مولانا مطیع اللہ فلاحی!
ڈاکٹر امتیاز وحید
(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو کلکتہ یونی ورسٹی)
جامعۃالفلاح میں تعلیم اور تربیت پر جو ٹیم تعینات تھی، اس میں مولانا مطیع اللہ صاحب کی حیثیت مسلم تھی۔ ۱۹۸۶ میں فلاح میں داخلے کے ساتھ ہی ہم ان کی باغ و بہار شخصیت سے واقف ہوگئے تھے۔ یہ واقفیت قربت اور پھرحد درجہ احترام اور استادی و شاگردی کے اٹوٹ رشتے میں بندھتی چلی گئی۔ مولانا کی شخصیت کا خمیر فلاح کی مٹی سے ا ٹھا تھا۔ یہیں سے تعلیم و تربیت پائی تھی، یہیں مدرسی کی اور پھر یہیں کے ہورہے، ایسے کہ اب یہیں کی خاک میں سورہے ہیں۔
مولانا مطیع اللہ صاحب فلاح کے اوّلین فارغین میں سے تھے۔ ۱۹۶۴ میں فلاح میں عربی کے چار درجات جب شروع ہوئے تو ان کا داخلہ عربی دوم میں ہوا۔ عربی اوّل وہ جامعۃ الرشاد سے مکمل کرکے آئے تھے۔ مرحوم عربی دوم میں مولانا محمد عمران فلاحی صاحب کے ہم جماعت تھے۔ انھوں نے ایک ساتھ فضیلت کی اور فلاح میں تدریسی خدمات پر مامور ہوگئے۔ فلاح سے فراغت اور ایک سال کی تدریسی خدمات کے بعد مولانا مطیع اللہ صاحب اعلا تعلیم کے لیے جامعہ مدینہ منورہ چلے ہوگئے، جہاں سے انھوں نے کلیتہ الدعوہ میں بی اے کی ڈگری لی اور مزید دوسال مدینے میں گائڈ کی حیثیت سے کام کیا۔ اس طرح چھ سال بعد وہ مبعوث ہوکر پھر فلاح واپس آئے اور درس و تدریس میں جٹ گئے۔ تدریسی خدمات کے ساتھ انھیں نگرانِ اعلاکے منصب پر بھی کام کرنے کا موقع ملا اور وہاں بھی مرحوم نے قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔
فلاح میں نگرانی ایک حساس شعبہ ہے، جس میں کوئی اپنی مثالی کارکردگی کا دعوا نہیں کرسکتا اور یہ اس دور کی بات ہے جب فلاح درودیوار اور چہاردیواری سے بے نیاز محض ایک روایتی نوعیت کا مدرسہ ہوا کرتا تھا۔ ایسے میں نظم و ضبط کو یقینی بنانا یقینا دشوار مرحلہ تھا۔ لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت طلبا میں نظم و ضبط کی حرمت باقی تھی اور ہم اس احساس سے بے نیاز تھے کہ ہمیں نظم و ضبط کا پابند رکھنے کے لیے چہار دیواری بھی کوئی ناگزیر چیزہے۔ فلاح میں آج کی نسلِ نو کے پاس جبکہ ایک غنیمت فصیل نما دیواریں ہیں اور فلاح بیرونی حشو و زائد سے کسی قدر محفوظ ہے، تو ایسے میں انھیں اپنی داخلی ضابطہ داری کو ہمارے زمانے کے نظم و ضبط کے مدِّ مقابل رکھ کر دیکھنا چاہئے۔ سب کچھ آئینہ ہوجائے گا اور پھرانھیں ہمارے مولانا مطیع اللہ صاحب جیسے استاد کے نظامِ نگرانی کی قدروقیمت کا درست اندازہ ہوگا۔ نگرانی کے سیاق میں مرحوم کی مثالیت کا ایک توانا پہلو خود ان کا وسائل سے تہی دامن عہد ہے، جس میں مرحوم اپنی ذمے داریوں سے بخوبی گزرے اور دامن بچالے گئے۔
فلاح میں مولانامرحوم کی حصولیابیاں قابل قدر ہیں۔ مولانا عبدالحسیب اصلاحی صاحب کے دورِ صدارت میں مرحوم فلاح میں نائب صدر کے عہدے پر فائزرہے۔ مولانا رحمت اللہ الاثری صاحب کی صدارت اور مولانا عنایت اللہ سبحانی صاحب کی صدارت کے ابتدائی دور میں انھیں ناظمِ امتحان کی ذمے داری تفویض کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں جامعۃ الفلاح میں بسوں کے نظم و انصرام میں مولانا کا سرگرم تعاون حاصل رہا۔ فلاح کے بچوں کے لیے مٹی تیل اور شکر کے کوٹے کے حصول میں مرحوم نے کلیدی کردارادا کیا۔ فلاح کی مرکزی لائبریری میں بہت سی نایاب کتابیں تحفتاً فراہم کرائیں اور وہ سب کچھ کیا جس کی توقع کسی ادارے کے ایک کمیٹڈ سپوت سے کی جاسکتی ہے۔ مادرِ علمی کے وقار اور اس کی ترقی کے تناظر میں غالباًمرحوم کو اپنے استادانہ رول سے زیادہ ایک لائق فرزندکے فرائض یاد تھے، جس کی ادائیگی میں وہ ہمیشہ فائزالمرام رہے۔
