موسم سرما اور اسلامی ہدایات

عبدالرشید طلحہ نعمانی ؔ

اِس کائناتِ ہست و بود میں اللہ ربّ العزت کی تخلیق کے مظاہر بے شمار ہیں ؛ان ہی میں موسموں کا اختلاف بھی  قدرت الہی  کا عظیم مظہر ہے، اللہ تعالی نےتعریف وتعارف کی مصلحت سے جہاں انسانی مزاج و طبیعت، رنگ ونسل اور خاندان و قبیلے میں اختلاف رکھا ہےوہیں سال کے موسموں میں بھی تنوع وتغیر پایاجاتاہے۔عمومی طورپر اہل زمین سال بھر میں چار موسموں گرمی، سردی، بہار اور خزاں سے مستفید ہوتے ہیں ۔ ان میں  ہرموسم اپنی الگ خصوصیت وشناخت رکھتا ہے:گرمیاں ان کھیتوں ، فصلوں اور پھلوں کے لیے موزوں اور مناسب  ہوتی ہیں جو زیادہ درجۂ حرارت چاہتے ہیں ۔ سردیوں میں خشک میوہ جات کی بہتات ہوتی ہے جو اپنا منفرد مزہ رکھتے ہیں۔ برسات کی ہوائیں اﷲ کی رحمت کی نوید لاتی ہیں اوربارش خشک ٹیلوں اور قحط زدہ علاقوں کو  سرسبز و شاداب  کردیتی ہے۔ موسم خزاں میں پتے جھڑتے ہیں اور درخت نیا لبادہ پہننے کی تیاری کرتے ہیں ۔

دن اور رات کے اس الٹ پھیر اورموسموں کے اس آنے جانے ہی سے کائنات کی رنگینی قائم ہے، اس نظام کے انتہائی مربوط ہونے سے پتا چلتا ہے کہ اس کا خالق بہت دانا اور حکمت والا ہے، ہمیں اسی کو آقا اور اسی کوپالن ہار مان کر اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔

تغیر پذیر دنیا سے عبرت آموزی :

عبرت حاصل کرنا اور سبق لینا روشن ذہنوں کا خاصہ ہے، عبرت پذیری؛تجربہ کاری اور بصیرت مندی کی علامت ہوتی ہے، انعامات خداوندی اور مظاہر قدرت سےسبق حاصل کرنے کا عمل انسان کو کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور تباہی سے نجات دلاتا ہے۔ نیز اس سے انسان کو نیک اور باصلاحیت لوگوں کے راستے پر چلنے کی رہنمائی ملتی ہے، اور اس کے لیےمثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔

مسلمان کو چاہئے کہ وہ زندگی کے شب وروز اور ماہ و سال کی تبدیلی سے عبرت حاصل کرے، اور یہ جان لےکہ وہ اللہ کتنا طاقت و قدرت والا ہے جو دن و رات میں تبدیلی کرتا ہے۔جیساکہ ارشاد باری ہے:’’بہت با برکت ہے وہ اﷲ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں آفتاب سا چراغ اورجگمگاتا چاند بنادیا، وہی ہے جس نے رات اور دن کو یکے بعد دیگرے آنے والابنایا، ان کے لیے جو یاد دہانی حاصل کرنا چاہیں یا شکر گزار بننا چاہیں ۔‘‘ (سورۂ فرقان)

مفسر قرآن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے’’ یُقَلِّبُ اللَّہُ اللَّیْلَ وَ النَّھَار‘‘ کی تفسیر میں فرمایا کہ وہ یعنی اللہ پاک ان میں تصرف و تبدیلی کرتا ہے چناچہ اس کو لمبا کرتا اور اس کو چھوٹا کرتا ہے، یہاں تک کہ دونوں برابر ہوجاتے ہیں ، پھر جو لمبا تھا وہ چھوٹا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جو چھوٹا تھا وہ لمبا ہونےلگتا ہے، اور اللہ ہی اپنے حکم، اپنی طاقت، غلبہ اور علم سے ان میں تبدیلی لاتا ہے، بلا شبہ اس میں اللہ تعالی کی عظمت کی دلیل ہے‘‘(تفسیر ابن کثیر )

