مہرالنسا پرویز کو ڈاکٹر راہی معصوم رضا ساہتیہ سمان

ڈاکٹر ہارون رشید

        لکھنؤ۔ یکم ستمبر۔ ڈاکٹر راہی معصوم رضا اکیڈمی کے زیر اہتمام مقامی جے شنکر پرساد ہال میں ’’ڈاکٹر راہی معصوم رضا ساہتیہ سمان ‘‘تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت اکیڈمی کی سرپرست اور جنوادی لیکھک سنگھ اتر پردیش کی صدر ڈاکٹر نمتا سنگھ نے کی جب کہ نظامت کے فرائض پرگیا پانڈے نے انجام دئیے۔ شنے نقوی اور محترمہ الکا نے ڈاکٹر راہی معصوم رضا کی غزلوں سے تقریب کا شاندار آغاز کیا۔ افتتاحی خطبہ دیتے ہویئے اکیڈمی کے جنرل سکریٹری رام کشور نے اکیڈمی کی ترقیاتی رپورٹ پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر راہی معصوم رضا کے ۸۹ ویں یوم پیدائش کے موقع پر ہم اس اعزازی تقریب کا انعقاد کر کے خود کو لائق افتخار محسوس کر رہے ہیں انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر راہی معصوم رضا ہر طرح کے تعصب سے پاک انسانی قدروں کی  عزت کرنے والے قلم کار تھے انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے جو پیغام سماج کو دیا ہے وہ قابل تقلید ہے۔ آج امشترکہ تہذیب کی حفاظت کرنے اور عدم مساوات جیسے مسائل سے لڑنے کے لئے راہی اور ان کاتخلیق کردہ ادب ایک رہنما کا رول ادا کرسکتا ہے۔ انھوں نے کہاکہ ڈاکٹر راہی معصوم رضا کے افکار اور اصولوں سے خود کو جوڑنے، ان کے جلائے چراغ تمنا کو روشن رکھنے، بد عنو انیوں سے لڑنے فرقہ وارانہ سیاست سے جوجھنے اور اور اس کو ٹکر دینے کے لئےڈاکٹر راہی معصوم رضا اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ رام کشور نے کہا کہ ڈاکٹر راہی معصوم رضا کو یا د کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا  بتایا کہ آج اکیڈمی پدم شری مہرالنسا کو ڈاکٹر راہی معصوم رضا ساہتیہ سمان سے نواز کر خود کو لائق افتخار محسوس کر رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی اکیڈمی ڈاکٹر نمتا سنگھ، قاضی عبدالستار، شیکھر جوشی، عبدل بسم اللہ، ناصرہ شرما، اسد زیدی، جیسے قلم کاروں کو ساہتیہ سمان سے نواز چکی ہےاور آج اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے مہرالنسا پرویز کو” ڈاکٹر راہی معصوم رضا ساہتیہ سمان ‘‘دے کراکیڈمی خود کو قابل افتخار تصور کرتی ہے۔

