میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

ماہِ محرم الحرام اسلامی کیلنڈ ر کا پہلا مہینہ ہے ، اس کے ذریعہ اسلامی نئے سال کاآغاز ہوتا ہے ،اس طرح اب 1437 ؁ ھ سے نکل کر 1438 ؁ ھ میں داخل ہوگئے ۔عام طور پر مسلمانوں کو اسلامی نئے سال کی شروعات کا علم ہی نہیں ہوتا ہے ،نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی ملے گی جنہیں معلوم ہی نہیں کہ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ کون سا ہے اور آخری مہینہ کو ن سا ہے؟اسلامی سال کے آخر اور شروع سے کیا تاریخیں وابستہ ہیں ؟کن واقعات کا ظہور کس مہینہ میں ہوا؟اور کیسی انقلاب انگیز اور ولولہ خیز یادیں اور باتیں اسلامی ماہ وسال سے جڑی ہوئی ہیں۔ہمیں جنوری آتا ہے تو اس کا بات احسا س ہوتا ہے کہ نیا سال شروع ہوا ،ڈسمبر کے اختتام سے پہلے ہی نئے سال کے استقبا ل کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں اور موجودہ دنیا میں جنوری کے آغاز کی خوشیوں میں ہرطرح کی بے تہذیبی کو فروغ دیا جارہا ہے،اور جشن و مسرت کے نام پر بے حیائی اور بداخلاقی کے تمام کاموں کو انجام دیا جارہا ہے ۔
اسلام ایک جامع دین ہے ،جس کی تعلیمات کا ایک اپنا امتیاز اور انوکھا پن ہے ،اس نے اپنے ماننے والوں کو وقتی جذبات اور عارضی و ظاہری کاموں کے بجائے دائمی اور حقیقی چیزوں کواختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔بے مقصد زندگی گزارنے اور بے لگام ہوکر جینے سے روکا ہے ،اپنی خواہشات اور تمناؤں کوخدا کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی میں مٹا کر ابدی سعادت اور کامیابی سے ہم کنار ہونے کا سبق دیا ہے ،یہ دنیا فنا ہونے والی ہے ،یہاں کی لذتیں ایک دن ختم ہونے والی ہیں ،رنگینیاں اور رعنائیاں ماند پڑنے والی ہیں ،اورانسانی زندگی کا ایک دن خاتمہ ہونے والا ہے۔
جب بھی اسلامی نیا سال شروع ہوتا ہے ہمارے اس سبق کو تازہ کروایا جاتا ہے کہ خدا کے اس عظیم دین کی نگہبانی کرنے اور گلشنِ محمدی کی آبیاری کرنے کے لئے کتنے جیالوں اور اسلام کے بے لوث سپاہیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، شہادتوں کا جام نوش کرکے ،جان جانِ آفریں کے حوالہ کرکے تعلیماتِ نبوی کے پرچم کو دنیا میں لہرایا ہے ،آج ہمیں جو گھر بیٹھے دین ملا،کلمہ نصیب ہوا ،اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں فراہم ہوئی اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کے پیچھے خدا کے پرستار اور دینِ حق کے وفادار کتنے مجاہدوں کا گرم لہو بہا ہے۔محرم کے مہینہ کو ہم شہادت کا مہینہ سمجھتے ہیں ،کیوں کہ اس مہینہ کی دس تاریخ کو نواسۂ رسول ،جگر گوشۂ بتول سیدنا حضرت حسینؓ کی المناک اور کرب انگیز شہادت کا واقعہ پیش آیا ،ایک ایسی شہادت جس کو انسانیت کبھی فراموش نہیں کرسکتی ،ایک ایسا روح فرسا منظر کہ جو نگاہوں میں آجائے تو جسم کا رُواں رُواں درد و الم سے دوچار ہوجائے۔لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلامی تاریخ ایسے ان گنت باوفا بندوں کی شہادتوں سے لالہ زار ہے کہ جنہوں نے اسلام کی سربلندی ،اور کلمہۂ حق کی اشاعت کے لئے اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کردیا،اسلام کو قبول کرتے ہی،اور دامنِ رسول ؐ سے وابستہ ہونے کے فوری بعد اپنی پوری ذات کو اسلام کے حوالہ اور رسول اللہؐ کے قدموں پر نچھاور کردیا،بلا تامل اور بغیر پس و پیش کے ہر حکم پر،اور ہر اشارہ پر تیار ہوگئے،اسلام ہی کی وجہ سے اپنے محبوب دیار کو چھوڑا،مال ومتاع کو قربان کیا،عیش و عشرت کو خیر باد کہا،نعمتوں اور آسائشوں سے منھ موڑا،زندگی کی رعنائیاں اور دل فریبیاں ان کے محبت کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکیں،اور نہ ہی ان کے عزم و ارادہ میں خلل انداز،ان کی نگاہوں نے اس جلوؤ جہاں آرا کا نظارہ کر لیا تھا کہ جس کے سامنے ساری نعمتیں ہیچ،اور جس کے بغیر ہر طرح کے سکون میں بے کلی ملتی،اورپھر اپنے خونِ جگر سے اس اسلام کی آبیاری کی جس ٹھنڈی چھاؤں میں آج ہم پنا ہ لئے ہوئے ہیں،بلا شبہ تاریخ کے اوراق ان کے جذبۂ شوق سے بھرے ہوئے اور خونِ شہادت سے رنگین ہیں۔