مولانا مطیع اللہ صاحب کا خاندان ضلع سدھارتھ نگر کے’ پیڑی بزرگ‘ اور’سلون جوت‘ گائوں تحصیل اِٹوا میں دو جگہوں پر آباد تھا، جہاں ان کی زمین داری تھی۔ مولانا سلون جوت میں پیدا ہوئے اور وہیں ابتدائی تعلیم و تربیت بھی پائی۔ مولانا کے والد ماجد جناب قدرت اللہ صاحب رکن جماعت تھے اور پرائمری کے استاد تھے۔ دوبھائی اور ایک بہن میں مولانا سب سے چھوٹے تھے۔
فلاح مرحوم کی زندگی کا عنوان تھا، جو جلی حروف میں ان کی ترجیحات سے عبارت تھا۔ وہ اس ادارے سے سائے کی طرح چمٹے رہے اور فلاح ان کا سائبان بنا رہا۔ اپنی تعلیم کی طرح انھوں نے اپنے تمام بچوں کو فلاح سے تعلیم دلوائی اور بلریاگنج ہی میں مقیم ہوگئے۔ معاشی تنومندی کے لیے اوّلاً بلریاگنج کی مارکیٹ میں سلائی مشین کی ایجنسی لی جو رفتہ رفتہ کتابوں کی دکان میں منتقل ہوگئی۔ تمام بچوں کی شادی وہیں کی۔ ریٹارمنٹ کے بعدمولانا مرحوم کے والد صاحب بھی یہیں آگئے تھے۔ بہن بھی آگئی تھیں۔ اب یہ سبھی مولانا کی طرح یہیں مدفون ہیں۔
مولانا مرحوم مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے۔ مولانا محمد عمران فلاحی صاحب نے مرحوم کے اس پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ’ انکار‘کوان کے مزاج سے بیر تھا۔ کسی کام کے لیے بھی ان سے کہا جائے وہ ہرآن تیار پائے جاتے تھے۔ کوئی اسٹیج ہو، کوئی جگہ ہو، کوئی موسم اور وقت ہو، آپ ان سے کسی موضوع پر تقریر کی فرمائش کریں وہ بلاتکلف بغیر کسی تیاری کے محض اپنے اعتماد اور حافظے کے سہارے تقریر کرگزریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے فلاح کی مسجد میں جمعہ کو بارہا انھیں کسی تامل کے بغیر تقریر کرتے ہوئے پایا۔ اس طرح مرحوم آڑے وقت کے ساتھی اور رفیق تھے۔ اس کی اہمیت وہی لوگ بخوبی سمجھ پائیں گے، جو نظم و انصرام میں قحط الرجال کے مارے ہوتے ہیں۔ مولانا اپنی اسی خوبی کی بنا پر ہمیشہ بیش قیمتی خیال کیے جاتے تھے۔
مرحوم مولانا مطیع اللہ صاحب وضع قطع میں ایک روایتی مولوی کی شان سے متصف تھے۔ چوڑی مہری والا پائجامہ، قمیص اور سر پر کشتی نما ٹوپی، ان کی کل کائنات تھی۔ سادگی اور دردمندی مرحوم کی سیرت کی دو نمایاں خوبیاں تھیں کہ جن سے تحریک پاکر عام طلبا ان سے بے خوف کھل مل جایاکرتے تھے۔ عام اور ہائو بھائو سے یکسر بے نیاز ان کی ذات عام طلبا کے لیے سبیل کا درجہ رکھتی تھی۔
مولانا ایک ظریف الطبع انسان تھے۔ مرحوم سے ملاقات کی چند ہی ساعتوں میں آپ بخوبی جان لیتے کہ وہ طبعاً حیوانِ ظریف ہیں۔ طالب علمی کے دور میں ان کی طبیعت کا رنگ تو یقینا اورگہرا رہا ہوگا البتہ ہم نے مولاناکو ہمیشہ ہشاش و بشاش، ہنستے مسکراتے ہی دیکھا بلکہ چلتے پھرتے اشعار موزوں کرتے بھی پایا ہے۔ طبیعت کی موزونیت انھیں تُک بندی پر بھی اکساتی تھی۔ کسی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’میں ہوں ندیم‘، مولانا کا جواب آیا ’تو پھر کیوں نہ ہیں آپ عدیم؟‘ہمارے ہم سبق سمیع اللہ فلاحی(کوہنڈہ)نے مولانا سے اعظم گڈھ جانے کے لیے چھٹی کی استدعا کی، مرحوم نے معلوم کیا کہ کیا بات ہے؟سمیع اللہ نے کہا کہ’ ’آنکھ دکھانا ہے‘‘، مولانا نے جھٹ فرمایا’’کسی کو آنکھ دکھانا بالکل غلط بات ہے!‘‘۔
