مصیبت میں زمیں بھی کم نہیں ہے

افتخار راغبؔ

مصیبت میں زمیں بھی کم نہیں ہے

سو بے چینی کہیں بھی کم نہیں ہے

تمھارے دل میں کیا ہے کچھ تو بولو

 تمھارا کچھ نہیں بھی کم نہیں ہے

اگرچہ بے یقینی بھی ہے تھوڑی

اُسے مجھ پر یقیں بھی کم نہیں ہے

مشامِ جاں معطّر اور دل بھی

تری خوش بو کہیں بھی کم نہیں ہے

نہیں جھکتا کسی کے خوف سے دل

یہ ننھی سی جبیں بھی کم نہیں ہے

تمھیں ہے خوف ایٹم بم کا اتنا

یہ آہِ آتشیں بھی کم نہیں ہے

چلو کہہ دو کہ ہے تم سے محبت

نہیں ہے تو نہیں بھی کم نہیں ہے

ستم سہہ کر بھی دل رہتا ہے راغبؔ

کہ وہ ظالم حسیں بھی کم نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