ترقی پسند مصنفین کی اوشا رائے نےمہمان اعزازی مہرا لنسا کا تعارفی خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پدم شری مہرالنسا کی پہلی کہانی ہندی میگزین ’’دھرم یگ‘‘ میں شایع ہوئی۔ آدم اور حوا، سونے کا بستر، اجودھیا سے واپسی لال گلاب وغیرہ ان کے اہم کہانیوں کے مجموعے  ہیں۔ ان کی بعض کہانیوں پر ٹی وی سیریل بھی بنے ہیں اس کے علاوہ خود انھوں نے بھی اپنی کہانی پر ٰیک سیریل بنایا اور اسے خود ڈائرکٹ بھی کیا۔ انھوں نے  کہا کہ ایک طرف مہرالنسا ایک حساس قلم کار ہیں تو دوسری طرف وہ ایک سماجی خدمت گار بھی ہیں انھوں نے خاص طور سے آدی واسی زندگی کاگہرا مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے جیل میں رہ رہی خواتین سے ملاقات کر ان کے مسائل کو سمجھنے کی بھی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ مہرالنسا ہ  ہندی میگزین ’’سمر لوک‘ کی ایڈیٹر بھی ہیں۔ نیز کئی سرکاری اور غیر سرکاری انعامات و اعزازات سے انھیں نوازا جا چکا ہے۔ ہندی کے جواں سال ناقد نریندر رنجن سنگھ نے مہرالنساکی کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ مہرالنساپرویزکی کہانیوں کا مرکزی موضوع عورت ہے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں سماج کے دبے کچلے طبقے کی عورت کو خاص طور سے اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی کہانیوں میں عورت ہی ہیرو ہے جوسماج کے ہر اس بندھن کو توڑ نے کے لئے جدو جہدکرتی ہے جو مذہب علاقہ یاسماج کے دوسرے منفی ریتی رواجوں کے ذریعے تشکیل پاتے ہیں انھوں نے مہرالنسا کے فن کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ مہرالنسا کی زبان صاف شستہ اور شگفتہ ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ سماج میں صرف عورت ہی مرد کی محتاج نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ مرد کو ہر قدم پر عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہیں ماں کے روپ میں۔ کہیں بیٹی کے روپ میں، کہیں بیوی کے روپ میں۔ اس طرح سے انھوں نے اپنی کہانیوں میں عورت کو ایک  طاقت ور کردار کے روپ میں پیش کیا ہے۔ حالانکہ نریندد رنجنب سنگھ کی بعض باتوں اور خیالات سے ہال میں موجود خاتون قلمکار دیپک شرما نے سخت احتجاج کرتےہوئے کہا کہ میں آپ کے اخذ کردہ نتائج سے حیران ہوں کہ آپ نے کہانیوں کو کس رخ سے دیکھا ہے۔ دیپک شرما نے کہا کہ مہرالنسا کی کہانیوں میں عورت کےجسمانی پہلو پر زور دینا ان کے فن کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے۔ جس ماحول اور جس سماج  کی وہ پروردہ ہیں اس پس منظر کو سمجھے بغیر مہرالنسا کے فن کو سمجھنااور اس کے ساتھ انصاف کر پانامشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ بہار سے تشریف لائے پروفیسر لکشمن سہائے نے اپنے طویل مقالے کو مختصر کرتے ہوئے کہا کہ مہرالنسا نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں عورت پر ہوئے ظلموں اور نا انـصافیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ ان کی کہانیوں کی عورت اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنا جانتی ہے اور سماج میں مرد کی حاکمیت اور عورت کی مظلومیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ لکشمن سہائے نے بھی اعادہ کیا کہ مہرالنسا کی حالات زندگی اور ان کے عہد کا مطالعہ کئے بغیر ان کے فن کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ مہرا النسا نے ہندی میں ہی لکھنا شروع کیا اور آج بھی وہ ہندی ہی میں لکھ رہی ہیں۔ وہ صرف اور صرف  ہندی کی قلم کارہیں۔

