پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اس وقت دنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے، مسلمان جتنا دہشت گردی کا شکار ہے، شاید اتنا کوئی اور ہو، لیکن ہر واقعہ اور دہشت گردی کے ہر پس منظر میں مسلمانوں کو پیش کیا جاتا ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ مغرب پرست قوم نے ۹؍۱۱ کے بعد اسلامی دہشت گردی کا ہوا اتنا کھڑا کیاکہ اسلام کی شبیہ مسخ ہوتی گئی، درحقیقت دہشت گردی کی اصل اور جڑ تک پہنچنے کی ضرورت ہے، افغانستان میں دہشت گردوں کے پیدا کرنے کی اصل وجہ بھی یہی امریکہ رہاہے، اس نے اپنی حکومت اور دنیا پر اپنے رعب ودبدبہ کو باقی وبرقرار رکھنے کے لئے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد کی، خصوصامسلمان ممالک میں مسلمانوں کے دینی اور غیر دینی مزاج دو گروہوں میں بانٹ کر ان کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑایا اور ان میں آپس میں خونریزی کرائی اور اسی نے انہیں ہتھیار تھما کر ان کی پیٹھ تھپتھپائی اور موقع اور محل کے لحاظ سے افغانستان اور اس کے بعد عراق پھر تیونس، پھر لیبا سمیت ملک شام کو تہس نہس کردیا، خون مسلم کی ارزانی کا حال ملک عراق اور ملک شام سے پوچھئے، فلسطین میں انسانیت کے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے، اتنی بڑی دہشت گردی اور اس کی پشت پناہی کرنے والے کسی کو نظر نہیں آتے ؟ برما کے نہتے مسلمانوں کا قتل عام لوگوں کے آنکھوں میں کیوں نہیں کھٹکتا ؟ چین کی مسلمانوں پر ناکہ بندی کسے کوئی نظر نہیں آتی؟در اصل مسلمان بھی بڑے بھولے واقع ہوئے ہیں، مغرب کی چال کو سمجھ نہیں پاتے، دو گروہوں میں بٹ کر آپس میں کشت وخون میں لگ جاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ ان کا ہر اٹھنے والا قدم اسلام کی طرف منسوب کیاجائے گا، جذبات رو میں بہہ کر مغرب کی چال بازی اور عیاری ومکاری کو نہیں سمجھ پاتے اوراس کے جال عنکبوت میں ایسے پھنس جاتے ہیں، خون خرابے کا نام اسلام سمجھ بیٹھے، ترکی کے رجب طیب اردگان نے جو اسلام کی معتدل تصویر پیش کی ہے، یہ مغرب کو بالکل نہیں بھاتا، اعتدال وسطیت کا نام اسلام ہے، شدت پسندی اور تعصب پسندی سے اسلام کوسوں دور ہے، اسلام نام ہی امن وآشتی کا ہے، یہ کسی کے خون ناحق کا حکم کیسے دے سکتا ہے ؟ مختلف سر پھرے عناصر نے اسلام کے نام پر مغرب کی چال بازیوں میں آکر انہوں نے مغرب کا ساتھ دیا اور اسلام کی بدنامی کا سبب بنے، لیکن اسلام کی شبیہ کو جتنی خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ سورج پر تھوکنے کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود تھوک اپنے اوپر آگرتا ہے، اسلام کی آبیاری اور اس کی پسندیدگی اورروئے زمین پر اس کے نفاذ کے لئے رضامندی کا اظہار اللہ عزوجل نے اپنی کتابِ مبارک میں کیا ہے، کیوں کر اسلام کی شبیہ کواس قدر مسخ کیاجاتا ؟ کب تک کیاجاتا؟ اہل اسلام کو بدنام کیاجاتا؟ ان کے نام سے چڑ پیدا کی جاتی ؟ اور اپنے ہتھیار کے فروختگی کے دھندے کو آپس میں مسلمانوں کو لڑا بھڑا کر آگے بڑھایاجاتا، اپنی سیاست اور اقتصادیت کی دکان چمکائی جاتی ، لیکن خدائے  ذو الجلال کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے کہ مصداق، خدائے واحد وقہار کو اسلام کی شبیہ اور اس کے چہرے کو صاف وشفاکرکے پیش کرنا تھا، جو دہشت گردی اور شدت پسندی کی نسبت اسلام کی طرف کی جاتی، اسلام کے ساتھ ایک دہائی سے بڑھ کر جو خون خرابے کا لیبل چسپاں کیا گیا، اس کے نتیجے میں بھی یورپ میں دہشت گردی پنپی، وہاں پر اسلام مخالف کاروائیوں اور اشتہار بازی کے نتیجہ کچھ سرپھرے دشمنان اسلام پیدا ہوئے، نیوز لینڈ میں دو مسجدوں پرگذشتہ جمعہ دہشت گردانہ حملہ کیا گیا، جس کے لئے باضابطہ پلاننگ کی گئی، سفاکیت اور خون کی ہولی کھیلی گئی، نہتے، عبادت لئے مسجد میں جمع ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، وقت اور مقام کا انتخاب بھی یہ بتاتا ہے کہ یہ کام نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا، اسکے تار بھی بہت دور سے جڑے ہیں، اس مشن اوراس نیٹ ورک کا مقصد اور مشن انتہاء پسندی کا فروغ، اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ، دہشت گردی کو بڑھاوادینا ہے، جس کا واضح ثبوت حملہ آور کی بندوق پرتاریخ واریورپین حملہ آوروں کی درج ناموں اورا ن کو ہیرو ثابت کرنے اور ان حملوں کے بدلہ لینے اوراس کے علاوہ دیگر گیارہ وجوہات کو جو حملہ آور نے اس دہشت گردانہ کاروئی سے پہلے اپنے منشور کی شکل میں ۳۶ صفحات میں جاری کیا تھا، اور بڑی ہمت کی بات یہ بھی رہی کہ اس آسٹریلیائی شہری نے  اپنی اس خونی حرکت کو فس بک پر لائیو نشر کیا، اس دہشت گردی اورانسانیت کے ساتھ کھلے اور ننگے ناچ کو کیا کہاجائے ؟ ویسے تو امریکہ کی مسلمان ممالک کے ساتھ اور اسرائیل کی فلسطینیوں کے ساتھ یہ روزانہ کی حرکت ہے، جس کو یورپین گودی میڈیا ہر وقت چھپاتااور پس پردہ رکھتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ جو اس وقت ہمارے ملک میں ماب لنچنگ اور برما میں قتل عام، عراق، ملک شام، تیونس، لیبیا، یمن میں بمباری اور خونریزی کے احوال ہیں، ہر جگہ مسلمان پیسے جاتے ہیں، ان کو ملیامیٹ کیاجاتا ہے اور دہشت گردی کا شکار وہی ہوتے ہیں اور انہی کی طرف دہشت گردی کالیبل چسپاں کیاجاتاہے، یہ حقیقت ہے کچھ ناعاقبت اندیش مسلمان ہیں جو مسلمان اور اسلام کا لبادہ پہنے دنیا کے ہر کونے میں امریکہ کی سرپرستی میں اسلام کی بدنامی کا سبب بنے ہوئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کو چھان لیاجائے وہاں دفاعی لڑائیاں ہوئیں ہیں، اقدام نہیں کیاگیا، حیاتِ رسول میں گیارہ سو سے زائد لوگ جنگوں میں قتل نہیں ہوئے،اسلام نے گیارہ سو سے کم لوگوں کے قتل کے بعد ہر چہار دانگ عالم میں اسلام کا پرچم لہرایا، یہ قتل وخون کا کیسا حامی ہوسکتا ہے ؟  جو اسلام کہ بچوں، بوڑھوں، راہبوں درختوں کھیتو ں پرندوں اور نہتوں لوگوں کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیتا، وہ کیوں کر انسانیت کا سفاکی کے ساتھ خون بہانے کی اجازت دے سکتا ہے، یہ در اصل امریکہ کی سازش ہے کہ اس کی جانب اپنے تیارہ کردہ چند سرپھرے اوباش لوگوں کو ان کے ساتھ اسلامی نام اور لیبل چسپاں کرکے اسلامی آیات اور کلمہ توحید کا لیبل لگا کر ان کو اپنے مقاصد اور مسلمانوں کو تہس نہس کرنے اور اپنی ہتھیار کی منڈی کو مندی ہونے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، پھر اس کے درہ پردہ مسلمانوں کا ہی قتل وخون ہوتا ہے اورپھر انہیں کو اپنے اسلام کے دفاع کے لئے تگ ودو کرنے پڑتی ہے۔

