اسلام وہ پودا ہے، کاٹو تو ہرا ہوگا

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

جمعہ کا وہ بارونق و پربہار دن،قبولیت کی وہ بابرکت و مستجاب ساعتیں، مسجد میں صف بستہ بیٹھے ہوئے فرزندان اسلام کی خوب صورت قطاریں، ان قطاروں کے درمیان ادھر ادھرٹہلتے اور رونق بکھیرتے ہوئے معصوم بچے،ایک جانب چین و سکون کے ساتھ ذکر و  تلاوت اور نماز و دعاءمیں مشغول خواتین اسلام کی مختصرسی جماعت۔ نہ خوف و ہراس کی کوئی علامت نہ دہشت و وحشت کا کوئی واہمہ،نہ گردش احوال کا کوئی جبر نہ حاکم وقت کا کوئی تسط؛مگر یہ کیا کہ دفعتاً خانۂ خدامیں جنگ کا ماحول بن گیا، خوف و دہشت سے ساری مسجد لرز اٹھی،آہ و بکا اور چیخ و پکار کی فلگ شگاف آوازوں سے آسمان دہل گیا اورسینۂ گیتی تھر تھر کانپنے لگی۔

ہوا کیا ؟؟ایک بدبخت و شقی القلب  28 سالہ سفید فام آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرنٹ نےنیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 49 نمازیوں کوواصل بحق کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

سلام ان شہیدان عشق و وفا کی ہمت مردانہ کو، سلام ان سربہ سجوددیوانوں   کی جرئت رندانہ کو، سلام  ان  ستم رسیدہ جاں بازوں کے نعرۂ مستانہ کو جو زبان حال وقال سے یہ کہتے ہوئے جان جانِ آفریں کے حوالے کر گئے ؎

کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو

کچھ تو کہو ستم کشوں، فریاد کچھ تو ہو

بیداد گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو

بولو کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو

گل برانداز ہے، خونِ شہدا کی لالی:

آج اس دل خراش سانحہ کو اگرچہ ایک ہفتہ کا عرصہ بیت چکا ہے؛مگر مساجد میں ہونے والےان دہشت گردانہ حملوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ نسلی و مذہبی تعصب اور اسلاموفوبیا کے خلاف لندن اور گلاسگو میں ریلیاں نکالی گئیں، ہزاروں افراد نے مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار اور اسلامو فوبیا کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کیا،حملے کا نشانہ بننے والی مساجد کے قریب پھول رکھنےاور پسماندگان کےلیے اظہارتعزیت کرنے کامنظر بھی دیدنی تھا۔

ایک طرف دشمنان اسلام کی یہ بزدلانہ ووحشیانہ حرکت تھی تو دوسری طرف نور خدا اس  حماقت پر خندہ زن تھا ؛کیوں کہ  پوری انسانیت نہ صرف ان جانثاروں ؛بل کہ دنیا بھر کے مسلمانوں  کے لیےہمدردی و غمخواری کے جذبات کے ساتھ فرش راہ بنی ہوئی  تھی،ہرطرف سے تسلی کے پیغامات موصول ہورہے تھے، ہرکوئی اسلام کی مدافعت میں لگاہواتھا،آس پاس کے شہری مصلیان مسجد کی حفاظت کے لیے پہرا دیتے نظر آرہے تھے،حکومت وقت نے تو تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ سیشن کا آغاز ہی تلاوت کلام مجید سے کروایااور ساتھ ساتھ ہی ساتھ خاتون وزیرِ اعظم نے السلام علیکم سے اپنا خطاب شروع کیا اور پورا خطاب ان کی انسانیت نوازی، امن بحالی اور سلامتِ طبع کا آئینہ دار رہا۔ نیز  اسلام کےلیے یہ بھی ایک خوش آیند بات ہے کہ  شہداء سے ہمدردی رکھنے والوں میں ہر مذہب اور قوم کے افراد شامل ہیں ؛جنہوں نے اسلام کامطالعہ کرنے اور حقائق کو سمجھنے کا عندیہ دیاہے۔

