محمد صدیق چوہان: ناقابل ِ فراموش اُستاد، بے مثل انسان

دانش اقبال

گورنمنٹ ہائیر سکنڈری سکول گا ہنی ہیڈ کوارٹر قصبہ مینڈھر سے تقریباً ۲۲ کلو میٹر کی دوری پر شمال مغربی کو نے میں ہندو پاک سرحد سے صرف5 کلو میٹر پیچھے واقع ہے۔ یہ اِدارہ 1967ءمیں بطور پرائمری سکول کُھلا تھا 1988ءمیں ترقی پا کر ہائی سکول اور2003ءمیں ہائر سکنڈری سکول بنایا گیا۔ رقبہ زیرِ قبضہ سکول فقط 15مرلے پرمُشتمل تھا یہ حیران کُن حقیقت ہے کہ وقت کیساتھ سکول کا درجہ بڑھتا گیا جبکہ سکول کا رقبہ سکڑتا گیا جب یہ پرائمری سکول تھا تو رقبہ زیر قبضہ 25مرلے تھا جبکہ آج صرف 15مرلے ہی باقی رہ گیا ہے۔ موجودہ ڈھانچہ سکول کے دونوں اطراف قبرستان ایک طرف مسجد اور ایک طرف پانی کا ٹینک ہونے کیوجہ سے کسی بھی جانب وُسعت دیئے جانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ موجودہ ڈھانچہءسکول صرف پانچ کمرہ جات پر مُشتمل ہے جن میں سے دو کمرہ جات نئے پرانے سامان سے گچا گچ بھرے پڑے ہیں سٹاف کو بھی کھُلی طرح سے بیٹھنے کی راحت نصیب نہیں۔ بقیہ تین کمرہ جات کو کلاس رُوم کے طور استعمال کیا جاتا ہے جو یک انار صد بیمار کا سا معاملہ بنا ہوا ہے۔ تین کمرہ جات میں صرف تین ہی جماعتوں کے بچوں کو عمارتی چھت کا سایہ نصیب ہوتا ہے۔ سکول میں طلباءاور طالبات کی تعداد لگ بھگ تین سو کے آس پاس ہے اس پہ ستم ظریفی یہ کہ مِڈل کلاسز بھی ہائر سکنڈری سکول میں شروع سے ہی چلائی جا رہی ہیں۔ زیادہ بھاری تعداد والی کلاسِز کی سیکشن بھی بنائی گئی ہیں اِسطرح سے وہاں آٹھ جماعتیں بنی ہیں جن میں سے چھ کلاسِز کو کھُلے آسمان تلے ریت مٹی اور پتھر کے ِٹیلوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ اور وہ بچے جن کو کلاس رُوم میسّر نہیں جب وہ تین کمروں میں بیٹھے ہوئے طلباءو طالبات کو دیکھتے ہیں تو ویسے ہی ترس جاتے ہیں جیسے تپتے ریگستان میں دُور تک چلتے مسافرین شدت کی پیاس کے باعث ٹھنڈے پانی کیلئے ترس جایا کرتے ہیں۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ اِدارہ اِبتداءسے لے کر آج تک ایک فیئر ویدھر یعنی صاف و موزوں موسم سکول بنا چلا آ رہا ہے جہاں کڑاکے کی سردی، گرمی اور بارش میں عموماً چھُٹی کر دی جاتی رہی ہے جِس سے بچوں کے کیرئر اور پڑھائی پر سالہاسال بہت برُا اثر پڑتا آیا ہے لیکن بچوں کی پڑھائی کے سوُد و زیاں پہ کِسی نے پرواہ تک نہیں کی۔ یہاں پہ اگر یہ کہہ دیا جائے تو مناسب ہو گا کہ

    وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا     

   اور کارواں کے دِل سے اَحساسِ زیاں جاتا رہا۔

   اِتنا ہی نہیں بلکہ اس پہ اور بھی سِتم ظریفی یہ ہوئی کہ عمارتی ڈھانچے کے ُفقدان کیوجہ سے گیارھویں اور بارھویں جماعت کے سائینس شائقین طلباءو طالبات کو آجتک سائنس کے مضامین پڑھنا نصیب نہیں ہوئے جبکہ ہائر سکنڈری سکول بنے ہوئے پندرہ سال پُورے ہو چکُے ہیں۔

