ملک میں بھاشن نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

ڈاکٹر سلیم خان

۲۰۱۴  میں جب وارانسی سے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے پرچۂ نامزدگی داخل کیا تو ان کے سامنے دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی اپنا پرچہ داخل کردیا۔  اس سے مودی جی خود اعتمادی متزلزل ہوگئی اور انہوں نے بڑودہ سے بھی نامزدگی کے کاغذات داخل کردیئے۔ بڑودہ میں انہیں  ۸ لاکھ ۴۵ ہزار ووٹ حاصل ہوئے جبکہ کانگریس کے امیدوار ۲ لاکھ ۷۵ ہزار پر ڈھیر ہوگئے لیکن وارانسی کی حالت ایسی نہیں تھی۔ وہاں پر نریندر  مودی   ۵ لاکھ ۸۱ ہزار اور کیجریوال کو ۲ لاکھ ۹ ہزار ووٹ ملے۔ اس بار  اروند کیجریوال  چونکہ دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں اس لیے شاید ہی پارلیمانی انتخاب لڑیں    اس لیے مودی جی کو خطرہ کم تھا لیکن بھیم آرمی کے بانی چندرشیکھر آزاد  پی ایم نریندر مودی کے خلاف وارانسی سے لوک سبھا انتخابات لڑنے کا اعلان کرکے بی جے پی خیمہ میں کھلبلی مچا دی  ہے۔ ان کا کہنا ہے  کہ پہلے تو وہ اپنی تنظیم سے کوئی مضبوط امیدوار اتارنے کی کوشش کریں گے، اور امیدوار نہ ملنے پر وہ خود مودی کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔

چندر شیکھر  آزاد پورے صوبے میں مایا وتی کی حمایت کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وارانسی میں مایاوتی ان کا ساتھ دیں۔  سماجوادی پارٹی فی الحال بی ایس پی کے ساتھ ہے اس لیے اگر مایا مان جائیں تو راون اور رام کی سیدھی ٹکر ہوجائے گی۔ پرینکا  گاندھی  نے چندر شیکھر آزاد   سے بتا چکی ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف  تنہا نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ کانگریس ان کے ساتھ ہے اس طرح آزاد حزب اختلاف کا مشترکہ امیدوار بن سکتے ہیں۔   مودی جی کے حال میں وارانسی کے اندر صفائی مزدوروں کے پیر دھونے کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ بھیم آرمی کے بانی چندر شیکھر آزاد عرف راون کو پچھلے سال ۱۴ ستمبر کو  جب سہارن پور کی جیل سے رہا کیا گیاتو اس وقت بھی انہوں نے کہا تھا  کہ، ’ مجھے یقین ہے کہ وہ ۱۰ دنوں کے اندر میرے خلاف الزام لگائیں گے۔ میں اپنے لوگوں سے کہوں گا کہ وہ ۲۰۱۹؁  میں بی جے پی کو حکومت سے باہر کر دیں ‘۔

یوگی سرکار کے بعد مہاراشٹر کی فرد نویس حکومت نے بھی چندرشیکھر آزاد کو تعذیب کا نشانہ بنایا۔  رہائی سے ڈھائی ماہ بعد  بھیما-کوریگاؤں میں برپا  ہونے والی نسلی تشدد کی برسی سے قبل جب وہ  ممبئی پہنچے تو پولس نے  ان کو حراست میں لے لیا۔  پہلے تو ان صرف  نظر بند اور بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس  موقع پر ٹوئٹ میں آزاد نے  لکھا تھا  کہ ”پولس نے مجھے چیتیہ بھومی سے گرفتار کر لیا ہے۔گرفتاری کے اگلے دن آزاد نے ایک اور  ٹوئٹ میں لکھا کہ ”اگر مہاراشٹر کی فردنویس حکومت یہ سوچتی ہے کہ پولس کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہو جاؤں گا تو ایک بار میری تاریخ پڑھ لیجیے۔ ۱۶ مہینے جیل میں لگا کر آیا ہوں، تب نہیں ڈرا تو اب کیا خاک ڈروں گا۔ کان کھول کر سن لو، نہ ڈروں گا، نہ بِکوں گا، نہ رُکوں گا۔ جے بھیم جے آرمی۔”گرفتاری سے قبل چندر شیکھر آزاد کو  جب ہوٹل میں ممبئی پولس نےنظربند کررکھا  تھاتو انہوں نے ایک  ویڈیو کے ذریعہ اپنی  نظربندی کی اطلاع دیتے ہوئے  کہا  تھا کہ ”ابھی مودی کی پولس نے جو مجھے ہوٹل میں قید کیا ہوا تھا بہوجن سماج کے دباؤ کی وجہ سے پولس مجھے قید کر کے چیتیہ بھومی لے کر جا رہی ہے۔ کیا ملک میں جمہوریت بچا ہے؟ لگتا ہے مہاراشٹر میں آئین کو ختم کر کے بی جے پی نے ‘منوسمرتی’ نافذ کر دی ہے۔ لیکن میں قربانی کے لیے تیار ہوں۔ جے بھیم۔”

