مودی ایمرجنسی، اندرا ایمرجنسی سے چھوٹی ہوگی

حفیظ نعمانی

وزیر اعظم نے عوام سے اپیل کی ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ ہندوستان کا اٹوٹ انگ رہیں اور کشمیر کو ایک بار پھر جنت نشان بنانے میں ان کی مدد کی جائے اور انہوں نے نیا نعرہ بھی دیا کہ ”کشمیر کو پھر سے جنت بنانا ہے“ ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کو مشکلات اور ان زخموں سے باہر نکالنا ہے کیونکہ وہ ایک عرصہ سے اس کا شکار بن رہے ہیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اب ہمیں نیا کشمیر بنانا ہے اور ہر کشمیری کو گلے لگانا ہے۔

ملک کی تقسیم کے بعد سے کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے اور وہ جموں اور لداخ کی طرح ہی ہندوستان کو پیارا ہے لیکن جس وقت وزیراعظم یہ باتیں کہہ رہے ہیں اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ شہرت کی حد تک جموں اور لداخ جشن منا رہے ہیں اور کشمیر صرف آنسو بہا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کشمیری بھائیوں کو گلے لگانے کی جو بات کہی ہے وہ اگر اس وقت کہتے جب کشمیری اپنی اصلی حالت پر آجاتا تو صحیح تھا آج وہ سب کو گلے لگانے کی بات کررہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ وہ کھڑے ہونا تو دور، بیٹھے بھی نہیں ہیں۔ آج بھی مرکزی وزیر مملکت جتندر سنگھ کہہ رہے ہیں کہ ”حالات معمول پر آتے ہی ریاست کی صورت حال بحال کرالی جائے گی۔“ اب ذرا وزیراعظم بتائیں کہ وہ صورت حال بحال کرنے کے لئے کیا کررہے ہیں؟ ملک کے سربراہ کشمیر کے جن بھائیوں کو گلے لگانے کی بات کررہے ہیں ان میں شیخ عبداللہ کے بیٹے اور پوتے بھی ہیں جو اٹل جی کے زمانہ میں این ڈی اے کا حصہ رہے تھے اور ہمیشہ پاکستان کا نشانہ اور ہندوستان کی آواز رہے ہیں ان کو بھی کم عقل متعصب گورنر نے بند کردیا ہے اور انہیں محبوبہ مفتی بھی جو کئی مہینے تک اس حکومت کی وزیراعلیٰ رہیں جس میں بی جے پی کے وزیر بھی تھے دشمن محسوس ہوئیں اور ان کو صرف نظربند ہی نہیں کیا بلکہ انہیں اپنی بیٹی سے بھی ملنے کی اجازت کے لئے سپریم کورٹ کی مدد لینا پڑی۔

وزیرداخلہ امت شاہ نے جب لوک سبھا میں بہ آواز بلند کہا تھا کہ فاروق عبداللہ کو نہ گرفتار کیا ہے نہ نظربند کیا ہے نہ ان پر مقدمہ چلایا ہے وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر میں ہیں تو یہ صرف ان تمام ممبروں نے ہی نہیں سنا تھا جو ہاؤس کے اندر تھے بلکہ کروڑوں آدمیوں نے بھی سنا تھا جو ٹی وی سن رہے تھے۔ اور جنوبی ہند کی پارٹی وائیکو کے ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ امت شاہ نے ہی کہا تھا کہ فاروق عبداللہ کسی بھی طرح کی حراست میں نہیں ہیں لیکن ہمیں ان کا پتہ ٹھکانہ نہیں معلوم۔ اور مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا کہ این سی پی کے لیڈر فاروق عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ اگر کوئی وزیراعظم سے یہ معلوم کرسکے تو معلوم کرکے بتائے کہ کیا وزارت داخلہ کا کام ایسے ہی سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی چلایا کرتے تھے جن کی نقل موجودہ وزیر داخلہ کررہے ہیں؟