لیکن نیوز لینڈ کے حالیہ واقعہ نے یہ واضح کردیا کہ اسلام کی طرف دہشت گردی اور شدت پسندی کی نسبت بالکل غلط ہے، یہ سارے کھیل دنیا کے حکمراں اور طاقتور ممالک کرتے ہیں، یہی کشت وخون کا بازار گرم کرتے ہیں، یہی ہیرو اور یہی ویلن ہوتے ہیں، یہ بہروپیئے ہیں، جو امن کے نام پر ہیرو بن کر ویلن کا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن موجودہ دور میں ایک دہائی سے بڑھ کر اسلام پر جو وقت بیتا ہے اس میں اسلام کو بدنام کرنے کی بہت کوشش کی گئی، لیکن گذشتہ جمعہ کے واقعہ اورا س پر سارے دنیاکے رد عمل اور اپنی یگانگت اور خیرسگالی کے اظہار اور نہتے نمازی مسلمانوں کے موت پر جس طرح اپنے غم واندوہ کا اظہار کیا اور خصوصا نیوز لینڈ کے خاتون وزیر اعظم اوروہاں کے باشندوں نے نے اپنے اس پر امن ملک میں دہشت گردی کے اس پہلے بڑے واقعہ پر جس شدت اور سختی کا اظہار کیااور اس کو اول وقت میں دہشت گردی کا واقعہ بتایا، یہ واضح کرتا ہے کہ دیگر یورپین ممالک میں سفید فاموں کی طرف سے اب تک جتنے بھی واقعات اور دہشت گردانہ کاروائیاں اس سے قبل  ہوتے رہے ہیں، وہاں انہوں نے دوہرا رویہ اختیار کیا، مسلمان کے عمل کو دہشت گردی کا عمل ٹھہرایا اور اور سفید فاموں کی طرف سے پیش آنے والے اس طرح کے واقعات پر اس حملہ آور اور دہشت گرد کو ذہنی مریض بتا کر اور اس کو پاگل پن کا سرٹیفکٹ دے کر اس کو بری کردیا گیااور عالمی میڈیا نے بھی اس پر عالمی سامراجی طاقتوں کا ساتھ دے کر ایسے واقعات میں ملوث سفید فاموں کے دہشت گردانہ عمل کو فائرنگ یا شوٹنگ قرار دے کو ان کو بری کرنے کی کوشش کی۔

لیکن نیوزلینڈ کی وزیر اعظم خاتون لیڈ ی  جیسنڈ آرڈن نے اپنے پہلے ہی رد عمل میں اس واقعہ کو نیوز لینڈ پر دہشت گردانہ حملہ قرار دیا، مارنے والے دہشت گردوں کو ملک دشمن اور مرنے والوں کو شہید بتلایا اور ان نہتے اورمظلوم مسلمانو ں کو اپنا شہری بتایا، مہلوکین کے اہل خانہ ساتھ خیر سگالی ملاقات میں کالے رنگ کا اسلامی لباس اور دوپٹہ زیب تن کر کے ان کو تعزیت پیش کی، لواحقین عورتوں کے ساتھ معانقہ کیا، میتوں کی تدفین کا پورا خرچ خود سنبھالنے کا اعلان کیا، یہ پیشکش بھی کی کہ شہیدوں کے اہل خانہ اگر میت کو اپنے ملک لے جانا چاہتے ہیں تو اسکے تمام اخراجات ان کا ملک برداشت کریگا، انہوں نے فیس بک پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا، تمام دہشت گردی واقعہ پر مشتمل ویڈیوز کو ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کیا، اسلام کو امن وآشتی کاپیکرمذہب بتایا، اس سے بڑھ کر یہ کہ ۱۹ مارچ کو جب وہاں کی پارلیمنٹ کا پہلا آغاز ہوا تو انہوں نیوزلینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت اوراس کے انگریزی ترجمہ کے ذریعے پارلیمنٹ کی کاروائی کی شروعات کی، تمام اراکین نے قرآن کریم کو کھڑے ہوکر سماعت کیا، ’’السلام علیکم ‘‘ کے ذریعے خطاب کی شروعات کی، آئندہ اذان جمعہ ک  سرکاری ٹیلی ویزن چینل اورسرکاری ریڈیوسے براہ راست نشر کرنے کی بات کہی، اس کے علاوہ اس واقعہ کے سخت رد عمل کے طور پر اسلحہ رکھنے کے قانوں میں بھی تبدیلی کرنے کا عمل شروع کیا۔ بلکہ مہلوکین کے لواحقین کو نیوزلینڈ کی شہریت دینے کی بھی بات کہی۔ جمعہ کے روز وہاں کی خواتین کو مسلمانوں کے تئیں ہمدردی کے اظہار کے لئے دوپٹہ اوڑھنے اور دومنٹ کی خاموشی اختیار کرنے کا حکم کیا ہے، یہ اسلام کی حقیقت ہے اور یہ حقائق ہیں جو اسلام کے حوالے سے اس خاتون وزیر اعظم اور ان کے ملک کے نے تسلیم کیا ہے، جس کو ساری دنیاکو تسلیم کرنا چاہئے۔