    جب بھی کوئی صاحبِ فہم و ذکا اور عقلِ سلیم کا مالک اِس اِدارے کی خستہ حالت’ شکتہ پری اور زبوُں حالی کے تناظر میں جھانک کر دیکھتا ہے تو اُسے اِس کے پیچھے ایک لمبی چوڑی سیاسی جنگ کے بھیانک مناظر رقص کرتے نظر آنے لگتے ہیں جِسکے زیرِ اثر معصوم بچے برُی طرح سے متاثر ہوتے رہے ہیں بچے سیاست کی چّکی میں برُی طرح سے پسے جا رہے تھے اور اُن کا پُرسانِ حال کوئی نہیں تھا۔ جب وہ سیاست کے خونی دریا میں پڑے پڑے بری طرح سے ہچکولے کھا رہے تھے تو طلباءکی اِس ڈگمگاتی ناﺅ کو کنارے لگانے اور دست پذیری کا وقت قریب آیا جب اَللہ تبارک و تعالی نے ایک با صلاحیت مردِ مجائد اور مرد ِمومن کو اگست 2015ءمیں ہائر سکنڈری سکول گاہنی کا پرنسپل مقرر کر کے دے بھیجا۔ جِس کا نام محمد صدیق چوہان ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُسے یہ توفیق اور بھروسہ دیا کہ آگے آگے بڑھ میں تیرے ساتھ ساتھ ہوں۔ اِسطرح اللہ تعالی نے بے بس،بے کس غرُبا و یتامیٰ معصوم بچوں کی تقدیر بدلنے کیلئے مذکورہ آفیسر کو ایسی پذیرائی بخشی کہ جِس کی مُخلصانہ جدوجہد سے گا ہنی اور بلنوئی دیگر مضافات کے کئی علاقہ جات کے بچوں کی تقدیر بدلنے کے آثار آنا شروع ہو گئے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ:۔

 نگاہءمرد ِمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
    جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

واضح رہے کہ سکول ھذا کی تعمیر کیلئے کہیں اور نئی جگہ کے اِنتخاب کو لیکر سیاسی بنیاد پر عوام تقسیم تھی اور دو دھڑوں کے مابین رسہ کشی کا ماحول عرصہ پچیس سال سے برابر چلا آرہا تھا اور دِن بدِن یہ مسئلہ طُول پکڑتا جا رہا تھا جس کا اثر براہء راست بچوں کی زندگیوں پر سُم ِقاتلِ بنکر وار کر رہا تھا۔ دو دھڑوں کے بیچ کشیدگی کا یہ بھیانک منظر دیکھ کر پرنسپل صاحب نے اِس مسئلے کے دائمی حل کیلئے جی جان کی بازی لگا دی۔ پہلے چند مقامی مُخلص اَشخاص کی دستگیری سے موجودہ ہائیر سکنڈری سکول سے فقط دو سو میٹر کی دُوری پر ہزاروں کنال اراضی مقبوضہ سرکار کی نشاندہی کی گئی اور اُس جگہ کو ہائر سکنڈری سکول کی تعمیرات اور کُھلے، لمبے چوڑے کھیل کے میدان کیلئے بھی کشادہ وسیع اور مناسب سمجھا گیا۔ اس پہ طرہ یہ کہ وہ جگہ جنگلات، پانی،گیل اور چھاﺅں سے مبرّا پائی گئی۔

    اب اُس جگہ پر ہائر سکنڈری سکول کے تعمیری کام اور محکمہ مال میں اس جگہ کے اندر راج کے معاملات کو لیکر عوامی دونوں دھڑوں کی بکھری سوچ کو یکجا کرکے ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی عذُر داری کا سامنا پرنسپل چوہان صاحب کے سامنے رکاوٹوں کی ایک سنگلاح دیوار بنکر کھڑی تھی جس کو چکنا چور کرنا آسان ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی تھا مگر

