ٹہنیاں خشک ہیں، کب ان پہ ثمر لگتا ہے

عادل حیات

ٹہنیاں خشک ہیں، کب ان پہ ثمر لگتا ہے
کیسا ویران مرا خواب شجر لگتا ہے

سوچ پلکوں پہ مری دھند دھواں کچھ بھی نہیں
کتنا بے رنگ تخیل کا سفر لگتا ہے

خواہشیں ہیں نہ شفق رنگ تمنا کوئی
جسم کی قید میں دل اپنا کھنڈر لگتا ہے

رات ناگن کی طرح ڈس کے چلی جاتی ہے
دن نکلتا ہے تو پرچھائیں سے ڈر لگتا ہے

چشم بینا پہ رہا خوف کا سایہ ہر وقت
کیسا خوں بار مری جاں کا سفر لگتا ہے

کیوں ہواؤں میں معلق سا ہوا ہوں میں بھی
کیوں الگ جسم سے ہر شخص کا سر لگتا ہے

یاد کر کے جو اسے آج میں رویا عادل
آکے کے پلکوں پہ مری اشک گہر لگتا ہے

تبصرے بند ہیں۔