مولانا علی میاں ندوی: ہند میں سر مایہ ملت کا نگہبان
محمدصابرحسین ندوی
اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
اذا جمعتنا یا جریر المجامع
عالم انسانی بالخصوص مسلمانوں کی تاریخ میں بیسویں صدی سامراجی طاقتوں کے عروج، مغربیت و مشرقیت کی کشمکش اور عمومی ہیجان و اضمحلال کا شکار تھا، جہاں انقلاب انسانی کی بغاوت سر اٹھاتے تو وہیں فکری و تہذیبی یلغار مشرقی ایوانوں پر دستک دے رہی تھی، جس کے سیل رواں میں اسلامی تہذیب و تمدن اور ملکی حالات و کوائف میں اضطراب و انتشار کی فضاء عام ہو کر افسردگی و ناامیدی کا سایہ فگن ہونے لگا تھا، اس وقت میں ایسے مرد داناں ، دردمند اور سوز دل کے حامل، انسانی ہمدردی اور انسان دوستی سے لبریز، حب الوطنی کے ساتھ اسلامی اقدار واخلاق اور اسلامی غیرت و حمیت بلکہ اس سے بڑھ کر جرات ایمانی اور روح ربانی کے ساتھ ظالمانہ نظام حکومت اور حکمرانوں کو دعوت اسلام کی دعوت دینے والی شخصیت کی اشدضرورت تھی؛جس کی تکمیل سیدی حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ جس کے بارے میں کہاجاسکتا ہے؛
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اسکی ادا دل فریب، اسکی نگہ دلنواز
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
آپ حقیقتاً نگہ بلند، سخن دلنواز اور صفات قلندرانہ سے معمور تھے، آپ کی شخصیت امام احمد بن حنبل کے ثبات واستقامت، امام غزالی کا کمال علم، امام ابن تیمیہ کی ذہانت و فطانت اور تصنیف و تالیف، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت منیری کی صوفیانہ باز گشت اور اصلاح و تجدید کی فکر اور حضرت مجدد الف ثانی کی حکومت کو وعظ و پندار علم توحید کا بلند کرنا، شاہ ولی اللہ کی حکمت وسیاست کے درمیان اعتدال اور نظام تعلیم کی درستگی اور حضرت سید احمد شہید رحمہم اللہ کا جہد و جہاد، غیرت ایمانی اور خلافت اسلامی کی اہمیت کی بدرجہ اتم جامع تھی۔ آپ کا دل امت مسلمہ کی فکر و آہ میں کڑھتا تھا، شب کی کروٹیں اور دعا و مناجات کا محور سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انسانی جماعت فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہو باہمی محبت و شفقت اور ملکی ہم آہنگی و موافقت بحال ہو لیکن اسلامی تعلیمات پر مسلمانوں کا ثبات، نسل نوکی پرداخت اور عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت نبوی کی پاسداری سے کسی قسم کی صلح مصالحت نہ ہو، ایمانی بے باکی اور بے لاگ و لوث تبلیغ و اشاعت کی جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے؛
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیما نے
نگاہ یارسلامت ! ہزار میخانے