18/ذی الحجہ 35 ؁ ء تاریخ کو دامادِ رسول ،ذی النورین حضرت عثمان غنیؓ کی مظلومانہ شہادت پیش آئی۔( تاریخ طبری:3/477)اوریکم محرم الحرام 24 ؁ھ کوخلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کی شہادت عظمی کا سانحہ پیش آیا۔(طبقات ابن سعد:2/123)
اسلامی تاریخ کا ہر مہینہ ،ہر دن شہادتوں کے تذکروں سے بھرا ہوا ہے ،جو اپنے اندر عجیب کشش اور مقناطیسی جاذبیت رکھتے ہیں،اور انسانی دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں،اور اپنے ایمان کا جائزہ لینے اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ایمان کی حقیقت کو جس انداز میں اس مقدس جماعت نے سمجھا تھا،اور اس کے تقاضوں پر بے چوں وچراعمل کیا تھا،اس کا کتنا فیصد ہم نے سمجھا ہے،اس پر غور کرنا اور زبانی ایمان اور حقیقی ایمان میں کیا فرق ہوتا ہے اس کو محسوس کرنا ،خواہشات کی بنیاد پر دین کی تعمیل کیا نمونہ دکھاتی ہے ؟اور قربانیوں اور ایثار و جفا کشیوں سے کیسی باد بہاری آتی ہے اور عمل کے خفتہ جذبات کو بیدار کرتی ہیں اس کا اندازہ کرنا نہا یت ضروری ہے۔حضرت حسینؓ اپنے خاندان کے ساتھ میدان کربلا میں ہوں،یا سید الکونین ؐاپنے اصحاب کے ساتھ میدان بدر واحد میں،آخر کس چیز کا پیغام دے گئے ہیں؟ایمان و اسلام کے حصول اور اس کی بقا ء کے لئے کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور کتنا خون بہنے کے بعد یہ شجر ثمر آور ہوا ہے،اور کتنی جانوں کے نذرانوں سے پرچم اسلام دنیا میں بلند ہوا یہی دراصل ان لامتنا ہی شہادتوں کا پیغام ہے۔
آج بہت ضرورت ہے کہ مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں کہ خدا کے دین کا ہم سے کیا مطالبہ ہے ؟جان دینے والے تو جان دے کر چلے گئے مگر ہم اپنے دین کی حفاظت اور اس پرعمل آوری کے لئے کتنے فکر مند ہیں؟ہمارے نبیﷺ نے ہمیں غیروں کی نقالی سے بچنے کی تعلیم دی ہے لہذا ہم نئے سال کے آغاز پر اوروں کی طرح ظاہری دھوم دھام تو نہیں مچاتے لیکن کیا ہم اپنے ذہن و دل کو ایک انقلابی فکر سے اور عملی جذبہ سے آراستہ نہیں کرسکتے؟اپنی صلاحیتوں کو ،اپنے مال ودولت کو دین کے تقاضوں کے مطابق نہیں لگاسکتے؟دنیا میں خدا کادین اور نبی کی تعلیم زندہ ہوجائے اس کے لئے جد وجہد نہیں کرسکتے؟ایک نئے عزم و ارادہ کے ساتھ ایک تازہ عہد خدا سے نہیں کرسکتے کہ: اے اللہ! ہم سے کچھ اپنے دین کا کام لے لے !تاکہ کل میدانِ محشر میں جب ہم کھڑے ہوں تو تیرے نبی ﷺ اور ان کے باوفا صحابہ کرامؓ کے سامنے چہرہ دکھانے کے تو قابل بن سکیں !ان کے قدموں میں اور دین کے خادموں کی فہرست میں ہمیں بھی جگہ مل سکے! ہمارے مال کو،صلاحیتوں کو ،علم وہنرکو ،اولاد اور نسلوں کو اپنے دینِ حق کے لئے قبول فرمالے!اور یہ اعلان کریں کہ :ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ بذلک امرت وانا اول المسلمین۔( الانعام:162)بیشک میری نماز،میری عبادت اور میراجینامرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ،اس کاکوئی شریک نہیں ہے ،اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے ،اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والاہوں۔

میری زندگی کا مقصد ،تیری دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں ، میں اسی لئے نمازی

تبصرے بند ہیں۔