   اِرادے جِن کے پُختہ ہوں نظر جِن کی خُدا پہ ہو
   تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
 

   مذکورہ پرنسپل صاحب نے بچوں کو عمارتی سایہ نصیب کروانے کی غرض سے دن رات ایک کر دئیے۔ عوامی اَجلاس منعقد کئے۔ اِنفرادی اور مجموعی تال میل کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ والدین کو اُن ہی کے بچوں کے واسطے دئیے اور باِلخصوص وہ والدین جنہوں نے سیاسی نشوں میں چور ہو کر خود اپنے بچوں کے سِینوں میں چھرُے گھونپ دئیے تھے اُن کو سمجھایا اور بچوں کی خاطرسیاسی کج روی اور بے فائدہ روش سے روک لیا اور نئی مُنتخب کی گئی جگہ کے لئے آمادہ کر لیا۔ کچھ لوگوں سے ہنزل گوئیاں، گالی گلوچ اور واہیات قسم کے کلمات بھی سننے کو ملے۔ کچھ شر پسندوں نے ڈنڈوں لاٹھیوں سے پرنسپل صاحب پر وار بھی کئیے مگر اِس اَللہ کے شیر نے پرواہ تک نہ کی۔ ہمت نہیں ہاری وہ تو دل میں یہ ٹھان کر چلے تھے کہ ہمتِ مرداں کو مددِ خُدا تا تکمیلِ اُمور مسلسل ومتواتر طور پہنچتی رہتی ہے اِس کشمکش میں بلِاوجہ روڑے اٹکانے والوں کو رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کو اور مزاحم ہونے والوں کو پرنسپل صاحب نے یہ دِکھا دیا کہ:۔

      ہلتے نہیں ہیں زین سے طاقت ہوجنکے ران میں
  شاہسواری خاک انکی جو گرِ پڑے میدان میں

پرنسپل صاحب اور ان کے حامی جیسے جیسے اِس مسئلے کو حل کرنے میں جان جوکھوں میں ڈال کر کام کر رہے تھے تو مخالفین ویسے ویسے چوٹی کے سیاستدانوں کے اشاروں پہ رقص کرتے دیکھے گئے اور کچھ عرصہ تک مثبت سمت چلتے قافلے کو گھبراہٹ میں ڈال کر خوش ہوتے رہے مگر مثبت سوچ والے لوگ اپنے دِلوں کو اسطرح سے حوصلے دیتے رہے کہ

   بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
      یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اڑانے کیلئے
 

   یہ مسئلہ بڑا پیچیدہ بھی نہیں تھا کیونکہ اراضی مقبوضہ سرکار تھی لیکن ایک مقام ایسا بھی آیا کہ ضلع کے اعلےٰ حکام بھی سیاسی دباﺅ میں آ کر اپنی بے بسی اور منفی روّیے کا ثبوت پیش کرنے لگے یہ حیران کُن ردِ عمل دیکھ کر جدوجہد کُنندہ پرنسپل صاحب نے اپنے دل کو کچھ تسلی اس طرح سے دی کہ:۔

  بے شک بھنوّر میں ناﺅ ہے ہمت نہ ہاریے
  زور جِتنا چل سکے پتوار تم چلائے جاﺅ

    پرنسپل صاحب اور ان کے ساتھی تعمیری سمت میں جتنا آگے بڑھ رہے تھے تحزیبی ذہنیت والے لوگ اُس سے دوگُنا اور آگے بڑھ کر تعمیری سوچ کے پیکروں کو پریشان کر دیتے رہے مگر رائہ راست پہ چلتے قافلے نے باطل کے آگے گھُٹنے نہیں ٹیکے:۔

  بے شک پریشان کر دیا تخریبیوں کے ہیئر پھیرنے
  ہمت پھر بھی ہاری نہیں اللہ کے اِس شیرنے
 