یہی وجہ ہے کہ آپ نے کبھی ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج زوال کا اثر‘‘کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی عالمی قیادت میں قدر و قیمت اور اس سے سبکدوشی کے نتیجہ میں عالمی خسارہ اور امت مسلمہ خاص طور پر عالم عرب کومحمد عربی ؐ کی قدر واہمیت اوراسی کی تعلیمات کو حرزجاں بنانے کی تلقین کرتےہوئے بتلایاکہ ’’اس (مسلمانوں ) کا عقیدہ ہے کہ محمد عربی ؐ عالم عربی کی جان، اس کے عزت وافتخار کا عنوان، اور اس کا سنگ بنیاد ہیں ، اگر اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جدا کردیا جائے تو اپنے تمام قوت کے ذخیروں اور دولت کے چشموں کے باوجود اس کی حیثیت ایک بے جان لاشہ اور ایک نقش بے رنگ سے زیادہ نہ ہوگی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے جن کی وجہ سے عالم عربی عالم وجود میں آیا اس سے پہلے یہ دنیا منقسم اور منتشر اکائیوں ، باہمی دست و گریباں ، قبیلوں ، غلام قوموں اور بے مصرف صلاحیتوں کا دوسرا نام تھی، اس پر جہل و گمراہی کے بادل چھائے ہوئے تھے، عرب رومی شہنشاہی سے جنگ مول لینے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے، اس کا تصور کرنا بھی ان کے مشکل تھا، شام جو بعد میں عالم عربی کا بہت اہم حصہ قرار پایا ایک رومی نو آبادی تھی جو مطلق العنان حکومت اور سخت ترین ڈکٹیٹر شپ کے رحم و کرم پر تھی، اس نے ابھی تک آزادی اور انصاف کا مفہوم ہی نہیں سمجھا تھا’…….﴿‘‘(ص:۶۔ ۳۵۵)، نیز انہیں عہد رفتہ کی یاد دہانی کرائی اور ان کے تن سامری میں پھر وہی صداقت و شجاعت کی روح پھونکی، اور فرمایا:’’وہ عالم اسلامی کا دھڑکتا دل ہے، جس کی طرف روحانی اور دینی طور پر پورے عالم اسلام کا رخ ہے، جو ہر وقت ا سی کا دم بھرتا ہے، اور اس کی محبت ووفاداری میں سر شار رہتا ہے‘‘(۳۵۵)۔
تو کبھی ’’اسلام اور مغربیت کی کشمکش‘‘ کے ذریعہ مغربی ممالک کی دیوثیت اوراسلام کو یر غمال بنانے کی سازش کے درمیان مسلم حکمرانوں کی کشمکش کو اجاگر کر کے ایمانی قوت کی طرف توجہ دلائی، اور فرمایا’’جہاں تک اسلامی ملکوں کے سربراہوں اور رہنماوں کا تعلق ہے، ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس اندھا دھند تجدد ومغربیت اور تشکیک وانتشار سے خواہ وقتی طو پر ان کو اور ان کے جاں نشینوں کو فائدہ پہونچے، مجموعی طور پر ملت کو ایسا نقصان پہونچے گا اور اس کی جڑیں اس طرح ہل جائینگی کہ صدیوں تک اس کی تلافی نہ ہوسکے گی، ان قوموں میں اپنی ساری کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجود وہ طاقتور ایمانی جذبہ اللہ کے نام پر ایثارو قربانی کی صلاحیت، اطاعت اور انقیاد کا ولولہ اور خلوص و محبت کی گرمجوشی پائی جاتی ہے، جن سے تقریبا دنیا کی تما مادہ پرست قومیں محروم ہوچکی ہیں ‘‘(ص:۳۱۰)۔ اسی طرح ’’تاریخ دعوت عزیمت‘‘ کی قسطوار تصنیف کے ذریعہ دعوت اسلام کا تسلسل اورہر زمانے میں مجددین اسلام کے جہد پیہم کو ثابت کیا اور بتلایا’’یہ تاریخی واقعہ ہے کہ جب کبھی اسلام کیلئے کوئی فتنہ نمودار ہوا، اس کی تحریف اور اس کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، یا اس کو غلط طریقہ پر پیش کیا گیا، مادیت کا کوئی سخت حملہ ہوا کوئی طاقت ور شخصیت ایسی ضرور میدان میں آگئی جس نے ا فتنہ کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا اور اس کو میدان سے ہٹا دیا‘‘(۱؍۲۷)۔ ’’سیرت سید احمد شہید‘‘کے ذریعہ جہاد واستقلال اور بوقت ضرورت تیر و تلوار کو اسلامی شعار قرار دیا، اور فرمایا’’اسلام کی خدمت اور نوع انسانی کی سعادت کا ایک ہی لائحہ عمل ہے جس کے مطابق رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم آپ کے خلفائے راشدین اور بعض مجددین ملت نے عمل کیا یعنی دنیا میں اسلامی شریعت اور خلافت کا نظام قائم کرنا اور اسلام کے اخلاقی ا ورروحانی، مادی، سیاسی غلبہ کی کوشش کرنا‘‘(نقوش اقبال:۱۰۱)۔ تو وہیں ’’کاروان زندگی ‘‘ کی مجلد 8 جلدوں کی تصنیف کے ذریعہ بیسویں صدی کی تاریخ اسلامی اور مسلمانوں کی سعی مشکور کو مرتب فرمایا۔
یہ بجا ہے آج اندھیرا ہے، ذرا رت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے، وہی شاخ لائیگی برگ و بر
راقم شاید اپنے دعوے میں غلط نہ ہو کہ علامہ شبلی، سید سلیمان ندوی اور علامہ اقبال کے بعد سیدی علی میاں ندوی ہی کی ذات تھی جنہوں نے جدید طرز فکر، مغربی طوفان اور سیلاب دہریت اور اسلام مخالف تہذیب وثقافت کی سورش کو نہ صرف سمجھا بلکہ اس کے لئے تصنیف و تالیف کے ساتھ تحریکوں کے ذریعہ بھی صف بندی کی، حتی کہ آکسفورڈ میں اسلامی شعبہ کے افتتاح سے لیکر مغربی ایوانوں اور سمیناروں میں خم ٹھونک کر اسلامی حقانیت کا اعلان کیا اور ’’اسمعیات ‘‘ کے ذریعہ مشرق ومغرب میں وحدانیت واسلامیت کا نعرہ لگایابلکہ آپ نے عارضہ کے باوجود قرطبہ کی مسجد سے ببانگ دہل ’’جاء الحق و زهق الباطل‘‘کی صدا لگائی کہ حاضرین پر سکتہ طاری ہوگیا(کاروان زندگی )۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور برادران ملک کے درمیان بڑھتی خلیج کو پاٹنے اور اسلامی دعوت و ارشاد کیلئے پیام انسانیت کا فارم استعمال کرکے مذہبی مذاکرات اور انسانی رشتہ پر جمع ہونے اور فرقہ پسند طاقتوں کو جواب دینے کا کام کیا؛ تو وہیں ایمرجینسی کی بربریت کے خلاف اندراگاندھی پر برملا تنقید کی اور حکومت کو شاہ بانو کیس کے ذریعہ اسلامی خانگی زندگی اور حقوق اساسی سے کھلواڑ کرنے پر مسلم پرسنل لا کے پلیٹ فارم سے ایک طرف مسلم بیداری کی مہم چلائی تو دوسری طرف راجیو گاندھی کو ناعاقبت اندیشی کی خبردیتے ہوئے آگاہ کر دیا کہ اسلامی شریعت میں مداخلت قطعا برداشت نہ کی جائے گی، اور پھر سونیا گاندھی اور اٹل بہاری واجپئی کے سامنے جمہوری نظام میں ملک وملت کی سالمیت اور اسے پرے انجام پر آگاہ فرمایا جسے ہر کس وناکس نے اخبار ورسائل کے ذریعہ دیکھا اور پڑھا اور یہ سچ کر دکھایا:
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
حضرت مولانا کی تصنیف و تالیف کا مطالعہ کرنے والے نادیدہ کو بسااوقات آپ کی شخصیت کے متعلق کسی دور کی صدی و زمانے کا گمان ہوتا ہے، اور یہ سوچنے پر مجبور ہو ہاجاتا ہے کہ کیا ابھی سترہ سال قبل ایک ایسی شخصیت تھی جو مدرسہ کا فارغ، داڑھی ٹوپی اور شیروانی میں نحیف بدن لئے، چھوٹے سے گاؤں تکیہ کلاں کا مولود ایمانی حرارت، قلبی سوز اور اسلامی فہم وادراک میں اس قدر بڑھ جائے گاکہ وہ نہ صرف ملکی بلکہ عالمہ رہنماون کا مصلح قرار پائے اور بے لوچ شاہ فیصل کے دربار میں گویاہو’’میں سوچ رہا تھا ہمارے یہاں بھی ایک بادشاہ گزرا ہے، آج کے ہندوستان