تحریر : تلوین سنگھ ترجمہ : عـبـدالـعـزیز
کالم نویس تلوین سنگھ اورسابق وزیرخزانہ پی۔ چدمبرم کامضمون تقریباًہرہفتہ انگریزی روزنامہ انڈین اکسپریس کے صفحہ 11پراتوارکے دن شائع ہوتاہے ۔تلوین سنگھ پہلے مودی کی بھگت تھیں اوران کے لئے رطب اللسان رہتی تھیں مگرکچھ دنوں سے وہ مودی اوران کے پریوارکی مجرمانہ حرکتوں سے سخت نالاں ہیں۔ آج 7؍مئی 2017ء کے شمارے میں مضمون شائع ہواہے جوماڈرن یامڈر(جدیدیت یاسفاکیت)؟کے عنوان سے چھپاہے۔وہ رقمطرازہیں :
آج کل ایک لطیفہ سوشل میڈیامیں چھایاہواہے وہ کچھ اس طرح ہے’’میرے پیارے پاکستانیو! ہم لوگ بحیثیت ایک قوم کے اپنے فوج کی شہادت یاقتل سے بے فکرہیں کیونکہ انہیں مرنے کے لئے تنخواہیںدی جاتی ہیں لیکن اگربہادراورشجاعت مندہوتوہماری گائے ماتاکوچھوکریامارکردیکھوتوتمہیں مزہ چکھاتے ہیں۔‘‘
آگے وہ لکھتی ہیںکہ میں اس لطیفہ سے یہ بات بتاناچاہتی ہوں کہ میری قوم اورمیراملک دنیاکے باقی ملکوں کے لئے تمسخراورمذاق بن گیاہے کیونکہ گائے کے نام نہادمتوالوں اورنگہبانوں کے تشددواربربریت کی وجہ سے اب یہ بہت ہوچکاہے۔ اے ہندوجنونیو!اسے بندکرواگرتمہیں بھارت ماتاسے ذرابھی پیاراورمحبت ہے۔ میری سمجھ سے یہ بات بالاترہے کہ وہ وزیراعظم جوماڈرن ، ڈیجیٹل اورفلاحی ریاست کی بات کررہاہے وہ کس طرح ان گائے کے جنونیوں کی قتل وغارت گری کاتماشہ بین بناہواہے ذرابھی نوٹس نہیںلے رہاہے گئوپرستوںاورملک کی ترقی پسندی اورجدیدیت سے کیامیل ہے ؟وزیراعظم کوملک کواونچائی تک پہنچانے کاسپناہے مگریہ جنونی جومسلمانوں پرظلم ڈھارہے ہیں ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیںمسلمانوں کے قاتل شکاری کارول اداکررہے ہیں ان پروزیراعظم نریندرمودی کامنہ کیوں بندہے ؟آخرکیاوجہ ہے؟
آخران کوسوچ بھارت(بھارت کی صفائی مہم) پرکیوں نہیں لگایاجارہاہے ؟ انہیں گاؤں اوربستیوں میں کیوں نہیں بھیجاجارہاہے ؟جہاں جاکرغریب بچوں کوپڑھائیں لکھائیں؟ یہ ترقی اورفلاح کے کاموںمیں آخرکیوں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں؟ گئوپرستی کاناٹک کیوں کھیل رہے ہیں ؟ذاتی طورپرمیں گائے کیلئے قومی مہم کے خلاف نہیں ہوںکہ گائے کی حفاظت اوررکھوالی ہولیکن یہ دیکھ کردل پھٹ جاتاہے کہ پامال اوربوڑھی گائیںکچڑے کے ڈھیرپرپلاسٹک کھاتی ہوئی نظرآرہی ہیں،میں اس کے حق میں ہوں کہ گائیوں کے لئے شہراورقصبہ میں پناہ گھرتعمیرکیاجائے جہاں ان کورکھنے کابندوبست ہومگرمیں ایسے ہندوؤںکوجیل بھیجنے کے حق میںہوں جواپنی گائیوں کوبوڑھی ارولاچارہوجانے پرسڑکوں پرچھوڑدیتے ہیں جواِدھراُدھرماری پھرتی ہیں، ایسے لوگوں کوبھی جیل میں بھیجنے کے حق میں ہوںجوایسے بیلوں کوجوکھیت میں چارہ کھاتے ہیں توان پرایسڈ(Acid) پھینک دیاجاتاہے ۔ مگرمیں ہرگزایسے گائے پرست پاگلوں کی موافقت نہیں کرسکتی جوانسانوں کے خون کے پیاسے ہیں ۔ گائے پرستی اورلوجہادکاتماشاکرتے نظرآرہے ہیں۔ایسالگتاہے کہ وزیراعظم ان گائے پرستوں کے جبروظلم پردھیان نہیں دے رہے ہیں جوپورے ملک میں فسادبرپاکئے ہوں ۔
ابھی بلندشہرمیں ایک عمردرازشخص غلام محمد(55) کومحض اس لئے مارڈالاگیاکہ اس پرشبہ تھاکہ ایک ہندولڑکی کے ساتھ ایک مسلمان لڑکے کوبھگانے میں مددکی تھی۔ کہاجاتاہے کہ یہ یوگی کی ہندویوباباہنی کے لوگ تھے ۔یہ انتہائی بزدلانہ اوراحمقانہ قدم ہے اس کی جس قدرمذمت کی جائے کم ہے ۔ میں نے اپنے ٹوئٹرپرجب اس کی سخت لفظوں میں مذمت کی تومجھے دھمکیوں سے نوازاگیااورکہاگیاکہ آرایس ایس یاسنگھ پریوارکے خلاف کچھ لکھااورکہاگیاتواچھانہیں ہوگاتم کہاں تھی ؟جب کیرل میں کمیونسٹ عناصرآرایس ایس کے لوگوں قتل کررہے تھے اس وقت تمہاری آوازکیوں بندتھی تمہاراقلم کیوں خاموش تھا؟مجھے اس پرزیادہ تشویش اورخوف ہے کہ یہ گائے پرستوں کاہندوہونے پرفخریہ اندازاورمسلمانوں کوتلاش تلاش کرکے شک وشبہات میں ان کی پٹائی کرنااورقتل کردینایہ سب لوگ جوقتل وغارت گری میں ملوث ہیں ان کاآر ایس ایس سے براہ راست تعلق ہے یاآرایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ ہیں ۔ ان سب کومیں اچھی طرح سے پہچانتی ہوںاس وقت سے جب میں ان کالموں میں لکھتی تھی اوروہ ناپسندکرتے تھے۔
میں ہندتوکی بربریت پرتوجہ اس لئے مبذول کراناچاہتی ہوںکہ یہ لوگ صرف نام نہادقوم پرست ہی نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں اورمسلمانوں سے شدیدنفرت اورکدورت کامظاہرہ کرتے ہیں ۔ آخرکیاوجہ ہے کہ یہ گروہ کی شکل میں اپنے گھروں اورمحلوں سے نکلتے ہیں مسلمانوں کوشک وشبہ میں پیٹتے اورمارتے ہیںاورقتل تک کردیتے ہیں ، یہ صحیح ہے کہ تیس سال میں کوئی بڑافسادنہیں ہوامگریہ ایک نئے قسم کافسادہے جونفرت کاآتش فشاں ہے جوملک وقوم کوتباہ وبربادکرکے رکھ دے گا۔ بی جے پی کے لوگ حیلے اوربہانے کے طورپرکہتے ہیں کہ یہ ان کے لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جوسیکولرپارٹیوں سے ان کے خاندان میں یاپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔اسے تسلیم کرنامشکل ہے کیونکہ اپوزیشن پارٹیوں کوتولالے پڑے ہیں وہ یونہی شکست خوردہ ہیں۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