اردو افسانے پر ترکی کے اثرات

 (یلدرم کے افسانوں کے حوالے سے)

شہناز رحمن 

          اردو میں مختصر افسانہ کی ابتدا مغرب سے ہوئی لیکن اس صنف نے مختلف ملکوں کے افسانوی روایت کے اثرات قبول کیے جس میں روسی، فرانسیسی، ترکی اور امریکی ادب کے اثرات نما یاں طور پر موجود ہیں۔ اردو کے افسانہ نگاروں میں کئی ایک نے چیخوف، موپاساں، ورجینا وُولف وغیرہ کا اثر قبول کیا اور ان کی تحریروں سے استفادہ کیا۔ اس طرح مختلف زبانوں کے ادب کے مطالعے سے افسانہ کی صنف میں وسعت اور ہمہ گیری پیدا ہوئی اورموضوعات کو برتنے کا سلیقہ پختہ ہوتا گیا۔ سجاد حیدر یلدرم اردو کے ایک ایسے نامور ادیب ہیں جنھوں نے انگریزی، فارسی اور ترکی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کیا اور ان کی تحریروں کے ترجمے کیے۔ لیکن ان سب میں ترکی زبان سے انہیں بے انتہا لگاؤ تھااسی لیے انھوں نے ترکی زبان میں مہارت حاصل کی اور ناولوں کے ترجمے کیے جو’’زہرا‘‘ ثالث بالخیر ‘‘ اور’’ مطلوب حسینان ‘‘کے ناموں سے شائع بھی ہوئے۔ سجاد حیدریلدرم نہ صرف ترکی زبان وادب سے متاثر تھے بلکہ وہاں کے تہذیب وتمدن کے بھی شیدائی تھے۔ اس ضمن میں شمیم حنفی لکھتے ہیں۔

’’یلدرم کے لیے ترکی ایک نئی تہذیبی روح سے شناسائی کا وسیلہ یوں بنا کہ اس کی فصیلوں میں اسلامی تہذیب کے عناصر محفوظ بھی تھے اور ان کا ایک دروازہ مغرب کی طرف بھی کھلتا تھا۔ یہ بات بھی قطعی طور پر قابل غور ہے کہ اس روح کا عرفان عام کرنے کے لیے یلدرم نے ترکی ادب کے ترجموں کا سہارا لیا۔ کسی تہذیب کی ماہیت اور اس کی اندرونی ترکیب کا رمز جس طور پر اس کے فنون میں ظہور پاتا ہے وہ تاریخ کے مقابلے میں وسیع المعنی ہے۔ ۔ ۔ چنانچہ یلدرم کے لیے ترکوں کی موانست بیک وقت اپنے سماجی اور ذاتی شعور، اپنی مادی اور روحانی اقدار، اپنی اجتماعیت اور انفرادیت دونوں کی پرداخت کا نتیجہ تھی، یہ سفر ایک ساتھ اپنی تلاش و اظہار کا سفر تھا۔ ‘‘1؎

          ’’ثالث بالخیر ‘‘کے دیباچہ میں خود سجاد حیدریلدرم رقم طرازہیں کہ :۔

          ’’میری تمنا تھی کہ کسی طرح ترکوں کے قصے ترجمہ ہوں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ناولوں کے لٹریچر میں ایک نئے قسم کا اضافہ ہوگا بلکہ ترکوں کی زندگی کا اصل نقشہ بھی ہمیں نظر آئے گا۔ ترکوں کی سو شل زندگی کی تصویر کی میں اردو میں اس لیے ضرورت سمجھتا تھا کہ ہماری سو سائٹی اور طرز معاشرت میں جو انقلاب پیش آرہا ہے وہ انھیں بھی پیش آچکا تھا۔ ‘‘2؎

