اردو اسکول اور اردو زبان: مسائل اور ان کاحل 

سید عبداللہ علوی بخاری اشرفی

اسکولیں خواہ کسی بھی زبان کی ہوں کسی نہ کسی ٹرسٹ کے زیر انتظام چلتی ہیں۔ یہ ٹرسٹ کبھی مذہبی نوعیت کی ہوتی ہیں تو کبھی فلاحی اور کبھی تعلیمی نوعیت کی۔ ان ٹرسٹوں کے قیام کے مقاصد بھی ان ہی کی نوعیتوں کی مناسبت سے ہوتے ہیں اس لیے اسکولیں بھی اپنی ٹرسٹ کے مقاصد کے تحت اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔ گذشتہ دور میں اسکولوں کے قیام کا ایک ہی بنیادی مقصد ہوا کرتا تھا اور وہ یہ کہ اپنے ملک کی عوام کو اپنی اپنی مادری زبان میں عصری تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور اس کے لیے سماج کے بیدار مغز اُمرأ، رؤسااور سرمایہ دار افراد بڑی بڑی زمینیں خرید کر ایک ٹرسٹ قائم کرکے ان پر اسکولیں تعمیر کرتے۔اُن کے پیش نظر اپنی قوم و ملت کی ترقی، عروج، سربلندی و کامیابی ہوا کرتی تھی جس کی تکمیل اسکولوں کی ٹرسٹ انتہائی مخلصانہ طور پر انجام دیا کرتی تھیں۔

آج ہمارے اطراف اسکولوں کی خاصی بڑی کھیپ نظر آتی ہے۔ گلی گلی کوچہ کوچہ اسکولیں کھلی تو نظر آتی ہیں لیکن فی زمانہ ان اسکولوں کے قیام اور مقاصد ماضی سے مختلف نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ وقت میں اسکولیں جن افراد کی مرہون منت ہیں ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ماضی میں گذرے ہوئے لوگوں سے بہت جدا ہیں۔ یہ وہ افرادہیں جو ملک، قو م یا ملت کی فکر، درد، اورترقی سے کوئی غرض نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک اسکولیں دو ر جدید کا کاروبار ہیں اس لیے یہ افراد برائے نام ٹرسٹ قائم کر کے ایسی اسکولیں چلاتے ہیں جہاں سے وہ مالی منفعت حاصل کرنا اپنا مقصود بنا چکے ہیں۔

اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ آج معاشرے میں دو طرح کی اسکولیں ہیں۔ ایک وہ جو ماضی کے اخلاص کی بنیادوں پر کھڑی ہیں دوسری وہ جو ذاتی مفاد کے تحت چل رہی ہیں۔ سردست ہمیں ان اسکولوں سے کوئی سروکار نہیں جن کی جڑوں کو دولت سے آبیار کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہم صرف اردو زبان کی ان اسکولوں پر کلام کریں گے جن کو ہمارے سماج کے مخیر، مصلحین، مفکرین اور ہمدردان قوم و ملت نے تعمیر کیا تھا۔ یہ اسکولیں آج بھی اپنے مخلصین کی نیک نیتوں پرقائم ہیں۔ اسے شامئ قسمت ہی کہیے کہ گذرتے وقتوں کے ساتھ آج ان سکولوں کی ٹرسٹ بورڈ میں بھی خود غرض، مفاد پرست، خود پسند اور ملک، قوم و ملت سے بے غرض و بے پرواہ افراد شامل ہوگئے ہیں۔ یہ افراد باتیں تو قو میت کی کرتے ہیں پر ان کے کا م اس پاکیزہ جذبے سے خالی ہیں اور ان کی طبیعتوں میں مفاد پرستی، خودد پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے گذرے ہوئے مخلصین کی ان امانتوں کے ساتھ خیانتیں کر ناشروع کر دیں۔

ماہرین تعلیم سے پوشیدہ نہیں کہ اسکولیں کسی بھی زبان کو پروان چڑھانے میں کلیدی کرداراد ا کرتی ہیں۔ آج اردو اسکولوں اور ان میں اردو زبان کی حالت سے اہل زبان بخوبی واقف ہیں۔ سالہا سال سے اپنے وجود کو سنبھالے اردو اسکولوں کی بنیادیں آج ڈھیلی پڑھنے لگی ہیں اور اس کی وجہ سماج کے وہ غیر ذمہ دار، انا پرست اور قوم و ملت، زبان و ادب، تہذیب و ثقافت سے بہ بہرہ عناصر ہیں جو ان اسکولوں کی ٹرسٹ بورڈ میں اونچے اور اعلا عہدوں پر براجمان ہیں۔ ان لوگوں نے دیمک کی طرح نہ صرف ان اردو اسکولوں کو بلکہ اردو زبان کو بھی کھوکلا کر دیا ہے۔ ان ہی لوگوں کی وجہ سے اردو اسکولوں کا نظام اور تعلیمی معیار زوال پذیر ہورہاہے اور اس کا راست اثر اردو زبان پر بھی مرتب ہورہا ہے۔

