاشی ہے کہ میں اسے رزق عطا کروں؟ کیا کوئی مصیبت کا مار اہے کہ میں اس کی مصیبت دور کروں؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ حتی کہ صبح صادق کا وقت ہوجاتا ہے۔ (اخرجہ ابن ماجہ (کتاب اقامة الصلاة)، والبیہقی فی شعب الایمان، الدر المنثور للسیوطی، الترغیب والترھیب للمنذری،لطائف المعارف للحافظ ابن رجب)

اس رات میں ان اعمال صالحہ کا خاص اہتمام

٭… عشاء اور فجر کی نمازیں وقت پر ادا کریں۔
٭… بقدر توفیق نفل نمازیں خاص کر نماز ِتہجد اد ا کریں۔
٭… اگر ممکن ہو تو صلاة التسبیح پڑھیں۔
٭… قرآن پاک کی تلاوت کریں۔
٭… کثرت سے اللہ کا ذکرکریں۔
٭… اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں، خاص کر اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں۔
٭… کسی کسی شب برأت میں قبرستان تشریف لے جائیں۔ اپنے اور میت کے لیے دعائے مغفرت کریں۔

لیکن ہر شب برأت میں قبرستان جانے کا خاص اہتمام کوئی ضروری نہیں ہے، کیوں کہ پوری زندگی میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے صرف ایک مرتبہ اس رات میں قبرستان جانا ثابت ہے۔
شب برأت میں پوری رات جاگنا کوئی ضروری نہیں ہے، جتنا آسانی سے ممکن ہو عبادت کرلیں، لیکن یاد رکھیں کہ کسی شخص کو آپ کے جاگنے کی وجہ سے تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔

پندرہویں تاریخ کا روزہ

شب برأت کی فضیلت کے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں، مگر شب برأت کے بعد آنے والے دن کے روزے کے متعلق صرف ایک ضعیف حدیث موجودہے ۔ لہذا ماہ شعبان میں صرف اور صرف پندرہویں تاریخ کے روزہ رکھنے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا یا اس دن روزہ نہ رکھنے والے کو کم تر سمجھنا صحیح نہیں ہے، البتہ ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے چاہییں۔

اس رات میں مندرجہ ذیل اعمال کا احادیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے ، لہذا ان اعمال سے بالکل دور رہیں :
٭… حلوا پکانا۔ (حلوا پکانے سے شب برأت کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔)
٭… آتش بازی کرنا۔(یہ فضول خرچی ہے، نیز اس سے دوسروں کے املاک کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔)
٭… اجتماعی طور پر قبرستان جانا۔
٭… قبرستان میں عورتوں کا جانا۔ (عورتوں کا کسی بھی وقت قبرستان جانا منع ہے)۔
٭… قبرستان میں چراغاں کرنا۔
٭… مختلف قسم کے ڈیکوریشن کا اہتمام کرنا۔
٭… عورتوں اور مردوں کا اختلاط کرنا۔
٭… قبروں پر چادر چڑھانا۔(کسی بھی وقت قبروں پر چادر چڑھانا غلط ہے۔)

نوٹ… اس رات میں بقدر توفیق انفرادی عبادت کرنی چاہیے۔ لہٰذا اجتماعی عبادتوں سے حتی الامکان اپنے آپ کو دور رکھیں کیوں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے اس رات میں اجتماعی طور پر کوئی عبادت کرنا ثابت نہیں ہے۔

جن گناہ گاروں کی اس بابرکت رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی ، وہ یہ ہیں:
٭…   مشرک
٭…   قاتل
٭…   والدین کی نافرمانی کرنے والا
٭…   بغض وعداوت رکھنے والا
٭…   رشتہ توڑنے والا
٭…   تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والا
٭…   شراب پینے والا
٭…   زنا کرنے والا

لہٰذا ہم سب کو تمام گناہوں سے خاص کر ان مذکورہ کبیرہ گناہوں سے بچنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