ہم کریں تو دھشت گرد ! تُم کرو تو دیوانے:

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد طاغوتی طاقتوں نے اسلامیان عالم کے ساتھ آج تک جو کھلواڑ کیا، وہ نہ صرف قابل مذمت ہے؛ بلکہ ایک کاری زخم ہے جومندمل ہونے کا نام نہیں لیتا،کفریہ طاقتیں گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر صرف منصوبہ بندی کی زحمت گوارہ کرتی ہیں باقی کام ان کے کارندے سعادت سمجھ کر خودہی سرانجام دےلیتے ہیں۔ آئے روز مسلم ممالک کو تہہ تیغ کرنےکاناپاک سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف حقِ انسانیت سے محروم نہتے فلسطینی اپنے دفاع کے لیے چاقو اٹھا لیں تو عالمی انصاف انہیں دھشت گرد قرار دےدے تو دوسری طرف مہلک ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی درندےمعصوم بچوں اور عورتوں کو گولیوں سے بھون دیں تو وہ امن پسندتسلیم کیےجائیں، ایک طرف عراق، لیبیا، مصر، شام، افغانستان، یمن، کشمیر، برما میں لاکھوں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے جائیں، بموں سے ان کے چیتھڑے فضاء میں اڑا دیے جائیں، ان کے ہنستے بستے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے تو یہ امن کی کوششوں کا حصہ قرار پائے جبکہ اس ظلم وستم کا مارا کوئی باہمت مسلمان کسی سفید چمڑی والے پر حملہ آور ہو جائے تو پورا اسلام دھشت گردی کا علم بردار بن جائے۔ تعجب تومغربی میڈیا کی اس دوہری پالیسی پرہے کہ ان مساجد پر حملہ کرنے والے اور درجنوں مسلمانوں کو بالقصد شہید کردینےوالے بدبخت کو ذہنی مریض اور پاگل بتلایا جارہاہے؛مگر غور کرنے کی بات ہےکہ حملہ آور اس درجہ ذہنی مریض تھا کہ باقائدہ ہتھیاروں پر لکھےسو دو سو سال پرانے واقعات کو نہ صرف اچھی طرح جانتا تھا بلکہ ان واقعات کے سن تاریخ اور مکمل پس منظر سے بھی واقف تھا،اتناپاگل تھا کہ ہتھیاروں پر اپنے جیسے ان تمام "ذہنی مریضوں ” کے نام بھی لکھ کر آیا تھا جنہوں نے کچھ سال یا صدیاں پہلے صرف مسلمانوں کو ہی بےدردی سے قتل کیاتھااور بیوقوف اتنا تھا کہ اپنے حملے کی فیس بک پر لائیو کوریج دکھاتا رہا تاکہ دنیا اسے نہ صرف دیکھے بلکہ اسے بھیجنے والے ماسٹرمائنڈ اس خون خرابے کی فلم سے خوب لطف اندوز ہوسکیں۔

‏اتنے مُختلف کیوں ہیں فیصلوں کے پیمانے

ہم کریں تو دھشت گرد ! تُم کرو تو دیوانے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے:

یہ حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد جوں ہی اہل مغرب نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا، تو ساری دنیا کی توجہ اسلام کی طرف مبذول ہوئی اور مغرب میں لوگوں نے اسلام، قرآن، اسلامی تعلیمات اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے بارے میں گہرائی سے مطالعہ شروع کردیا۔ فطری طور پراس دلچسپی نے ساری دنیا میں قبولیت اسلام کا دروازہ کھول دیا۔ اسلام کے مطالعے کے بعد لوگ اسلام سے متاثر ہوکر جوق در جوق اسلام کے دائرے میں داخل ہونے لگے۔