آج اردو اسکولوں میں ٹرسٹیان اپنی مرضی و طبیعت کے ضوابط متعین کررہے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے ان بے اصول فیصلوں سے اردو اسکولوں پر، طلبا پر اور بالخصوص اردو زبان پر کیا منفی اثر پڑتا ہے۔ انھیں مطلب ہے تو بس اپنے انا پرست فیصلوں سے۔ اساتذہ کی تقرری پر موٹی موٹی رقمیں حاصل کرنا ان لوگوں کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔ ایسے لوگ اساتذہ کی تقرری کے وقت ان کی تدریسی و تنظیمی صلاحیتوں کی بجائے اپنے تعلقات، علاقائیت اور سفارشوں کو اہمیت دیتے نظرآتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسکولوں میں غیر معیاری و مفقود العزائم اساتذہ و صدر مدرسین چھائے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں۔ اب ظاہر ہے جب کسی اردو اسکول میں بد نظم وغیر ذمہ دار صدر مدرس ہوں اور محض تنخواہ کے لیے کام کرنے والے اساتذہ تو ایسی اردو اسکولوں کا تعلیمی معیار اعلا کیسے ہو سکتا ہے ؟ ایسے اسکولوں میں اردو زبان پروان کیسے چڑھ سکتی ہے ؟

آج ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلی اردو اسکوں کی زبوں حالی کی یہی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ اگر ہم اردو اسکولوں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، اگر ہم اردو اسکولوں کا تعلیمی معیار بلندکرنا چاہتے ہیں، اگر ہم اردو سکولوں میں بہترین نظم و نسق دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں درج ذیل نکات کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔

 اردو اسکولوں کی ٹرسٹ بورڈ میں ایسے مخیرانِ قوم کی شمولیت کو لازم کرناہوگا جو تعلیمی اصول و ضوابط اور قواعد سے واقف
ہوں نیز ان کے دل میں ملک و ملت اور قوم و ادب کے عروج و ارتقا کے منصوبے ہوں۔ جن کی نگاہیں مال و منال پر نہیں
مدرس کی قابلیت و صلاحیت پر ہوں۔

 اردو اسکولوں میں ایسے ماہر صدر مدرسین کی تقرری کو ممکن بناناہو گا جو اردو زبان و ادب سے والہانہ تعلق رکھتے ہوں۔
ان کا مقصداردو اسکولوں کی بقا اور اردوزبان کی تریج و ترقی ہو اورجن میں نظم و نسق کی اعلا درجے کی صلاحیتیں ہوں۔

 اردو اسکولوں میں اردو کے ایسے قابل اساتذہ کا انتخاب و تقرری کو ممکن بنانے کی کوشش کرنی ہوگی جن کے دلوں میں
ملک و ملت کا درد ہو، جن کے نزدیک قوم کی تعلیمی اہمیت کا احساس جاگزیں ہواور جنھیں اپنی زبان و ادب سے بے پناہ
پیار ہو۔ جو اپنی قوم کو نئے معمار دیں اور زبان و ادب کو نئی بلندیاں۔

نہیں معلوم کہ یہ ساری باتیں کب اور کیسے پوری ہوں گی؟ اور یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ باتیں پوری ہوں گی بھی کہ نہیں ؟ یہ ناامیدی نہیں بلکہ بگڑے ہوئے حالات میں تبدیلی کی دم توڑتی سانسیں ہیں۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ اگر اس نازک صورت حال میں وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اگر ہم تعمیری فکر کے ساتھ قدم اٹھائیں تو اردو اسکولوں اور اردو زبان کے حالات یقیناًبدلیں گے اور اس سلسلے میں متذکرہ نکات ہمارے لیے نسخہ کیمیا ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہم آنے والے وقتوں میں حوصلوں کی لو سے یہ امید لگا سکتے ہیں کہ دھیرے دھیرے ہی سہی اردو اسکولیں اور اردو زبان پھر سے اعتبار و وقار حاصل کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