اس موقع پر مہمان اعزازی پدم شری مہرالنسا نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یوں تو بہت سے ایوارڈ اور اعزازات ملے لیکن آج جس بڑے فنکار کے دربار میں مجھے اعزاز دیا گیا  ہے وہ میرے لئے بہت بڑا انعام ہے۔ یہ انعام و اعزاز اس لئے بھی اوربڑاہو جاتا ہے ک ہ یہ ایوارڈ مجھے لکھنؤ میں دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لفظ کی مثال عطر کی بوند کی طرح ہے۔ جس طرح سے ایک اچھے عطر کا ایک قطرہ اگر آپ اپنے لباس پر لگا لیں تو دھوتے دھوتے آپ تھک جائیں گے لیکن اس عطر کے قطرے کی مہک نہیں جائے گی۔ ٹھیک ایسے ہی ایک لفط کی اہمیت بھی ہے، ایک فنکار جب ایک لفظ لکھتا ہے تو اہ لفظ اپنی معنویت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محوظ کر لیتا ہے۔ جب بھی اسے پڑھا جائے گا وہ اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ آپ پر روشن ہو جائے گا۔ جس طرح سے سمندر میں موتی ہزاروں سال سے موجود ہیں لیکن جب انھیں باہر نکالا جاتا ہے ہےتو اسکی قیمت موجودہ بازار بھاؤ ہی سے آنکی جاتی ہے۔ ایسےت ہی لفظوں کا حال ہے۔ وہ کبھی پرانے نہیں ہوتے کبھی اپنی معنویت نہیں کھوتے۔ مہرالنسا نے یہ بھی کہا کہ ایک فنکار اپنا ماضی کبھی نہیں بھولتا۔ جو کچھ اس پر گذرتا ہے وہ اسے ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور اپنے فن میں اس کو پوری تخیلقیت کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لڑکیوں کو پرایا پن بچپن سے  ملتا ہے۔ یہ پرایا پن گھر سے ہی ملنا شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کنیا دان کیوں کرتے ہیں۔ کیا لڑکی کوئی’’ چیز‘‘ہے جسے دان کر دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ لکھتے رہئے  خوب لکھئے اچھا لکھئے۔

پروگرام کی صدارت کر رہی ڈاکٹر نمتا سنگھ نے کہا کہ مہرالنسا کا اعزاز دراصل اکیڈمی کا اعزاز ہے۔ بڑا فنکار وہ ہے جو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی بات پوری قوت اور شدت سے پیش کرتا ہے۔ اور اس کی کہانیاں ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج بھی سب سے زیادہ پڑھے جانے والے قلمکار پریم چند ہیں۔ ڈاکٹر راہی پر جو کام ہو رہا ہے وہ قابل قدر ہے۔ آدھا گاؤں ان کا زندہ جاوید ناول ہے۔ مہرالنسا بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ ک ے اپنی بات پوری قوت اور حوصلہ سے رکھتی ہیں ان کی کہانیاں جو میں نے بہت پڑبھی تھیں، وہ آج بھی میرے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں۔ ان کی کہانیوں میں عورت کی ج ودجہد ملتی ہے۔ آخر میں اظہات تشکر کرتے ہوئے وندنا مشرا نے کہا  کہ میں نے مہرالنسا کو بہت پہلے پڑھنا شروع کیا تھا اور جب اس پروگرام کے لئے لوگوں کو فون کیا تو زیادہ تر لوگوں نے یہی کہا کہ ارے میں نے ان کو پڑھا ہے میں ضرور ہم ضرور آئیں گے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہال پورا بھرا ہے اور آپ  کے بیٹھنے کی جگہ کم پڑ گئی ہے یہ مہرالنسا  پرویزکے تئیں آپ کی محبت ہے۔ انھوں نے دیپک شرما کے درمیان میں ہی اعتراض کرنے کی تعریف کرتے ہئے کہا کہ جب دیپک شرما نے اختلاف کیا تو مجھے لگا کہ مہرالنسا کی کہانی کا کوئی کرادر اچانک صفحہ قرطاس سےباہر آ گیا ہے۔ انھوں نے  کہا کہ مہرالنسا جس پائے کی  فکشن نگار ہیں اس طرح سے ان کے فن کی قدروقیمت کا تعین ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ ضروری ہے کہ ان کے فن کا تفصیلی احاطہ اور محاکمہ کیا جائے۔

اس موقع پر پروفیسر روپ ریکھا ورما، پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر رمیش دیکشت، وقار رضوی، ڈاکٹربھگی رتھ سنگھ، نہال چودھری، محمد وصی صدیقی، امیتا دوبے، ڈاکٹر معراج ساحل، آفتاب اثر ٹانڈوی، مصباح الحق قریشی، محمد خالد، سشیل سیتا پوری، کے علاوہ ترقی پسند مصنفین، جن وادی لیکھک سنگھ، اپٹا اور دیگر اہم تنظیموں کے نمائندے موجود تھے۔

تبصرے بند ہیں۔