   باِلآ خر پرنسپل صاحب کی ایک سال کی مسلّسل و متواتر مُخلصانہ جدوجہد اور جانفشانی رنگ لائی اور گاہنی و بلنوئی کے ضِدی لوگوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی بھانڈہ پھُوٹ گیا اور بلی تھیلے سے بِالا آخر باہر آ گئی۔ تمام عوام نئی تجویز شدہ جگہ برائے تعمیر گورنمنٹ ہائر سکنڈری سکول گاہنی پہ رضامند ہو گئے۔ اِس مقصد کے حصول کیلئے ایک جم ِغفیر اِجلاس بلایا گیا محمد اعظم سرپنچ پنچائت حلقہ لوہر گاہنی نے اِس اَجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس میں دونوں دھڑوں کے کثیر التعداد افراد نے شرکت فرمائی۔ سکول کی تعمیر کیلئے نئی مُنتخب شدُہ جگہ پر مقررین نے پھر سے عوام پہ یہ حقیقت واضح کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا تجویز شُدہ جگہ ہر سمت سے آنے والے بچوں کیلئے موزوں و مناسب ہے اور پھر اس کے بعد کیا کسیِ شخص کو اُس جگہ یہ عذُر و اعتراض ہو تو پیش کرے۔ اجلاس میں موجود ہر فرد وبشر نے برملا انکشاف کیا کہ یہ جگہ موزوں اور مناسب ہے اور پھر اس کے بعد کسیِ بھی شخص کو اس جگہ پہ عُذر اُعتراض نہ ہو گا۔ اجلاس میں موجود ہر فرد و بشر نے بیک آواز نئی جگہ کو لبیک کہہ کر توثیق کر دی اور کسی کی جانب سے کوئی بھی عذر و اعتراض نہ اٹھایا گیا۔