 سہارن پور کے شبیر پور گاؤں  کے اندر دلت اور ٹھاکر فساد  کے بعد مئی۲۰۱۷؁  میں چندر شیکھر کا نام سامنے آیا تھا۔ پولیس نے ان کے خلاف کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیامگر وہ زیر زمین چلے  گئے تھے۔ جون ۲۰۱۷؁ میں  اتر پردیش ایس ٹی ایف نے انہیں  ہماچل پردیش سے گرفتار کیا تھا۔اسی سال نومبر میں  الہ آباد ہائی کورٹ نے چندر شیکھر عرف راون کو   ضمانت دے دی تھی۔ لیکن اتر پردیش حکومت نے نیشنل سکیورٹی ایکٹ(این ایس اے) لگا کر ان کو پابند سلاسل رکھا اور اس میں ۳۔ ۳  ماہ کی توسیع کرتے ہوئے ستمبر ۲۰۱۸؁ تک جیل میں رکھا۔ یکم نومبر ۲۰۱۸؁ کو آزاد کی رہائی متوقع تھی لیکن یوگی سرکار نے یہ کہہ کر ستمبر میں چھوڑ دیا  کہ والدہ کی درخواست پر ایسا کیا جارہا ہے جبکہ جیل سے نکلنے پر چندر شیکھر نے کہا تھا، ’ حکومت اس بات سے ڈر گئی تھی کہ اسے  سپریم کورٹ سے پھٹکار مل سکتی ہے‘۔   راون کے متوقع خطرے کو ٹالنے کے لیے وزیراعظم نے کمبھ کے دوران صفائی ملازمین کے پیر دھوکر اپنا چہرہ  اور مستقبل روشن کرنے  کی سعی کی۔

مودی جی نے نے میڈیا کو بلا کران کے سامنے صفائی مزدوروں کو پیر دھوئے۔ تصاویر سے واضح ہے اس روز ان مزدوروں نے عام دنوں سے زیادہ محنت سے نہایا ہوگا اس لیے مودی جی کو حقیقی خدمت کا موقع ہی نہیں ملا۔   جن کے پیر دھوئے جارہے تھے وہ تو پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھے تھے اور خود مودی   جی دھات کی  گدے دار چوکی پر بیٹھ کر یہ ناٹک کررہے تھے۔   اس علامتی حرکت  سے قطع نظر وزیراعظم مودی کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ    ۲۰۱۳؁ میں ہاتھ سے سیورز یا سیپٹک ٹینکز کی صفائی پر پابندی کے باوجود  صفائی مزدوروں کی اموات سلسلہ بند کیوں نہیں ہورہا ہے؟  دہلی میں   ستمبر۲۰۱۸؁ کے اندرگٹرکی صفائی کرتے ہوئے ۶ مزدو رہلاک  ہو گئے۔ سال ۲۰۱۷؁ تا ۲۰۱۸؁ کے درمیان تقریباً ۳۰۰صفائی کامگاروں  کی  کام کے دوران دم گھٹنے سے موت واقع ہوئی۔  اس پاکھنڈی حکومت کے پاس سوچھ بھارت ابھیان کی تشہیر کے لیے کروڈوں روپئے کا بجٹ ہے لیکن صفائی مزدوروں کو مشینیں مہیا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔  ویسے بھی مودی جی اپنی کتاب ’کرم یوگی ‘میں غلاظت صاف کرنے والے دلتوں کو یہی کام  برضا و رغبت کرنے کی ترغیب دے کر اپنی منووادی ذہنیت کا ثبوت دے چکے ہیں۔  ایسے میں ان مگر مچھ کے آنسووں سے بھلا کون متاثر ہو گا؟  ایک طرف مودی جی دلتوں کے پیر دھوتے ہیں دوسری طرف یوگی جی  کے ذریعہ دلتوں  کے مقبول  رہنما چندر شیکھر آزاد کو گرفتار کیا جاتا ہے ایسے میں ان کے جھانسے میں کون آئے گا؟

مودی جی  کے ذریعہ پیروں کی  دھلائی والی بحث ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ وارانسی ۲۰۰ کلومیٹر دور سنت کبیر نگر سے ایک ایسی خبر آئی جس نے سنگھ کے سنسکار کی قلعی کھول دی۔ وہاں پر  ضلعی  سطح  پر منصوبہ بندی کے لیے ایک  میٹنگ  بلائی۔  دوران گفتگو بی جے پی رکن پارلیمان پنڈت  شرد ترپاٹھی اور رکن اسمبلی راکیش سنگھ  بگھیل کے درمیان چپقلش ہوگئی  اور ترپاٹھی جی کا  براہمن خون جوش مار گیا۔ انہوں نے آو دیکھا نہ تاو  اپنے پیروں سے جوتا نکال کر پسماندہ ذات کے راکیش سنگھ پربرسانا شروع کر دیا۔ بگھیل کے ہمنواوں نے  اس کی  ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل  کردی۔ اس  خونخوار لڑائی کی وجہ  صرف یہ تھی کہ مہنداول علاقہ میں سڑک کی تعمیر کے بعد لگائی جانے والی  تختی میں رکن پارلیمان کا نام موجود نہیں تھا۔ اس ہنگامہ کے بعد رکن اسمبلی اپنے حامیوں کے ساتھ پولس اسٹیشن پہنچے اور ترپاٹھی جی  کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مگر پنڈت جی  نے اسے  ’عمل کا رد عمل‘  کہہ کر جائز ٹھہرادیا۔    یہ نشست چونکہ بوتھ مضبوط کرنے کے لیے رکھی گئی تھی اس لیےشرد ترپاٹھی نے بوٹ لہرا کر   اپنے بوتھ کی  مضبوطی کا ثبوت دیا۔ اس صورتحال پر اکبر آلہ بادی کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے ؎

بوتھ بھاجپ نے بنایا،  میں نے اک بھاشن کیا

ملک میں بھاشن نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