ہمیشہ کی طرح دنیا کے سارے ممالک کے سرابراہان اور مغرب پرست میڈیا نے بھی اس واقعہ کو شوٹنگ اور فائرنگ کا واقعہ قرار دے کر اس کو ٹالنے کی کوشش کی، جس میں سرفہرست امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اس واقعہ کو اس کو دہشت گردانہ حملہ قرار دینے سے گریز کیا، اس واقعہ پر امریکی صدر ڈونالپ ٹرمپ اس واقعہ کی مذمت کرنے کے بجائے بس یہ کہہ دیا کہ اس واقعہ پر ہم کیا کرسکتے ہیں ؟، یہ بھی پیش نظر رہے کہ حملہ آور امریکی صدر کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے، جو یورپین ممالک سے باہریوں کو نکالنے کا قائل ہیں، لیکن نیوز لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے امریکی صدر کو برجستہ جواب دیا کہ ’’آپ مسلمانوں سے نفرت ختم کر کے محبت کیجئے، ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیجئے ‘‘ یہ امریکی صدر کے ساتھ لیڈی خاتون وزیر اعظم کا سخت رویہ تھا جس کی وجہ سے امریکی صدر کواپنے بیان واپس لے کر اس واقعہ کی مذمت کرنے پڑی۔

پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے کے مصداق یہاں پر اس بات غور کرنے کی ضرورت ہے، در اصل یورپین دہشت گردی اور وہاں پنپنے والے تعصب پسندانہ جذبات اور دیگرمذاہب خصوصا مذہب اسلام کے ساتھ ان کی عداوت ودشمنی کی انتہا پر پہنچ چکی ہے، وہ اہل اسلام کو ایک آنکھ دیکھنا نہیں چاہتے، جس کے لئے ان کے ساتھ دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا گیا، یہاں پر غور کیا جائے کہ مسلمانوں کے تئیں خصوصااہل مغرب میں نفرت کی جڑیں کتنی مضبوط ہوچکی ہیں کہ ایک بندوق بردارتنہا شخص جمعہ کے لئے آئے نہتے مسلمانوں پرحملہ آور ہوتا ہے، پچاسیوں کو قتل اور بیسیوں کو زخمی کردیتا ہے اور ساری دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ؛ لیکن اسی خطے سے تعلق رکھنے والے یورپین خاتون وزیر اعظم یورپ سے پنپنے والے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اہل اسلام کے ساتھ یگانگت کا اظہار کر کے اس طرح کے تعصب پسندانہ جذبات کی نفی کی ہے، تمام یورپی ممالک کے سربراہان کے لئے ایک مثال پیش کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بنا کسی مذہبی تفریق کے اس طرح کی کاروائی جب تک نہیں کی جاتی دنیا میں امن وامان کو بحال نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

1 تبصرہ
  1. محمد ریاض الدین کہتے ہیں

    السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔۔۔ہم لوگ بہت جذباتی انداز میں ماحول کے نشیب و فراز کو دیکھ کر جلدبازی میں فیصلہ کردیتے ہیں کے* پاسبان مل گئے*،وغیرہ وغیرہ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ،ہمارانہایت قلیل مطالع ،۔ جس کے سبب ہم فوراً ہی نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔وا ہ رے ہمارے اہل علم حضرات۔۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