          سجاد حیدر یلدرم کی تحریروں میں روشن خیالی، عورتوں کی آزادی کے لیے صدائے احتجاج، نواجوانوں کی جنسی آزادی اور آزادی رائے کی جد وجہد وغیرہ نوجوان ترکوں کی تحریک (young turkish party )سے اثراندازی کا ہی نتیجہ تھی جو فرسودہ تصورات سے آزاد ہو کر نئی سائنسی شعور کی خواہاں تھی اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں مصروف تھی جو اپنی راہیں آپ منتخب کرتا ہو۔

          سجاد حیدر یلدرم نے ترکی ادب کے جو ترجمے کیے ہیں اس سے قطع نظر ان کے طبع زاد افسانوں میں ترکی لب و لہجہ کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی زبان سے گہری واقفیت کی وجہ سے یلدرم کا اسلوب اپنے عہد کے مروجہ طرز بیا ن سے مختلف ہے۔ ابوالکلام قاسمی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :۔

          ’’سجاد حیدر کی تحریریں دو سطحوں پر (تراجم اور طبع زاد ) پر اردو نثر کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کرتی ہیں۔ وہ اپنے ترجموں میں ترکی لب ولہجہ اور اصل عبارت کا طر ز اظہار برقرار رکھنے کی کو شش کرتے ہیں اور اس کوشش کے ذریعہ ہماری نثر کو ایک نئی جہت سے آشنا کرتے ہیں اور اپنے افسانوں میں ترکی زبان وادب کے اسالیب بیان سے استفادے کے ساتھ خود اپنے ذاتی طرز تحریر کے بھی گہرے نقوش مر تسم کرتے ہیں۔ 3؎

          سجاد حیدریلدرم کی نگارشات میں ترکی کے اثرات کا اندازہ جملوں کی ساخت، تراکیب حسن اور لہجے سے بھی ہوتا ہے۔ ترکی زبان وادب کے مطالعہ اور ترجمہ سے یلدرم کے اسلوب بیان میں جو تنوع اور ہمہ گیری پیدا ہوئی اس کا اندازہ ان کے افسانوی مجموعہ ’’خیالستان‘‘میں شامل افسانوں سے لگایاجا سکتا ہے۔ نمونہ کے لیے ان کے طبعزاد افسانہ’’گلستان‘‘کے اسلوب اور لفظیات کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بر جستگی نہ تو داستانوں کی ہے اورنہ ہی یہ پُر تکلف تشبیہات مختصر افسانے کی ہیں بلکہ ہر ہر لفظ اور ہر تشبیہ میں ایک نئی معنویت صاف نظر آتی ہے۔ جیسا کہ اس اقتباس میں دیکھا جاسکتا ہے۔

          ’’نسرین نوش جزیرے کے دامن میں، سمندر کی ریت پر ایک سرو زریں کی طرح جو زمین پر گر پڑا ہولیٹی ہوئی تھی کہ موجوں میں کچھ حرکت پیدا ہوئی، اور وہ نسرین نوش کے عریاں جسم، چاند جیسے عریاں جسم پر، گردن پر، بالوں میں سے گزرنے لگیں۔ ادھر سلسبیل قمر اس کے بدن پر پڑ رہی تھی، ادھر چھوٹی چھوٹی موجیں ایک دوسرے کو ہٹاتی آتی تھیں اور اس سیمیں تن کے کبھی بالوں میں سے گزرتی تھیں، کبھی اس کے گورے بازووں سے لپٹتی تھیں، کبھی اس کے بلوریں سینے سے ملابست کرتی تھیں، کبھی اس کے ارغوانی پاوں کو سہلاتی تھیں۔ ۔ ۔ ‘‘4؎

          ’’سیر کرنے والی، عالم نور کی شہزادی، ایک نور پاش استہزا کے ساتھ شفاف خراماں و پیکر آ تش، ایک بے خبر مصروف تماشا، روشنی کی ایک پتلی، ایک متبسم تفریح، خنداں ضیا ء سے مخزوں، گلابی رنگ میں ڈوبی ہوئی برق متحرک، مجھ میں اپنے اشارہ مبہم سے ایک انجذاب مضطر پیدا کر رہی ہے اور میں ہوں کہ اس قوت مجہول کی طرف کھنچا جا رہا ہوں۔ ‘‘5؎

