نہ خود سری میں حسیں روز و شب گزارا کر

عبدالوہاب سخن

نہ خود سری میں حسیں روز و شب گزارا کر
زمینِ دل پہ کبھی پاؤں بھی پَسارا کر

کنارے لگ گئی میرے بھی شوق کی کشتی
مرے رفیق تو اب شوق سے کنارا کر

کسی کے ہجر میں تصویر بن گیا ہوں میں
حسین شام کے منظر! مجھے ِنہارا کر

نکال کوئی تو صورت کہ فاصلے نہ رہیں
قریب آ مرے، یا پھِر مجھے اشارا کر

یہی ہے لطف انا کا، یہی ہے دلداری
کہ بازیوں کو کبھی جیت کے بھی ہارا کر

تری صدائیں کبھی رائیگاں نہ جائیں گی
وہ سُن رہا ہے، یہی سوچ کے پکارا کر

حصولِ امن و محبت کی چاشنی کے لئے

مزاجِ تلخیِ دوراں سخنؔ گوارا کر

تبصرے بند ہیں۔