مایا اکھلیش اتحاد اور بی جے پی
محفوظ الرحمن انصاری
موجودہ بی جے پی حکومت کے خلاف مایاوتی اکھلیش یادو کا متحد ہونا اور ممتا بنرجی کا سیکولر پارٹیوں کو متحد کرنے کی کوشش کرنا ایک خوشگوار مثبت قدم تو ہے مگر ساتھ ہی کچھ ایسے اندیشے بھی ہیں جن پر سنجیدگی سے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ یادرکھیں یہ بی جے پی نام کی کسی سیاسی پارٹی کی حکومت نہیں ہے بلکہ ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے والی تنظیم آر ایس ایس کی حکومت ہے۔ جس نے پچھلے ستر اسی برسوں تک اس ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے کیلئے پوری منصوبہ بندی سے جد وجہد کی ہے۔ کیا وہ اتنی آسانی سے صرف پانچ سال حکومت کرکے اقتدار سے بے دخل ہونے کیلئے تیار ہوجائے گی؟ ہر گز نہیں ! مذہبی منافرت، تعصب اور فسادات کے ایک نئے دور کا اندیشہ ہے۔ گذشتہ سال یوپی کے اسمبلی الیکشن کے وقت فرقہ پرستوں نے پانچ ہزار وہاٹس ایپ گروپ بنائے تھے اور اس پر فرضی گائے کشی کا ویڈیو وائرل کرکے یوپی کے تقریباً ہرہندو کو دکھایا گیا نتیجہ کے طور پر لوگ ذات پات بھول کر ایسا ذہنی طور پر ماؤف ہوئے کہ کمل کے آگے بٹن دبانے کو انہوں نے سب سے بڑا دھارمک فریضہ سمجھا۔
ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑی کا الزام تو خیر سے ثابت ہو چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں کرناٹک میں پندرہ لاکھ مسلمانوں کا نام ووٹر لسٹ سے غائب کردیا گیا ہے اور پھر الیکشن کمیشن کے اعلان کرنے سے پہلے ہی بی جے پی کے لیڈر کا الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کردینا کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ مشینوں کے ساتھ اب الیکشن کمیشن کا عملہ بھی بی جے پی اکائی کے طور پر کام کررہا ہے۔ گورکھپور جو بی جے پی کا مضبوط گڑھ ہے وہاں بی جے پی ہار جاتی ہے اور تریپورہ میں جہاں اس کا معمولی سا اثر بھی کبھی نہیں رہا، وہاں وہ مکمل اکثریت کے ساتھ جیت کر سرکار بنا لیتی ہے۔ ایسا کیوں، کیا یہ غور کرنے کی بات نہیں ہے ؟یاد رکھیں کہ چالیں بہت ہی شاطرانہ اور مہارت سے چلی جائیں گی۔
(۱)میڈیا ان کا، سوشل میڈیا پر دن رات کام کرنے والی ٹیمیں، ای وی ایم مشین، سرکاری عملہ اور الیکشن انتظامیہ بھی ان کا، ڈمی سیکولر پارٹیاں اور ڈمی مسلم امید واربھی اتارے جائیں گے۔
(۲)میڈیا کا حال تو یہ ہے کہ اگر بی جے پی کا اپنا کوئی ذاتی چینل ہوتا تو وہ بھی اتنی تندہی سے بی جے پی کا بھونپو نہیں بجاتا جیسا آج کے نوے فیصد ٹی وی چینل اور اخبارات اپنا حق نمک برائے بی جے پی ادا کررہے ہیں۔
اس لئے بی جے پی کے خلاف متحد ہونے والی سبھی پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ ووٹنگ مشینوں کے بائیکاٹ کا اعلان کریں اور بیلیٹ پیپر پرہی انتخاب کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کو مجبور کریں، ورنہ ساری محنت پر نہ صرف پانی پھر جائے گا، بلکہ دو ہزار چوبیس تک افسوس کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اگر خدا نخواستہ دو ہزار انیس میں یہی لوگ اقتدار میں قائم رہ گئے تو یہ ملک نہ صرف مکمل ہندوتوا کی لیبارٹری بن جائے گا بلکہ امن،انصاف اور انسانیت کا بھی مکمل طور سے خاتمہ ہو جائے گا۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