مولانا کا تدریسی طریقہ بڑا نرالا تھا۔ طربیہ اندازِ تدریس میں وہ پوری جماعت کو باندھے رکھتے تھے۔ یاد پڑتا ہے کہ عبارت کے معنوی دروبست کو کھنگھالنے اور اس کے نحوی اور صرفی تعین قدر کے پھیرے میں ہماری جماعت نے سال بھر مشکوٰۃ کے محض چار صفحات ہی پلٹے، مولانا کو ایسے الجھائے رکھا کہ پانچویں صفحے کی نوبت نہیں آنے دی۔ لیکن مولانا بھی پختہ کار اللہ والے انسان تھے، امتحان میں سوالات پورے نصاب سے پوچھے گئے تھے۔ مولانا کے نہجِ تدریس سے کسی کو عدمِ اتفاق تو ہوسکتا ہے تاہم وہ محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مولانا نے غالباً زندگی کی ناہمواریوں کاسامنا اس قدرقریب سے کیا تھا کہ وہ خود طرب و نشاط کی سرحد کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ انھیں عربی بول چال کی زبان سے اچھی واقفیت تھی۔ موڈ میں ہوں تو مرحوم فراٹے دار عربی میں بھی بولتے چلے جاتے تھے۔ ظرافت یہاں بھی ان کے نطق سے چمٹی رہتی تھی۔
درس و تدریس سے وابستگی کے معاً بعد مولانا مرحوم بلریا گنج میں کرایے کے مکان میں رہنے لگے تھے۔ قناعت اور اپنے فرض سے ایماندارانہ وابستگی نے مدارس سے وابستہ دیگر پاک نفوس کی طرح ان کی داخلی اور روحانی قوت کواتنا بلند کردیا تھا کہ مبلغ ۸۰؍ روپے کی ماہانہ تنخواہ میں کرایے کے پندرہ روپے منہا کرنے کے بعد بھی وہ بخوشی گزارہ کر لیاکرتے تھے۔ مدینہ سے مبعوث ہونے کے بعد البتہ راحت ملی، تو پھر فلاح سے متصل نو آباد فلاحی کالونی میں زمین لے کر اپنا گھر بنایا۔
مدینے سے مبعوثیت کی مدت جب ختم ہوگئی تو غالباًاپنی عام مقبولیت کے سبب مولانا فلاح کے نئے payrollپردفتر نظامت سے متعلق ’شعبۂ رابطہ عامہ‘ میں منتقل کردیے گئے تھے۔ تاحیات درس و تدریس سے وابستہ فلاح کے ایک سچے خادم کے لیے یہ بہرحال کوئی خوشگوار تجربہ نہیں تھا۔ لیکن فلاح سے نصف صدی کی وابستگی نے تنخواہ اور منصب میں اس فروتنی کو بھی قبول کرلیا اور وہ خدمت پر مامور کردیے گیے، تاہم خدمت کا یہ عرصہ دیر پا نہ رہا اوروہ دو سال بعد ہی وہاں سے بھی سبکدوش کردیے گئے۔ مولانا مرحوم ان پاک طینت نفوس میں سے تھے جنھیں ہرحال میں راضی بہ رضا دیکھا گیا۔ مولانا نے پوری زندگی فلاح کی نذر کردی اورکبھی اپنا دل میلا نہ کیا بلکہ آزمائش کی مشکل ترین ساعت میں بھی وہ فلاح کی پالیسی کے ساتھ کھڑے فلاح کا گن گان کرتے رہے۔
مولانا کی ذات دراصل ایک داعی کی ذات تھی۔ فلاح سے چھوٹے تو وہ جماعت اسلامی کے ناظم علاقہ کی حیثیت سے ایک نئے کردار میں، اپنے دعوتی فریضے کی ادائیگی میں منہمک ہوگئے تھے اور اسی حیثیت میں مورخہ ۳۰؍اپریل ۲۰۱۸کو اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ مرحوم کی زندہ خوبیوں کا اعتراف فلاح سے وابستہ سبھی افراد کو ہے۔ زندگی کی تلخیوں کو ہنس کرگوارا کرنے کا ہنر تو ہم نے انہی سے سیکھا ہے۔ ایسے میں مرحوم کے شاگرد اپنی جملہ کامرانیوں کا سہرا اپنے اساتذہ کے سر باندھتے ہیں توبھلا اس میں شک کی کیا گنجائش ہے۔ مولانا مرحوم اپنی ہر ادا میں فلاح کے سچے عاشق نکلے اس طرح کہ بقول غالبؔ ؎
فارغ مجھے نہ جان، کہ مانندِ صبحِ مہر
ہے داغِ عشق، زینتِ زیبِ کفن ہنوز
تبصرے بند ہیں۔