ایک اور سابق جج کے انصاف پر کلنک

حفیظ نعمانی

یہ بات ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ سی می سے وابستہ جوان خطرناک نہیں بے وقوف ہیں اور سی می کے جتنے نوجوانوں نے ان برسوں میں جیسی جیسی تکلیفیں اٹھائیں یا جن کو پولیس نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں سزائے موت دی وہ سب گناہگار نہیں ، بے وقوف، کم عقل اور جذباتی تھے۔ بھوپال ہائی سیکورٹی جیل کو توڑکر فرار ہونے اور فرار ہونے سے پہلے جیل کے ایک محافظ کو موت کی نیند سلانے کے ملزم جن آٹھ نوجوانوں کو مدھیہ پردیش پولیس نے انکائونٹر کے نام پر قتل کیا تھا ان کے متعلق ایک رُکنی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ سامنے ہے۔

مدھیہ پردیش کی بھگوا حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کے سپرد تحقیقات کا کام کیا تھا سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں پہلے آنکھ بند کرکے کہہ دیا جاتا تھا کہ جھوٹ ان کے قلم سے نکل ہی نہیں سکتا لیکن یہ بات پرانی ہوگئی دو مہینے پہلے چار سینئر اور نیک نام ججوں نے باہر آکر پریس کانفرنس کرکے قوم کو آگاہ کردیا کہ جمہوریت خطرہ میں ہے۔ اور سپریم کورٹ کے اندر سب ٹھیک نہیں ہے ان کا اشارہ صاف صاف چیف جسٹس کی طرف تھا۔

سپریم کورٹ میں جج امریکہ یا برطانیہ سے نہیں آتے اسی ہندوستان کے اسی سماج سے آتے ہیں جو صرف ایک فلم پر پابندی لگانے کیلئے ہر شہر کی زندگی جام کردیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ سب سے بڑی عدالت جنتا ہے اور جنتا ہمارے ساتھ ہے۔ اس سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج جس کے آمدنی کے ذرائع میں پینشن کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا وہ اگر منھ مانگی فیس کے بدلے ایسی رپورٹ دے دے جس میں حکومت بے قصور، پولیس فرض شناس اور ملزم پوری طرح خطاکار ہوں تو تعجب کی کون سی بات ہے؟ سپریم کورٹ میں جو جج بنائے جاتے ہیں وہ برسوں وکیل کی حیثیت سے ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم ٹھہراتے ہوئے یا عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر گناہگار کو باعزت بری اور بے قصور کو عمرقید دینے والے ہیں ان کیلئے پرانی پریکٹس کو دہرانا کیا مشکل ہے؟

ریٹائرڈ جج پانڈے جیل میں نہیں رہے اور جو جیل میں نہیں رہتا وہ جان ہی نہیں سکتا کہ جیل میں بند حوالاتیوں کا کسی سپاہی کو قتل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اور جو جاہل یہ کہے کہ جیل کو توڑکر آٹھ ملزم دیوار پھاندکر فرار ہوگئے وہ افسر یا جج نہیں اُلّو کا پٹھا ہے۔ ہم نے ہائی سیکورٹی والی جیل نہیں دیکھی اور جس جیل میں ہم 9  مہینے رہے اسے مس مایاوتی نے اپنے اقتدار کے زمانے میں توڑکر میدان بنا دیا لیکن اُترپردیش میں اسی نقشے کی ابھی بہت جیلیں باقی ہوں گی ان کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی عدالت اجازت دے تو سابق جج پانڈے کو لے کر اس جیل کے اندر اُن آٹھ آدمیوں کو لایا جائے جو اُن لڑکوں کے قد و قامت کے تھے اور ان سے کہا جائے کہ وہ جیل کی دونوں دیواریں پھاندکر بھاگ کر دکھادیں ؟ رات میں ان کو سب سے پہلے بیرک کا وہ دروازہ جو لوہے کے راڈوں سے بنا ہے وہ توڑنا پڑے گا۔ اور جب وہ توڑ رہے ہوں گے تو بیرک کے اندر سو کے قریب ہر قسم کا جرم کئے ہوئے بندی ناممکن ہے کہ نہ جاگیں اور جب جاگ جائیں گے اور دیکھیں گے کہ آٹھ مسلمان دروازہ توڑ رہے ہیں تو کیا وہ چوڑی پہنے بیٹھے رہیں گے؟ جبکہ ان میں ایک بہت اونچی آواز والا وہ بھی ہوگا جس کی رپورٹ کی آواز سب سے پہلے سرکل میں بیٹھے محافظوں کے کانوں میں جائے گی اور دوسری بیرکوں کے محافظوں کے کان میں بھی مشکل سے پانچ منٹ لگیں گے کہ خطرہ کا الارم بھی بج اٹھا ہوگا اور درجنوں سنگینیں اس بیرک میں آچکی ہوں گی۔