وزیر داخلہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر چند خاندانوں سے نہیں 40  ہزار پنچوں اور سرپنچوں سے چلے گا اور ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ شاہ نے کہا کہ فاروق عبداللہ کو دو سال کے لئے نہیں انہیں وہاں کے سیکورٹی قانون کے تحت نظر بند کیا ہے۔ ان دونوں بیانات کے بعد کیا سمجھا جائے کہ کشمیریوں کا کیا ہوگا؟ وزیراعظم ہر کشمیری کو گلے لگانے اور کشمیر کو دوبارہ جنت بنانے کا وعدہ کررہے ہیں اور وزیر داخلہ کے الفاظ کا حاصل یہ ہے کہ اب کشمیر کے ان لیڈروں میں سے کسی سے بات نہیں کی جائے گی جو کشمیر کی آواز مانے جاتے ہیں بلکہ اگر وہ رو روکر مررہے ہیں تو مرنے دیا جائے گا اور کشمیر سے باہر گرام پنچایتوں کے سرپنچوں کو منھ لگایا جائے گا اور انہیں ہی لیڈر بنایا جائے گا۔ اب تک صرف ان لیڈروں کو نظرانداز کیا جاتا تھا جن کو علیحدگی پسند کہا جاتا تھا جیسے اسعد گیلانی یا یٰسین ملک اور میرواعظ۔ ان کے علاوہ وہ لیڈر جو پہلے دن سے پاکستان کے خلاف اور مسلم لیگ کے خلاف تھے ان پر کبھی شک نہیں کیا گیا اور نہ ان کو نظر انداز کرنے کے بارے میں کسی نے کہا۔ اب جو پنچوں اور سرپنچوں کا فتنہ کھڑا کیا جارہا ہے وہ صرف اس لئے کہ بی جے پی نواز کشمیری لیڈروں کی نئی فوج بنائی جائے۔

گورنر کی طرف سے ایسے بیانات دیئے جارہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت تو پابندیاں ختم کرنا چاہ رہی ہے مگر کشمیری ہی پوری طرح ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔ 45  دن کے بعد جبکہ سرکار کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اخبار چھپ رہے ہیں۔ ہم 65  برس سے پریس والے اور 55  برس سے اخبار والے بھی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اخبار کیسے تیار ہوتے ہیں اور کیسے چھپتے ہیں اور کیسے تقسیم ہوتے ہیں؟ اگر گورنر ستیہ پال ملک یہ چاہیں کہ ہم اپنا اخبار کشمیر میں تقسیم کرادیں تو لکھنؤ میں بیٹھے بیٹھے کشمیر کا اخبار تیار ہوجائے گا اور جموں سے سری نگر جاکر تقسیم ہوجائے گا۔ سید علی گیلانی صاحب نے چاہا تھا کہ پریس کانفرنس کرکے دنیا سے اپنی بات کہیں۔ اس کے لئے انہوں نے پوسٹ کارڈ سے دعوت نامے بھیجے لیکن اس پریس کانفرنس کو حکومت نے روک دیا۔ یہ وہی رویہ ہے کہ اگر کوئی کسی بھی پارٹی کا لیڈر کشمیر جانا چاہے تو اسے ہوائی اڈہ سے واپس کردیا جاتا ہے۔ اب ذرا وزیراعظم کے اس بیان کو دیکھئے جو انہوں نے عوام کو خطاب کرتے ہوئے دیا ہے اور اس برتاؤ کو دیکھئے جو گورنر اپنائے ہوئے ہیں۔ آج انہوں نے وہی کردیا ہے جو کم سمجھ افسر کسی شہر میں کرفیو لگاکر کرتا ہے کہ پھر وہ اسے ختم کرنے کی ہمت نہیں کرپاتا وہ ڈرتا ہے کہ ہر آدمی شمشیر بکف سامنے آجائے گا۔ نائب وزیر داخلہ نے دبے دبے اشارہ دے دیا ہے کہ 18  مہینے کے اندر لیڈروں کو رہا کردیا جائے گا یعنی ایمرجنسی 19  مہینے کی نہیں ہوگی اندرا ایمرجنسی سے ایک مہینہ چھوٹی ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