اجلاس میں موقعے پر ہی ایک ریزولیشن یعنی عوامی قرارداد بھی قلمبند کی گئی جس پر چیدِہ چیدِہ معتبرانِ دھ نے صدر صاحب کی تلقین پر دستخط اور انگوٹھے ثبت کرکے اس قرارداد کو باقاعدگی کیساتھ جاندار موزوں و مناسب بنادیا اور اس ریزولیشن کی کاپیاں جناب ڈپٹی کمشنر صاحب پونچھ جناب چیف ایجوکیشن آفیسر صاحب پونچھ، جناب ایس ڈی ایم صاحب مینڈھر، جناب ڈپٹی چیف ایجوکیشن آفیسر مینڈھر اور تحصیلدار صاحب منکوٹ کو بھیج دی گئیں اور مطابق حُکم ڈپٹی کمِشنر پونچھ جناب محمد ہارون ملک صاحب کے ایس ڈی ایم مینڈھر جناب ٹھاکر شیر سنگھ صاحب اور تحصیلدار منکوٹ جناب شہزاد احمد خان صاحب اور فیلڈ عملہ نے نئی منتخب شدہ جگہ کادورہ کیا اور رقبہ مقبوضہ سرکار زیر خسرہ نمبر 313میں سے موزوں و مناسب جگہ کی نشاندہی کرکے اکتالیس کنال اور دس مرلے کا تتیمہ لگا کر معہ نقولات و رپورٹ مرتب کرکے مکمل حقائق پر مبنی فائیل تحصیلدار منکوٹ نے ایس ڈی ایم مینڈھر کو پیش کر دی۔ اس عمل پر مزید عمل در آمد کرتے ہوئے ایس ڈی ایم مینڈھر جناب ٹھاکر شیر سنگھ صاحب نے یہ فائیل اپنے تجزیے اور مکتوب بحوالہ نمبرSDM/M/SL-HSS Gahni/16/1200 Dated 22-12-2016کو جناب ڈپٹی کمشنر صاحب پونچھ کو بذریعہ چند معتبران دھ پیش کر دی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ اراضی سرکار از خسرہ نمبر313واقع موضع گا ہنی سے 41کنال اور10مرلے جگہ محکمہ تعلیم بغرض تعمیر ہائر سکنڈری سکول گا ہنی درج ریکارڈ محکمہ مال رُوبہءعمل لائی جائے اور متذکرہ بالا مقداری جگہ کی الاٹمنٹ کے اقدامات بھی سرعت کیساتھ مکمل کرکے محکمہ تعلیم کو یہ سٹیٹ لینڈ منتقل فرمائی جائے۔
اس معاملے کو پایہءتکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنے تن من اور دھن کی بازی لگا کر پرنسپل محمد صدیق چوہان صاحب نے اِسے اپنا نجیِ معاملہ سمجھتے ہوئے جان جوکھوں کا کام کیا اور مسلسل مُتواتر جدوجہد جاری رکھتے ہوئے فائیل کو مختلف دفاتر سے عمل در آمد کروا کر سِول سکریٹریٹ تک پہنچائی جہاں عزت مآب ِمنسٹر برائے محکمہ مال جناب عبد الرحمن ویری صاحب، کمشنر سیکریٹری اور ڈپٹی سکیرٹری محکمہ مال جناب محمد اشرف میر صاحب اور غلام رسول صاحب نے گاہنی اور بلنوئی کے نہتے بچوں نیز طلباءو طالبات پر ترس کھاتے ہوئے 41کنال10مرلے سٹیٹ لینڈ کی منظوری مطابق گورنمنٹ آرڈر نمبر117 Rev(S) of 2017 dated 19-05-2017محکمہ تعلیم کے نام منتقل کر دی جس پر مزید عمل در آمد ہوا اور مطابق حُکم جناب ڈپٹی کمشنر صاحب پونچھ متذکرہ اراضی کی الاٹمنٹ بھی بنام گورنمنٹ ہائر سکنڈری سکول گاہنی در کاغذات محکمہ مال درج ریکارڈ کی جاچکی ہے۔ جبکہ متذکرہ بالا اراضی مقداری 41کنال 10مرلے کی گرداوری بنام گورنمنٹ ہائر سکنڈری سکول گاہنی عرصہ دو سال قبل سے ہی درج ریکارڈ چلی آ رہی ہے اوراب تجویز شدہ جگہ پر سکول کا استواری و ہمواری کاکام JCBمشین لگا کر شروع کر دیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ SSAسکیم کے تحت دو کمرہ جات کا تعمیری کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اب اس کے بعد آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا یقیناوہی ہو گاجو منظور خدا ہو گا۔

    بچوں پہ احسانات نچھاور کرنے کی تائید کرتے ہوئے عوام موضع گاہنی و بلنوئی نے ایس ڈی ایم مینڈر جناب ٹھاکر شیر سنگھ صاحب، تحصیلدار جناب شہزاد احمد خان صاحب، تحصیلدار منکوٹ جناب چوہدری محمد صغیر صاحب، پرنسپل جناب محمد صدیق چوہان صاحب، محکمہ مال کے فیلڈ سٹاف اور میڈیا میں کام کرنے والے افراد جنھوں نے بچوں کے مسائل کو ابھارنے میں اہم رول ادا کیاجن میں قمر عباس کیانی صاحب، جاوید خان صاحب،طارق خان صاحب وغیرہ اور تمام آفیسران کے اِس ہمدردانہ، جُرات مندانہ اور منصفانہ اقدامات اور مثبت رویے کی سراہنا کرتے ہوئے شکریہ بھی ادا کیا اور مبارک باد بھی پیش کی ہے۔

    تمام سیاسی اکابرین جِن میں ایم ایل اے مینڈھر جناب جاوید احمد رانا صاحب، سابقہ ایم ایل سی جناب محمد رشید قریشی صاحب اور پی ڈی پی لیڈر جناب محمد معروف خان صاحب نے بھی عوام موضع گا ہنی و بلُنوئی کو سیاست سے بالاتر ہو کر بچوں کا مسئلہ حل کرنے پہ مبارک باد پیش کی ہے اور یک جُٹ ہو کر سکول کے تعمیری کام میں ہاتھ بٹانے کی اپیل بھی کی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