 ہم ذرا اس بات کا صرف تصور کریں کہ اگر ہمیشہ ایک ہی موسم اور ایک ہی درجۂ حرارت و برودت رہے تو اس دنیا میں انتشار برپاہوجائے، بد مزگی اوربے رنگی پیدا ہو جائے، وقت گزرنے کا احساس ختم ہو جائے اور رنج کی کیفیت کبھی راحت میں بدلنے نہ پائے۔ غور کیاجائے تو سال کے ان چاروں موسموں میں بندہ مؤمن کے لئے اس کے ایمان و اعمال، رہن سہن، چال ڈھال اور تبدیلی و انقلاب سے متعلق سبق آموزی کے ایسے مظاہرموجود ہیں ؛جن میں غور و خوض  کرکے وہ دنیا اور آخرت سنوارسکتاہے، البتہ اکثر لوگ ان چیزوں سے ناواقفیت کی بناء پر بغیرعبرت و موعظت کےہرموسم یوں ہی سرسری گزاردیتے ہیں ۔

سردی کی شدت جہنم کا اثر :

موسم سرما میں شدت کی سردی اور گرما میں شدت کی گرمی جہنم کی سانس کی وجہ سے ہے؛جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا: ’’ جہنم نے اپنے رب کے پاس شکایت کی، چناچہ کہا: اے میرے رب میرے ایک حصہ نے دوسرا حصہ کھایا، تو اللہ نے اس کو دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سانس سرما میں اور دوسری سانس گرما میں ، چناچہ یہی وہ شدت کی گرمی ہے، اور وہ شدت کی سردی؛جسے تم محسوس کرتے ہو ‘‘(صحیح البخاري)یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی جنتیوں کو شدت سردی اور شدت گرمی سے محفوظ رکھے گا۔(سورہ دہر)

جاڑے سے روک تھام کے ذرائع اختیار کرنا:

موسم سرما میں سردی سے بچنے کے اقدامات کئے جانے چاہئے؛تاکہ سردی کے مضر اثرات سے بچا جائے، چناچہ اللہ تعالی نے سردی سے بچنے کے لئے ہمیں اسباب عطا کئے ہیں اور گرمی کے ان اسباب کو صیغہ امتنان سے ذکر فرماتے ہوئے کہاہے: ’’اور اسی نے چوپائی پیدا کئے، جن میں تمہارے لئے گرمی کے لباس(اسباب) ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں ‘‘۔(النحل : 5)، اور فرمایا  ’’ اور اللہ نے ہی تمہارے لئے تمہارے گھروں میں سکونت کی جگہ بنادی ہے اور ان (چوپایوں ) کی اون، رؤوں اور بالوں سے اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے فائدہ کی چیزیں بنائیں ‘‘(النحل : 80)۔

مذکورہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ گرمی دینے والے اسباب اللہ کی نعمت ہیں ؛جنہیں بغیر کسی تردد کے استعمال کرنا چاہئے، اور ان کے استعمال کے وقت اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے، چناچہ عمر رضی اللہ عنہ نے حکومتی سطح پر اپنی رعایا کو یہ حکم بھیجا کہ : ’’ موسم سرما آچکا ہے، لہذا تم اون( کے کپڑے)، موزے، وغیرہ پہن کر اس کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ، کیونکہ یہ سردی دشمن ہے، جو جلدی داخل ہوجاتی ہے، جبکہ دیر سے نکلتی ہے‘‘ حافظ ابن رجب نے کہا کہ: یہ عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی رعایا کے ساتھ مکمل خیرخواہی، حسن نگرانی، شفقت اور اہتمام کا بین ثبوت ہے۔ ( لطائف المعارف، از ابن رجب : ص:330)

نادار و مفلس لوگوں کے کام آنا:

اسلام وہ  کامل ومکمل مذہب جو انسانیت کی تعلیم دیتاہے، اسلام کے بغیر انسانیت نوازی کا کوئی تصور نہیں کیاجاسکتا؛یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں جہاں اپنی ذات سے متعلق حقوق بیان کیے گئے وہیں دوسروں کے حوالے سے عائد ہونے والے فرائض کی نشان دہی بھی کی گئی  ؛لہذا موسم سرما کی مناسبت سے ہم ان فاقہ کش، نیم برہنہ محتاجوں ، فقیروں اور مسکینوں کو ہرگز نہ بھولیں جوکس مپرسی کی وجہ سےسردی کی خنک راتوں میں ٹھٹر کر رہ جاتے ہیں اور گرمی حاصل کرنے کا کوئی سامان نہیں پاتے۔