          مندرجہ بالا اقتباس اگر چہ شاعرانہ حسن لیے ہوئے ہے، الفاظ وتراکیب، جملوں کی ساخت اور صوت و آ ہنگ میں جس ترتیب و توازن کا خیال رکھا گیا ہے اس پر شاعری کا گمان گزرتا ہے جو کہ نثر کی فنی خامی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لیکن یہ جملے اپنے دور کے موجودہ شخصی و اجتماعی رجحان کے عکاس ہیں اور ان میں مقصدیت کا پہلو بھی موجودہے۔ اس عہدکے محبت کے پیمانۂ حسن کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے جو آج سے بالکل مختلف تھا۔ کچھ نہ صحیح تو اس زمانے کی صاف تصویرقاری کے ذہن میں ابھر سکتی ہے۔ مثلاً’’حکایتِ لیلی و مجنوں ‘‘میں دو محبت کرنے والوں کو کچھ تو خاندانی نااتفاقی اور کچھ محبت کوایک بڑا جرم سمجھنے کے باعث قربا نیا ں دینی پڑتی ہیں۔ گر چہ اس نوع کی شدت پسندی معاشرے میں بعض جگہوں پر ہنوز برقرار ہے تا ہم اس سے واضح ہوتا ہے کہ یلدرم کی تحریروں میں ترکی ادب کے جو اثرات مرتب ہوئے ان میں ایک مستحسن پہلو یہ تھا کہ ان کا ہر خیا ل اپنے عہد کی ضرورتوں رویوں اور رجحانات سے وابستہ تھا۔

          سجاد حیدریلدرم کے افسانوی کرداروں میں بالخصوص نسوانی کرداروں میں ترک خواتین کا رنگ ڈھنگ دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے افسانوں کی ہیروئین عا م طور پر تعلیم یافتہ، جدید تہذیب کی مداح اور آزاد خیال ہوتی ہے۔ جس زمانے میں سجاد حیدریلدرم لکھ رہے تھے اس وقت ہندوستان کے مسلم طبقے میں اس طرز کی خواتین بمشکل ہی رہی ہوں گی اس لیے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ تصویریں ان غیر ملکی خواتین کی ہیں جو غیر ملک میں یلدرم کے مشاہدے میں آئیں۔ یلدرم جس وقت ترکی میں تھے وہاں کی خواتین نقاب سے آزادی حاصل کر کے نیم مغربی طرز معاشرت میں ڈھل رہی تھیں۔ اس ضمن میں ان کے طبع زاد افسانے ’’ازدواجِ محبت ‘‘ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں مرکزی کردار قمر النساء میڈیکل کی طالبہ ہے اور پردہ ترک کرکے اسپتال میں نوکری کرتی ہے اور پھر اپنی پسند سے ایک ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے جو اس کی علمی صلاحیت اور مالی حیثیت سے بے نیاز صرف اس سے محبت کی بنا پر شادی کرے۔ اسی طرح خارستان و گلستان، محبت نا جنس، چڑیا چڑے کی کہانی، سودائے سنگین، اور حکایتِ لیلیٰ و مجنوں وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن میں ایک آزاد خیال معاشرے کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ اپنے ایک مضمون ’’تعلیم نسواں بذریعہ ازدواج ‘‘ میں لکھتے ہیں :۔