اگر کوئی بیرک سے نکل کر بھاگ بھی جائے تو ایک کے بعد دوسری دیوار پر بوڑھے جسٹس پانڈے اپنے جوان بیٹوں کو بغیر کسی سیڑھی یا سہارے کے چڑھاکر اور دوسری طرف کداکر دکھادیں ؟ بات صرف اتنی ہے کہ پولیس نے جتنے مسلمانوں کو سی می کے لشکر کے نام پر گرفتار کیا ہے وہ صرف زبان اور قلم سے جہاد کرتے تھے۔ اس کی ابتدا یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے یہ چاہا تھا کہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کو دین کے کام میں لگایا جائے۔ ان کی جب تربیت کی گئی تو کہیں ایک آنچ زیادہ ہوگئی انہوں نے مولانا مودودی کی کتابیں پڑھ کر یہ چاہا کہ ایک ہفتہ میں اپنے تمام ساتھیوں کو مولانا مودودی بنا دیں۔ اور وہ مصلح کے بجائے مجاہد بننے لگے یعنی اگر ان کے کلاس میں دوسرے مسلمان لڑکے نماز کے لئے نہیں اٹھے تو بجائے محبت سے سمجھاکر ساتھ لے جانے کے ان کو دنیا میں ہی جہنم کے سپرد کرنے لگے۔ ان کی شکایتیں آنا شروع ہوئیں تو جب انہیں سمجھایا گیا کہ نرمی سے اور پیار سے کام لو تو وہ اپنے بڑوں کو بتانے لگے کہ جب ایک دن کا روزہ بغیر کسی عذر کے چھوڑے تو اس نے کیا گنوایا اور ایک وقت کی نماز نہیں پڑھی تو کتنا بڑا گناہ کیا تو جماعت کو بھاری پڑگئے اور جماعت نے کمرہ ان کو دیا تھا وہ خالی کرایا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا کام الگ کرلیں۔

یہ نوجوان الگ ہوکر بے مہار ہوگئے اور نہ جانے کیا کیا لکھتے اور چھپواکر بانٹتے رہے؟ اسی میں ایک پوسٹر چھاپا جو پورے بڑے سائز کا تھا جس پر لکھا تھا کہ- الٰہی بھیج دے محمود کوئی اور درمیان میں بابری مسجد کا فوٹو تھا۔ یہ پوسٹر اُردو ہندی اور انگریزی میں چھاپ کر جگہ جگہ چپکا دیا۔ بس یہ ہے ان کا وہ گناہ جس کی پاداش میں سیکڑوں گھر کے چراغ گل ہوگئے۔ جو تعلیم یافتہ اتنے بے وقوف ہوں کہ اس ہندوستان میں محمود غزنوی کو بلا رہے ہوں جہاں اس سے بڑی گالی ہندوئوں کے لئے دوسری نہیں ہے۔ ورنہ انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کا یہ ردّعمل ہوتا۔ سی می کے اکثر لڑکے باعزت بری ہوچکے تھے ان کے بارے میں بھی اندازہ تھا کہ دو چار مہینے میں یہ بھی باعزت بری ہوجائیں گے اور وزیراعلیٰ چوہان یہ برداشت نہ کرسکا کہ سی می کا ہر آدمی باعزت بری ہوجائے اس لئے اس نے یہ سازش کی ان کو باہر نکالا کپڑے بدلوائے اور بھگا دیا۔ پولیس کا یہ کہنا کہ انہوں نے فائرنگ کی تو یہ پولیس کا رٹاہوا جملہ ہے کسی کو مارنے کے بعد اس کے ہاتھ میں ہتھیار پکڑا دینا کیا مشکل ہے۔ یہ صرف قتل ہے اور قاتل وزیراعلیٰ ہے جو آر ایس ایس کا پروردہ ہے اسے ان کی باعزت رہائی برداشت نہیں تھی اس لئے اس نے وہ کیا جس سے وہ مودی سے انعام لے سکے۔ جسٹس پانڈے نے اپنی رپورٹ میں جو کہا ہے اس میں کوئی دم نہیں ہے اگر سپریم کورٹ تک بات گئی تو کوئی چھوٹا وکیل بھی اسے پیسوں کے بل پر لکھوائی گئی رپورٹ تسلیم کرلے گا۔ اب لڑکے تو واپس نہیں آسکتے لیکن اتنا تو ہوسکتا ہے کہ 50-50  لاکھ معاوضہ ان کے وارثوں کو دلا دیا جائے جن کے گھر میں ہر طرف اندھیرا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