واقعہ کربلا اور ہندو شعرا

ڈاکٹر زمرد مغل

اردو زبان و ادب نے جس طرح واقہ کربلا کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ایسا فارسی اور عربی میں بھی نہیں ہوپایا ۔کربلا ایک لڑائی یا دو فریقین کے درمیان حق و باطل کی جنگ کا نام نہیں ہے کربلا نام ہے زندگی کے کئی اسرارو رموز سے پردہ اٹھانے کا،سچائی کے ساتھ کھڑئے ہونے کااور اس کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی کی تیاری کی تربیت کا نام کربلا ہے۔ویسے تو اردو کی ہر صنف میں اس واقعہ کو شعرا نے اپنی تخلیق کا حصہ بنایا ہے اردو شاعری میں کربلا کے موضوع کو جتنی اہمیت دی گئی ہے اس کی مثال کسی دوسری زبان میں ملنا مشکل ہے اردو ادب کی تاریخ اس سانحہ کے بغیر نامکمل ہے واقعہ کربلا نے اردو شاعری کو نہ صرف متاثر کیاہے بلکہ اردو کی کئی اصناف تو واقعہ کربلا کے بغیر نامکلمل ہیں جن میں مرثیہ،سلام،نوحہ،اور منقبت نہایت ہی اہم ہیں ۔
اردو میں کربلا کے موضوع پر نہ صرف مسلم شعرا نے خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ غیر مسلم شعرا کی خدمات کو بھی کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا اردو کی موجودہ صورت حال میں اور اب سے پچاس سو سال کی اردو میں بہت فرق آیا ہے اردو اب کی طرح صرف مسلمانوں کی زبان نہیں سمجھی جاتی تھی یہ ایک مشترکہ کلچر کی زبان تھی جو ہندوستان کے باہمی اختلاط سے وجود میں آئی تھی جسے ہندو ،مسلمان سکھ اور عیسائی اپنی زبان سمجھتے تھے اور اسے بولنے اور اس زبان میں لکھنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے ایک زمانے میں بغیر مذہب کئی لوگوں کی مادری زبان اردو ہی تھی ،اور جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی وہ اس زبان کو پڑھنا چاہتے تھے اب وہ صورت نہیں رہی مگر آج بھی اردو سیکولر زبان کا پرچم بلند کیے ہوئے ہے اور آج بھی اردو ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے گویا اظہار کی زبان آج بھی اردو ہی ہے۔اردو زبان و ادب میں مرثیہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے اس میں اس زمانے کی تاریخ وتہذیب وہاں کا رہن سہن وہاں کی آب و ہوا وہاں کی دکھ اور پریشانیوں کا اظہار جس طرح ہوتا ہے وہ کسی اور صنف میں ممکن نہیں ۔لکھنوی اور اودھی تہذیب کا جتنا موثر اظہارصنف مرثیہ میں ہوا ہے اس کی بھی مثال ملنا مثکل ہے
حضرت امام حسین کی قربانی اور کربلا میں پیش آنے والے واقعات نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلم کو بھی اس رنج والم شدت سے محسوس نہ کیا ہو اردو کی نثر ی اور شعری تخلیقات میں غم حسین کو اسی شدت کے ساتھ پیش کیا گیا جس کو کہ وہ واقعہ حق رکھتا تھا لیکن اردو شاعری نے جس طرح اس غم کو اپنے رگ و پے میں پیوست کیا کہ اردو کی کئی اصناف تو کربلا سے منسوب ہوکر رہ گئی اور اب مرثیہ کا ذکر آتے ہی غم حسین اور واقعہ کربلا آنکھوں کے سامنے آنے لگتا ہے۔اردو نے اپنی ابتدا سے ہی غم حسین کو اپنا غم بنایا اور اسی لیے اردو میں ہر بڑئے لکھنے والے نے اسے اپنی شاعری اور نثر کا موضوع بنایا ۔دکن ،لکھنو اور دلی کے دبستان میں لکھا جانے والا ادب اس کی نادرو نایاب مثال ہے کہ کس طرح مجلس حسین ہمارے ادب کا ایک حاوی موضوع رہا ہے اور کس طرح ہمارے ادیب و شاعر وں نے غم حسین کو محسوس کیا اور اسے اپنی تخلیق کا موضوع بنایا ۔بات ہورہی تھی غیر مسلم شعرا کی جنہوں نے خانواداے رسول کی اس عظیم شہادت کو نہ صرف شدت کے ساتھ محسوس کیا بلکہ اسے اپنی تخلیق کا موضوع بھی بنایا۔حسین کی قربانی صرف اسلام یا مسلمانوں کے لیے دی گئی قربانی نہیں تھی بلکہ یہ تو ایک آفاقی پیغام تھا جو حسین دے گئے کہ جب بھی حق و باطل میں جنگ ہو تو ہمیشہ حسین کی طرح حق کی سر بلندی کے لیے اپنی جان بھی نچھاور کرنی پڑئے تو اس بھی گریز نہ کرو یہ عالمی درس ہے جو درس گاہ حسین سے ساری انسانیت کوملا اور جب جب معرکہ حق و باطل ہوگا حق کے طرف دار حسینی ہوں گے اور باطل کے طرف دار یزیدی ا س پیغام سے ہندو اور مسلمان شعرا نے فکری غذا حاصل کی اور اسے عام کرنے کی کوشش کی کہ ہندو اور مسلمانوں کے ساتھ کی کئی ہزار سالہ تاریخ ہے جسے آج ہم گنگا جمنی تہذیب کا نام دیتے ہیں ۔ہندوستان میں امام بارگا ہوں میں ہندو بھی اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے شریک ہوتے ہیں جیسا کہ اہل بیت کے ماننے والے۔مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ میں سب سے زیادہ متاثر امام حسین سے ہوا ہوں۔احمد سہیل اپنے ایک مضمون میں ذکر کرتے ہیں۔
’’اہل ہند کی خانوادہ رسول(ص)سے عقیدت اور خاص طور پر شہید کربلا
سے عشق و محبت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خود ہندو مذہب کی چند بہت قدیم
ویدوں میں سرکار ختمی(ص)اور ان کے والدین سے متعلق ان کے ناموں
کے ساتھ پیشن گوئی موجود ہے۔نیز حسینی برہمن بھی کربلا کے حوالے سے اپنی
ایک تاریخی حیثیت کے دعویدار ہیں،‘‘
اب کربلا اور شہادت امام حسین کے بارئے میں ہندو شعرا کے کلام کے چند نمونے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ حسین کا غم سارئے جہان کا غم ۔
ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر
ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی
رام پرکاش ساحر
وہ دل جو خاک نہ ہو جس میں اہل بیت کا غم
وہ پوٹے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں
رائے بہادر بابو اتار دین
حسین ابن علی ہیں فرد یکتا
کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا
دیا سر آپ نے رائے خدا میں
کیا دین نبی کو دین اپنا
جگر بندو علی و فاطمہ ہے
رسول اللہ کا پیارا نواسا
کیا آل نبی کو قتل صد حیف
مسلمانو کیا یہ ظلم کیسا
ولائے سبت پیغمبر ہے نعمت
یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا
سرکش پرشاد
انسانیت حسین ترے دم کے ساتھ ہے
ماتھر بھی ائے حسین ترئے غم کے ساتھ ہے
یا
مسلمانو کا منشا ء و عقیدت اور ہی کچھ ہے
مگر سبط نبی سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے
منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