          ’’عورتوں کی تعلیم سے جو بے پروائی کی جارہی ہے اس کی وجہ تو میری سمجھ میں کسی طرح نہیں آتی انگریزی تعلیم یافتہ نوجوان اس موجودہ غفلت سے سخت نالاں ہیں اور والدین ہیں کہ ان کی اس بے زاری کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ ہمارے ذی علم اور ذی دولت نوجوان اپنا دل ممالک اسلامی کے بازار ازدواج میں تو پیش کریں ذرا قسطنطنیہ جائیں اور دیکھیں کہ وہاں خاتونیں نئی اعلیٰ تعلیم سے کس قدر آراستہ ہیں موسیقی نقاشی اور مختلف زبانوں کی مہارت میں انھیں بدر جہ کمال حاصل ہے۔ ۔ ۔ یہی سب باتیں آجکل کے نوجوان چاہتے ہیں۔ ‘‘ 5؎

          سجاد حیدریلدرم کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ اردو افسانے میں پہلی بار انھوں نے نہایت بے باکی سے کرداروں کے حرکات و سکنات کے ذریعہ داخلی جذبات اور ان کے جنسی کیفیات کو اجاگر کرنے کی جرأت کی۔ کیوں کہ جس زمانے میں وہ لکھ رہے تھے اس وقت جذبات کی نا آسودگی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے جسمانی ہیجان و کشمکش کو پیش کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ موجودہ عہد کے مسائل و میلانات سے اس عہد کے مسائل مختلف تھے۔ مثلاً کسی لڑکی کا اظہارِ محبت کرنا حتی کہ جنس مخالف سے بات چیت کرنا تک اس عہد کے مروجہ اقدار کے خلا ف تھا۔ ٹھیک اس اسی طرح عورتوں کی طرف سے اظہار عشق کو بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ جب کہ شاعری میں یہ کوئی نئی بات نہ تھی ریختی اور مثنویوں میں عورتوں کی طرف سے پہل کرنے کی روایت موجود تھی۔ لیکن افسانے میں اس طرح کا کوئی نمونہ نہیں ملتا اس طرح سجاد حیدریلدرم اس میدان کے نقاشِ اوّل ہیں۔ اورشمس الرحمٰن فاروقی کی یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ’’سجاد حیدر یلدرم کئی معنوں میں اپنے وقت سے بہت آگے تھے ‘‘۔ اور ان کے اس جرأتِ اظہار کو حوصلہ افزائی ترکی ادب کے مطالعے اور ترجمہ سے ملی۔ افسانہ’ گلستان‘ میں مرکزی کردار نسرین نوش کو بے ا نتہا ناز و نعم کے ساتھ پالا جاتا ہے نوکرانیا ں، باندیاں، اور طرح طرح کی آسائشیں اسے میسر ہیں۔ لیکن اس بات کا شدید خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی مرد اس گلستاں میں داخل ہونے نہ پائے۔ ان پابندیوں میں نسرین نوش اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کرتی ہے۔

          ’’ایک غیر معنی تمنا اس کے دل میں پیدا ہو رہی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ ایک ذات، ایک وجود آئے جو اس پر قادر ہو، اس پر حاوی ہو وہ ایک شئے کی تلاش کرتی تھی جسے وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا ہوگی۔ ایک مبہم چیز چاہتی تھی جو اسے دکھ دے اس کے دل میں درد پیدا کرے اسے مسل ڈالے، ایک ایسی پر قوت، پر جرات شئے باوجود اس کے حسن وجمال کے۔ باوجود اس کے کہ وہ جزیرے کی ملکہ تھی۔ اس سے نہ دبے اس کے رعب میں نہ آئے، اسے پکڑے اسے مارے، اسے ٹکڑے کر ڈالے۔ ‘‘6؎

          بعض افسانوں میں صرف صحت مند جذباتِ محبت کی ترجمانی بھی کی ہے۔ ایسی جگہوں پر انھوں نے کرداروں کے رنگینی خیال و نزاکت کی عکاسی کے ساتھ ساتھ جذبے کی متانت و عفت کو بھی متوازن رکھاہے۔ اس ضمن میں ’’حکایت لیلیٰ و مجنوں ‘‘ قابل ذکر ہے نمونے کے لیے اقتباس ملاحظہ ہو۔

