مجھے تین طلاق بل کیوں منظورنہیں؟

تحریر:سائرہ مجتبیٰ، ترجمہ:نایاب حسن

(تین طلاق بل لوک سبھاسے پاس ہونے کے بعدعام مسلمان اب تک ذہنی ونفسیاتی شکست خوردگی کے احساس سے نکل نہیں پارہے ہیں، بہ طورخاص ان کا مذہبی یا مذہب پسند طبقہ جب کچھ کرنا تھا، تو کرنہیں سکا، اب عجیب و غریب ہیجان میں مبتلا ہے، ایسے میں ایک خوش آیندبات یہ ہے کہ ملک کا انٹلکچوئل گروپ متعلقہ بل کی خطرناکی کوفوری طورپر محسوس کرتے ہوئے اس کی مخالفت کے لیے متحد ہوچکا ہے، اس میں خود وہ دانشور مسلم مردو خواتین بھی ہیں ، جو تین طلاق کی مخالفت کرتے رہے ہیں ، بل پاس ہونے کے اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر#Standupformuslimmen کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اس مہم میں بڑی تعداد میں لوگ حصہ لے چکے اور تین طلاق بل کے اطراف و مضمرات کو آشکار کررہے ہیں ۔ اپنی صحافتی، ادبی و سوشل سرگرمیوں کے حوالے سے مشہور رعنا صفوی نے ٹوئٹ کیا’’میں ایک مسلمان عورت ہوں ، میں عورتوں کو تین طلاق  دیے جانے کے خلاف ہوں ، مگرساتھ ہی میں تین طلاق بل کی مخالفت کرتی ہوں ؛کیوں کہ اس کا مقصد محض ہندوستانی جیلوں کومسلم مردوں سے بھرنا ہے‘‘، ان کے اس ٹوئٹ کواب تک سیکڑوں لوگ ری ٹوئٹ کرچکے ہیں ، انھوں نےDailyO.inپر اس بل کے خلاف ایک دھماکے دار مضمون بھی لکھاہے، زیر نظر مضمونthecitizen.in پرشائع ہوا ہے، سوشل میڈیا پر وائرل ایک تصویر(جس میں کچھ مسلم خواتین مودی کے فوٹو کومٹھائی کھلارہی ہیں )مضمون نگار کے لیے اس مضمون کو لکھنے کا محرک ثابت ہوئی ہے، مجموعی طورپر یہ مضمون ایک مسلم خاتون کی ذہنی بیداری، معاملہ فہمی اور شعوری استحضار کا آئینہ دار ہے )

 زیر ِنظرتصویر نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا، گزشتہ دوتین دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ تصویرگھوم رہی ہے اورراتوں رات مسلمانوں کے بن جانے والوں کے ذریعے اسے Celebrate کیا جا رہا ہے، وہ لوگ جنھوں نے اخلاق، جنید یا افرازالاسلام کے قتل پر ایک لفظ نہیں بولا؛بلکہ اندرخانہ مجرموں کی مدد کی، وہ آج  تین طلاق بل لے کر مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے اور انھیں نجات دینے نکلے ہیں ۔ میں بہ حیثیت ایک مسلم خاتون اور اس ملک کی شہری کے اس غلط بل کو مسترد کرتی ہوں ، یہ جو تصویرہے، یہ مضحکہ خیز بھی ہے اور پریشان کن بھی، مضحکہ خیزتواولاً اس لیے ہے کہ جو لوگ مسلم خواتین کو حقوق دلانے کے نام پر وزیر اعظم مسٹر مودی کی تعریف کررہے ہیں ، انھیں یادرکھنا چاہیے کہ اصلاً تو سپریم کورٹ نے یکبارگی تین طلاق کو غیر معتبر قراردیا تھااور یہ سب جانتے ہیں کہ سرکار ؍انتظامیہ اور عدلیہ دونوں الگ الگ ادارے ہیں ۔ ثانیاً اس لیے کہ عدالتِ عظمیٰ نے یکبارگی تین طلاق پر پابندی کے لیے بہ طورحوالہ ودلیل مودی کی تقریروں کونہیں ؛بلکہ قرآن کریم کو استعمال کیاتھا اور کورٹ کی جانب سے یہ کہاگیا تھا کہ قرآن میں ایسی کسی طلاق کا ذکر نہیں ہے اور یہ (ایک نشست کی تین طلاق)مکمل طورپر غیر اسلامی ہیں، اسی وجہ سے جہاں مجھے یہ تصویر (جس میں کچھ مسلم عورتیں مودی کے فوٹوکو مٹھائی کھلارہی ہیں) دیکھ کر ہنسی آرہی ہیں، وہیں خود ایک مسلم عورت کے ہونے کے ناطے اسے دیکھ کرمیں سخت تشویش میں بھی مبتلا ہوں۔