وپاکستان، سرلنکا، برما، نیپال اور دور تک اس کی حکومت تھی اس نے اپنے باون سالہ عہد اقتدار میں بیس برس گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے، اس کے دور میں مسلمان آزاد تھے، خوشحال تھے، ان کے لئے آسانیاں تھیں لیکن بادشاہ کا حال یہ تھا کہ وہ پیوند لگے کپڑے پہنتا تھا، وہ قرآن مجید کی کتابت کرکے اور ٹوپیاں بن کر گزر اوقات کرتا، رات بھر اپنے پروردگار کے حضور میں کھڑا رہتا اور اس کے دربار میں آنسووں کا نذرانہ پیش کرتا، اس وقت مسلمان حکمراں غریب وسادہ تھے اور عوام خوشحال اور آسودہ، آج آپ کے محل میں قدم رکھا تو اس تقابل میں کھو گیا کہ سب کچھ بدل گیا ہے آج ہمارے بادشاہ خوشحال ہیں او دوسری طرف مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ بے گھر بے در ہیں ‘‘(کاروان ادب اسلامی:۱۳۴، اپریل ۲۰۰۱)حتی کہ زمانے نے اسے مفکر اسلام کا لقب دیا جائے، جس کی فراست ایمانی نے یہ داعیہ پیدا کیا ہو کہ لاکھوں کی رقم افغانی طالبان کو دیدی جائے، جس کی مقبولیت کا عالم یہ ہوکہ زندگی میں کلید کعبہ کا اعزاز تو وفات کے بعد ظل کعبہ میں بلکہ عالم کے اکثرمقام پر غائبانہ جنازے کی نماز کا شرف حاصل ہو، جس کی موت پر 1600 صفحات کے مجموعے تیار کئے جائیں جن میں 37 عرب علماء کی نیازمندی شامل ہو۔ چنانچہ آپ کی یہی جامعیت، اعتدال، جمال، کمال اور بے ہمہ وباہمہ شخصیت کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے:
مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں
شمع محفل کی طرح سب سے جدا، سب کا رفیق
قارئین کرام۳۱؍دسمبر۱۹۹۹ اسی شخصیت کی وفات کا دن ہے، جس کی زندگی شہد کی مکھی کے مثل تھی؛جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ مناسب پھلوں ، پھو لوں سے رس لے اور شہد تیار کرکے عوام کیلئے قابل قبول بنائے لیکن ایک ڈنک بھی رکھے جو اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر استعمال کرے، آپ بھی مشرب و مسلک کی تفریق کے بغیر اور یہ عقیدہ رکھتے ہوئے بقول جسٹس تقی عثمانی صاحب’’مفکر ملت کی داعیانی فکر ونظر کا چہار سو آج اعتراف اس لئے بھی ہورہا ہےکہ آپ نے کبھی راستے کو منزل نہیں بنایااور صحیح منزل کی طرف جانے والے ہر راستے کی کھلے دل سے قدر کی (کاروان ادب اسلامی:۱۳۹، اپریل ۲۰۰۱)چنانچہ آپ ہر ایک کیلئے ایک سر ہوکر رہنے اور اتحاد اتفاق کو برقرار رکھنے اور ملک ملت کی حفاظت کے تئیں ایماندار رہنے کی کوشش کرتے ؛لیکن ڈنک کے سلسلہ میں آپ بدرجہا وسیع القلبی کے حامل تھے جب تک کہ کوئی اسلامی حدود کو پار کرنے کی جرات نہ کرے آپ اس کا استعمال ذاتی طور پر کبھی بھی نہ فرماتے۔ اگر ہم آپ کی زندگی اورمسلمانوں کی حالت پر قلق و بے اطمینانی کی داستان پر یہ تین اشعار پیش کئے جا سکتے ہیں ، جن کے اندر پوری کتاب کا مضمون ہے۔
چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں
کہیں بہارنہ آئے، کہیں بہار آئے
یہ میکدہ کی، یہ ساقی گری کی ہے توہین
کوئی ہو جام بکف، کوئی شرمسار آئے
خلوص و محبت اہل چمن پر ہے موقوفکہ شاخ خشک میں بھی پھر سے برگ و بار آئے
تبصرے بند ہیں۔