موسم سرما میں ہمارے بھائی کئی طرح کی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ، مختلف جگہوں پر(سردی سے بچاؤ کے لیے جلائی گئی) آگ کی وارداتیں رونما ہوجاتی ہیں ، طرح طرح کی بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، محنت ومزدوری، تجارت و کاروبار وغیرہ جیسے معاشی اسباب کا سلسلہ بھی کسی قدر سست پڑجاتا ہے؛جس کی وجہ سے محتاجوں اور حاجت مندوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے؛اس لیےہمیں بہ قدر استطاعت غریبوں ، محتاجوں ، بیواؤں ، مسکینوں ، یتیموں اور ناداروں کی مددکر کے اپنی آخرت کا سامان کرنا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ انسان دوستی کا ثبوت بھی پیش کرنا چاہئے۔سرکاردوعالمﷺنے ارشادفرمایا:اللہ تعالی بندے کی مدد میں لگا  رہتاہے ؛جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مددمیں رہتاہے۔(مسلم)

جاڑا مؤمن کے لیے موسم بہار:

امام احمد نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: جاڑا مؤمن کے لیے بہار کا موسم ہے۔ امام بیہقی وغیرہ نے اس روایت میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ اس موسم کی راتیں لمبی ہوتی ہیں تو مؤمن ان میں قیام کرتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں تو مؤمن ان میں روزہ رکھ لیتا ہے۔(مسند احمد و بیہقی)

سردیاں مؤمن کے لیے موسم بہار اس وجہ سے ہیں کہ مؤمن اس موسم میں عبادتوں کے باغات میں خوب میوے کھاتا ہے، ریاضت کے میدانوں کی سیر کرتا ہے؛جیسا کہ مویشی موسم بہار کی چراگاہ میں چرتے ہیں تو وہ موٹے ہو جاتے ہیں اور اپنے جسموں کی اصلاح کرلیتے ہیں اسی طرح سے مؤمن کے دین کی بھی سردیوں میں ایسی طاعت بجا لانے سے اصلاح ہوجاتی ہے؛جن کی حق تعالیٰ شانہ نے اسے توفیق دی ہے کہ مؤمن موسم سرما میں بغیر تکلیف و مشقت کے روزہ رکھ لیتا ہے اسے بھوک اور پیاس نہیں ستاتی کہ دن چھوٹے چھوٹے اور ٹھنڈے ہوتے ہیں اس طرح اسے روزے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔

حضرت عبید بن عمیرؒ کے بارے میں مروی ہے کہ جب سردیوں کا موسم آتا تو کہتے، اے قرآن والو! تمہاری راتیں قرآن پاک کی تلاوت کے لیے طویل ہوگئیں ۔ پس تم قرآن میں وقت گزارو اور روزے رکھنے کے لیے دن چھوٹے ہوگئے تو تم روزہ رکھو۔

معضدؒ فرماتے ہیں کہ اگر تین چیزیں نہ ہوتیں تو میں اگر شہد کی مکھی بھی بن جاتا تو پرواہ نہ ہوتی۔ گرمیوں کی دوپہر کی پیاس، سردیوں کی راتوں کا قیام اور تہجد میں قرآن مجید پڑھنے کی لذت۔

سرما  کا روزہ  :

 ترمذی شریف کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺنےارشاد فرمایا کہ جاڑے میں روزے رکھنا غنیمت باردہ حاصل کرنا ہے حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں میں تمہیں غنیمت باردہ کے بارے میں خبر نہ دوں ؟ لوگوں نے کہا ضرور! تو فرمایا کہ سردیوں میں روزے رکھنا۔غنیمتِ باردہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ غنیمت جو بغیر کسی جھگڑےاورتھکن و تعب کے حاصل ہو جائے۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتےہیں کہ: موسم سرما مبارک ہوکہ اس میں برکت نازل ہوتی ہے، قیام کے لیے رات طویل ہوتی ہے روزہ رکھنے کے لیے دن چھوٹا ہوتا ہے اور حضرت حسن بصریؒ نے بھی فرمایا، مؤمن کا بہترین زمانہ سردیوں کا زمانہ ہے، رات طویل ہوتی ہے کہ اس میں قیام کرتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں روزہ رکھ لیتا ہے۔

موسم سرما میں رات کا قیام:

سردیوں کی راتوں میں قیام کرنا نفوس پر دو وجہوں سے بھاری ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ نفس انسان کو جاڑے کی شدت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہونے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ داؤود بن رشید کہتے ہیں کہ میرے ایک بھائی شدت کی سردی میں ایک رات نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ان پر دو بوسیدہ کپڑے تھے، جب انہیں سردی نے ستایا تو رونے لگے۔ ایک پکارنے والے نے ان سے کہا، ہم نے تجھ کو نماز پڑھنے کے لیے کھڑا کیا اور دوسروں کو سلائے رکھا پھر بھی تو ہمارے سامنے رو رہا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جاڑے کی شدت میں پورا وضو کرنے میں نفس کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اور سردی کی شدت میں کامل وضو کرنا اعمال میں افضل عمل ہے۔

جاڑوں کا وضو:

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا، کیا میں تمہیں ایسی چیزوں کی خبر نہ دوں کہ جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ خطائوں کو مٹادے اور درجات بلند کردے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، ضرور یارسول اللہ!۔ آپﷺنے فرمایا، نفس کی تکلیف کے وقت وضو کو پورا کرنا اور مسجد کی طرف کثرت سے چلنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا۔ یہی رباط ہے یہی رباط ہے۔

حضرت معاذ بن جبلؓ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺنے پروردگار تعالیٰ کی خواب میں زیارت کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے محمد! ملاء اعلیٰ کس چیز کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا، درجات اور کفارات میں ۔ فرمایا، کفارات یعنی جن سے گناہ معاف ہوں وہ ناپسندیدگی کے وقت وضو کو پورا کرنا، قدموں کا جمعہ کی نماز کے لیے اور ایک روایت میں ہے جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے مسجد کی طرف چلنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا۔ جس نے یہ کام کیے وہ خیر کے ساتھ زندگی گزارے گا اور خیر کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے پاک ہو جائے گا جبکہ لوگ محوِ خواب ہوں گے۔ (ترمذی و احمد)

دعوت فکر و عمل:

درج بالا سطور میں نہایت  اختصار کے ساتھ ان چیزوں کا ذکر کیا گیا؛ جن کی اہمیت کا ہم موسم سرمامیں اندازہ لگا سکتے ہیں ؛لیکن یاد رکھیں !یہ چند دن کی سختیاں ہم سے جھیلی نہیں جاتیں اور اس کے لئے ہم سہولتوں کا انتظام کرنےلگتے ہیں ، اور بہ قدر وسعت کرنا بھی چاہیے؛مگر  ناعاقبت اندیش ہے وہ شخص، جو دنیا میں رہ کر اپنی زندگی مرضئ خدا اور تعلیماتِ شریعت کے خلاف گزارتاہے جوآخرت میں سزا کا مستحق قرار پائے گا جہاں کی سختیاں ابدالآبادہوں گی، ہمارا کمزوربدن اور ناتواں جسم دنیا کی معمولی سردی اور ہلکی سی خنکی برادشت نہیں کرسکتاتو پھر آخرت کی ہولناکیوں کا کیا مقابلہ کرپائےگا۔ اسی لئے ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں ، نیزدن و رات کی تبدیلیوں اور ماہ وسال کی گردشوں سے سبق لینے کی کوشش کریں ۔

انقلابات جہاں واعظ رب ہیں سن لو

ہر تغیر سے صدا  آتی ہے فافہم فافہم

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    گیزر کی سہولت تو تھی نہیں اس لئے اماں پانچ کلو والے گھی کے کنستر میں پانی گرم کرکے ہم بہن بھائی کا منہ ہاتھ دھلاتی، ننگے پنڈے پر سرسوں کا تیل، منہ پر نیلی شیشی والی تبت کولڈ کریم اور پیروں پر نارنجی والی تبت پومیڈ لگاتی اور رنگ برنگی تیز رنگوں والی جرسیاں پہنا دیتی دنیا کی نظروں میں ہم جوکر مگر اس کے سوہنے تھے، مائیں بہت سادہ ہوتی ہیں انھیں اپنے کالے کلوٹے، معمولی شکل و صورت والے بچے بھی یوسف ثانی لگتے ہیں ۔ اب دیکھو موسم کی سختی کا سامان خریدنے میں ہی ہزاروں خرچ ہوجاتے ہیں مگر وہ بچپن کی نیلی و نارنجی تبت والا مزہ نہیں آتا ۔

تبصرے بند ہیں۔