  بے شبہ یکلخت تین طلاق دینے پر پابندی لگنی چاہیے، مگر اس بل میں جو تجویزیں پیش کی گئی ہیں ، وہ اس سلسلے میں مسلم خواتین کے لیے معاون ثابت ہونے کی بجاے نقصان دہ ثابت ہوں گی، اس بل کے تعلق سے یہ سوال تو بار بار اٹھایا جارہاہے کہ جب یکبارگی تین طلاق کی قانونی حیثیت ختم ہوگئی، تو پھر اس کی وجہ سے شوہر کو جیل میں ڈالنے کے پیچھے کیا لاجک ہے؟اور جب فیملی کے لیے کمانے والا انسان سلاخوں کے پیچھے ہوگا، تو ان تین سالوں کے دوران بیوی بچوں کی پرورش کون کرے گا؟اسی طرح جب اسے ایک قابلِ مؤاخذہ جرم قراردے دیا جائے گا، تو نہ صرف عورت ؛بلکہ کوئی بھی کسی بھی مرد کے خلاف شکایت لے کر عدالت پہنچ سکتا ہے، ایسے وقت میں ، جبکہ پہلے ہی سے ہی ملک کے مسلمان ہجومی تشدداور دائمی خوف و بے اطمینانی کے سایے میں جی رہے ہیں ، یہ مجوزہ قانون مسلم عورتوں کی مدد کی بجاے فرقہ پرست عناصر کے لیے مسلمانوں کو زک پہنچانے کا محض ایک حربہ بن جائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی میاں بیوی کے درمیان نفرت پیدا کرنا چاہے یا ان کی وقتی نااتفاقی کا غلط استعمال کرنا چاہے، تو وہ محض عدالت میں ایک شکایت درج کرواکے اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے۔

 راتوں رات مسلم خواتین کے ہمدردبن جانے والے، اسی طرح وہ لوگ، جنھیں اس بل کی خامیاں نظر نہیں آرہیں ، ان کا خیال ہے کہ میں فی الحال اس بل کی تائید کردوں ، بعد میں جب کوئی (فردیاجماعت) اسے چیلنج کرے گی، تو کورٹ اس کے اطراف و جوانب پرغور کرے گا، یہ ایک نہایت ہی بکواس اور ناقابلِ قبول خیال ہے؛کیوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ 1985میں شاہ بانوکیس کے فیصلے کے بعد جلد باز ی میں پاس کیے گئے ایک بل کو صحیح تعبیر و تفسیر کا جامہ پہنانے میں سپریم کورٹ کو پندرہ سال لگ گئے، حالاں کہ اب بھی آئی پی سی کی دفعہ498A قابلِ تعریف ہونے کے باوجودبہت بار صرف مردوں کو ٹارگیٹ کرنے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔

     تین طلاق بل کی ابھی سے مخالفت کرنی ہوگی، ایسے وقت میں ، جبکہ زیادہ تر اپوزیشن پارٹیوں نے تمام تر خامیوں کے باوجود تقریباً اس بل کی حمایت کردی ہے، سول سوسائٹی؛بلکہ ملک کے ہر شہری کی ذمے داری ہے کہ وہ موجودہ شکل میں اس بل کی زیادہ سے زیادہ مخالفت کرے۔ اور جو لوگ مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس معاملے میں صرف وہ خواتین بولنے کی حق دار ہیں ، جو اس حادثے سے گزرچکی ہیں ، مجھے یا کسی اور عام انسان کو اس پر بولنے کا حق نہیں ، ان سے میراسوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کی زرعی پالیسیاں ملک کے کسان بناتے ہیں ؟کیاعدلیہ کی بجاے اس ملک کے عام شہری مختلف مسئلوں پرقانون بناتے ہیں ؟ جب تک راتوں رات مسلم خواتین کے ہمدرد بن جانے والے یہ لوگ میرے سوالوں کا جواب تلاش کرتے ہیں ، میں ملک کے ایک ایک شہری سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس بل کی مخالفت کریں ، جس کا واحد مقصد مسلم مردوں کو تکلیف پہنچانا اور انھیں پسِ دیوارِ زنداں ڈھکیلنا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