          ’’آپ حسن نجد کے خدو خال کا حال بھی پوچھتیں تھیں۔ یہ مشکل سوال ہے۔ ۔ ۔ ۔

          خیر جو کچھ ہو، وہاں کے حسن کا حال آپ پوچھتی ہیں تومیں مختصرا ً یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ حسن نجد ایسا نہیں جیسا اس وقت یہاں اس کمرے میں مشغول نغمہ طرازی ہے نجد کی دلبری اس شکل میں ظاہر ہوتی ہے جو اجازت ہے تشبیہ دوں ‘‘؟

          آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ جب میں نہایت بے تابی سے سن رہی ہوں آپ نے اپنے فقرے کو نا تمام چھوڑ دیا۔ نجد کی دلبری کس شکل میں ظاہر ہوتی ہے

          ’’جو اس وقت مشغول جرح ہے ‘‘7؎

          سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں میں مناظر کا تعلق اپنی فضا اور ماحول سے زیادہ ان کی تخیلاتی دنیاوں اور بیرون ملک سے ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی منظرنامے پر ایسے کردار ابھرتے ہیں جو جاذبِ نظر اور توجہ کشید کرنے والے ہوں۔ جمال پرور قصے ایسی جگہ وقوع پذیر ہوتے ہیں جہاں کا موسم نہایت ہی دلکش اور حسین ہو۔ اس طرح اس کا سرا بظاہر تو داستانوں کے قریب پہنچ جاتا ہے مگر داستان گو یوں کی طرح وہ مجرد کو مجسم نہیں بناتے بلکہ ان مناظر کے بطن میں پوشیدہ حسن قاری کی جمالیاتی تسکین کا باعث ہوتا ہے۔

          خلاصہ یہ کہ ترکی ادب کے اثرات سے اردو افسانے میں ایک نئی معنویت پیدا ہوئی اور دلچسپی کو جگہ ملی۔ سجاد حیدریلدرم کے عہد کا ترکی واحد اسلامی ملک تھا جو اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کی مثبت روایات مثلاًزبان وادب میں صحت مند عناصر، آزادی نسواں، مساوات انسانی، جمہوریت کے فروغ وغیرہ سے استفادہ کر رہا تھا۔ چنانچہ سجاد حیدریلدرم نے ترکی کی تہذیب کو قریب سے دیکھا تھا۔ اس لیے وہ جہا ں ایک طرف فرسودہ عقائد، دقیانوسی نظریہ کے برخلاف جدید علائم ونظر یات اور طرز زندگی اپنانے کے حق میں تھے وہیں سخت عقلیت پسندی سے بھی نالاں تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں جذبہ اور تخیل دونوں کی آمیزش ملتی ہے۔

          1؎کہانی کے پانچ رنگ، شمیم حنفی، 1986، لاہور، ص:20

          2؎بحوالہ، مرتب :ثریا حسین، سجا د حیدریلدرم، مجموعہ مقالات، یلدرم سیمینار مئی 1981، ص:61

3؎     یلدرم کے افسانوں کی تاریخی اہمیت۔ ۔ ابو الکلام قاسمی، مشمولہ سجاد حیدر یلدرم، مرتب ثریا حسین، ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ 1981۔ ص: 148

4؎خیالستان، سجاد حیدر، کوہ نور پرنٹنگ پریس دہلی، 1962ص:18

5؎سجاد حیدر یلدرم، علی گڑھ منتھلی، نومبر 1903، ص:9

          6؎خیالستان، سجاد حیدر، کوہ نور پرنٹنگ پریس دہلی، 1962ص:130

7؎خیالستان، سجاد حیدر یلدرم، کوہ نور پرنٹنگ پریس دہلی، 1962ص :196

تبصرے بند ہیں۔