چناں چہ 2007کے دوران 9اگست کو میڈیا سے موصولہ اطلاع کے مطابق سب سے بڑے یوروپی ملک جرمنی میں گزشتہ 62 برسوں میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اٹھارہ ہزار جرمن مسلمان ہو چکے ہیں جبکہ اسلام قبول کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد سال 2006کے دوران اس طرح  رہی کہ چار ہزار جرمن شہریوں نے دین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے قبول کرلیا۔ کولون سے شائع ہونے والے جرمن اخبار کے مطابق گزشتہ 62 سال میں اسلامی اصولوں اور تعلیمات سے متاثر ہو کر اٹھارہ ہزار سے زائد جرمن دین اسلام میں داخل ہوگئے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں 80 فیصد تعداد عیسائی مذہب سے ہے۔ دوسری طرف جرمن اسلامی تھنک ٹینک حکام نے کہا ہے کہ صرف 2006ء کے عرصہ میں چار ہزار جرمن عیسائی باشندوں نے دین اسلام قبول کیا ہے جن میں 60 فیصد خواتین شامل ہیں۔ اسلام آرکائیو سنٹرل انسٹیٹیوٹ کے سربراہ سلیم عبداللہ کا کہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے اسلام کے سنہری اصولوں برداشت، بھائی چارہ اور محبت سے متاثر ہو کر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام کو قبول کرلیا ہے ؛تاہم برلن کے ایک مسلم رہنما محمد ہرزوگ نے تیزی سے دین اسلام میں داخل ہونے کے رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عیسائیت چھوڑنے والے پہلے پکے عیسائی تھے تاہم وہ اپنے عقیدے پر تذبذب کا شکار تھے اس لئے انہوں نے اسلام کا انتخاب کیا۔ جرمن سوشیالوجسٹ مونیکا وولرب کا کہنا ہے کہ عیسائیت چھوڑنے والوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہورہی ہے۔

اسلام کے پھیلتے دائرے کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ مغربی خاتون صحافی ’’اوریانہ فلاسی‘‘ کہتی ہے کہ آنے والے بیس سال میں پورے یورپ کے کم از کم چھ بڑے شہر اسلام کی کالونی بن جائیں گے، کیونکہ ان شہروں میں مسلمان کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد تک ہو جائیں گے۔ ایک متنازعہ مصنف میشل ہولیبیک نے اپنے ایک ناول میں ایک فرضی، تخیلاتی خاکہ کشی کی ہے۔ وہ 2022 کے فرانس کا منظر تصور کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ایک مسلمان صدر اقتدار میں آجاتا ہے اور فرانس کے تمام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے، ساتھ ہی خواتین کے کام کرنے پر پابندی عاید کر دیتا ہے اور فرانس میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ ‘‘

اسلام کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت و ترقی کے باعث دشمنانِ اسلام کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں اور وہ اسلام کے بڑھتے کاروانِ نور کو گل کرنے کی ہرممکنہ کوششوں میں جٹے ہوئے ہیں ؛مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے اورساری دنیا جانتی ہے کہ چاند کی چاندنی کتوں سے گوارا نہیں ہوتی، لیکن وہ اس کو ماند و مدہم بھی نہیں کر سکتے، اس طرح بے بس کتے اپنی خصلت بد کا مظاہرہ چاند کو بھونک کر کرتےرہتے ہیں۔ بھونکنا چونکہ کتوں کی فطرت ہے، اس لیے یہ قیامت تک چمکتے چاند کو بھونکتے رہیں گے، لیکن ان کے بھونکنے سے نہ تو آج تک چاند کی چاندنی ماند پڑی ہے اور نہ ہی قیامت تک اس میں کوئی کمی آئے گی۔

سورہ صف میں اس حقیقت کو واشگاف کرتےہوئے ارشادخداوندی ہے: یہ (منکرین حق) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں ) سے بجھا دیں، جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے، اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کر دے، خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔ ‘‘

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

تبصرے بند ہیں۔