کرکے قلم فروخت قلم کار گر پڑے
منصور قاسمی
کرکے قلم فروخت قلم کار گر پڑے
قدموں پہ میرِ شہر کے فن کار گر پڑے
۔
صدیوں سے جو کھڑے تھے یہاں امن کے منار
نفرت کی بادِ تند سے اس بار گر پڑے
۔
ربّ کلیم ! پھر سے وہی معجزہ دکھا
فرعون کا ہر ایک فسوں کار گر پڑے
۔
اتنا غرور ٹھیک نہیں بڑھتی مانگ پر
قیمت نہ تیری پھر سرِ بازار گر پڑے
۔
آؤ پرندو ! گھر پہ ہمارے بناؤ گھر
طوفاں کی چال سے سبھی اشجار گرپڑے
۔
بیمار ماں کوچھت سے سرِ راہ پھینک دی
پڑھ کرخیر یہ، ہاتھ سے اخبار گر پڑے
۔
منصور ! اپنا رتبئہ بالا سنبھال رکھ
ایسا نہ ہو کہ پرچمِ کردار گر پڑے
تبصرے بند ہیں۔