ایک اور ستیہ گرہ

محمد شمشاد

  وہ گھر سے نکل کر سیدھے گاندھی چوک جا پہنچی اور گاندھی کے پیروں پر اپنا سر ٹیک کر باپو کو پکار اٹھی ’’باپو! کیا تونے اسی لیے لوگوں کو ستیہ اور اہنسا کا سبق سکھایاتھا؟ کیا تونے اسی دن کے لیے اپنے دیش کو آزاد کرایا تھا؟ اٹھ اور دیکھ اپنی آنکھوں سے اپنے ان دیش واسیو ں اور بھگتوں کو، وہ کیا کر رہے ہیں ؟ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ ہر طرف ظلم ہی ظلم ہے چاروں طرف زنا، ہنسا، لوٹ مار ،جھوٹ اور نہ جانے کن کن جرائم کا دورہ دورہ ہے اٹھ باپو اٹھ! جا ان دیش واسیوں کے درمیان، پھر سے اپنا سبق دوہرا اور …… اور وہ رونے لگی تو ہار گیا باپو اور میرا بیٹا جیت گیا وہ جیت گیا، اور باپو کے پیروں پر اپنا سر ٹیک کر اس نے دم توڑ دیا۔

       اس کا بیٹا صادق تھا ہی سر پھرا نوجوان ،یا یوں کہیے کہ اس کے نام کااس پر بھرپور اثر پڑا تھا ویسے اس کی بچپن کی زندگی غربت میں گزاری تھی باپ جوانی میں ہی خدا کو پیارا ہو گیا تھا جب وہ صرف چار پانچ سال کا تھا۔ باپ کے موت کے بعد دادا اور پھر چچا کے سہارے اسے جینا پڑا تھا ماں چاہتی تو وہ بھی اسے چھوڑ کر اپنا نیا گھر بسا سکتی تھی لیکن گود میں صادق جیسے پھول کو دیکھ کر اسکے سارے ارمان کافور ہو گئے تھے اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جیسے بھی ہو وہ اس بچے کے لیے اس در کو کبھی بھی نہیں ٹھکرائے گی اوراس دو ٹکرے کے سہارے ہی اسی چوکھٹ پر اپنی پوری زندگی گزار دیگی حالانکہ اس نے یہ فیصلہ کسی مجبوری میں نہیں کیا تھا بلکہ سماج والوں اور خصوصاً صادق کے دادا نے اسے بارہا عقد ثا نی کرنے کے لیے زور دیا تھا وہ چاہتے تھے کہ ایک بیٹی کی طرح اس کی ڈولی بھی اس گھر سے نکلے لیکن وہ صادق کا واسطہ دے کر سب کو چپ کر دیا کرتی تھی اسکے چند ہی سالوں بعد اسکے دادا کی بھی موت ہو گئی۔

 اس حادثہ کے بعد صادق کے چچا نے داداکے پورے جائداد پر قبضہ جما لیا تھا اور اس کی ماں کو ایک پھوٹی کوڑی بھی دینے کی زحمت نہیں کی تھی بلکہ سماجی رکھ رکھاؤ اور اپنی بدنامی کے ڈر سے ان ماں بیٹے کو صرف اتنی اجازت تھی کہ جب تک وہ چاہیں اس گھر میں زندگی بسر کر سکیں اور وہ انکے ٹکرے پر پلتے رہیں لیکن وہ کبھی بھی ان کی شاکی نہ ہوئی بہت کریدنے پر پس اتنا کہتی کہ جب خدا نے ہی میرے بچے کے لیے ایسا انصاف کیا ہے تو اسے مٹانے والی میں کون ہوتی ہوں ؟

صادق جب جوان ہوا تو ماں پر ڈھائے گئے ظلم و ستم اسے بار بار اکساتی رہیں دن رات ایک دایا کی طرح گھر اور باہر کے کام کاج،  گھر سے لیکر دالان کی صفائی،جانوروں کا سانی پانی، گھر کا چولہا چوکی، کپڑے کی صفائی، بچوں کا گوہ موت (پشاب، پخانہ) اور پھر گھر والوں چچا چچی کے ناز نخرے یہ تمام ذمہ داریاں اس کی ماں پر عاید تھیں اسکے باوجود ان ماں بیٹے کواس گھر مبں بھر پیٹ روکھی سوکھی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی اور اس پر اسکے چچا گھر باہر گاؤں والوں کے سامنے یہی ڈینگ ہانکتے کہ’’ اس سماج میں ایک دو فیصد ایسے لوگ ہیں جو گھر باہر سب جگہ ایک جیسا انصاف کرتے ہیں ۔دیکھو! میرے جیسا شاید ہی ایک دو ملیں گے جو بے سہارے بھائی کی بیوی اور بیٹے کو اپنی اولاد کے برابر سمجھتے ہو نگے دیکھو! میں کیا نہیں کرتا ہوں ان لوگوں کے ساتھ کوئی بھی کمی کی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا ہوں ‘‘۔

اس تکلیف زدہ زندگی میں بھی اس کی ماں نے صادق کی اچھی تربیت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی شاید اسی بنا پر اس نے اسے پڑھایا لکھایا تھا تاکہ وہ سماج کے نشیب و فراز کو پہچان سکے لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک اور غریبوں و مظلوموں کی مدد کر سکے جب وہ ماں کی گود میں بیٹھا ہوتا یا ماں کے ساتھ بستر پر سونے جاتا تو اس وقت وہ باپو کے آدرشوں کو دوہراتی رہتی ’’ستیہ کا ساتھ دینا ہی دھرم ہے ستیہ کی ہی ہمیشہ جیت ہوتی ہے ‘‘یہ سن کر صادق چونک جاتا اور ماں سے اسکے بارے میں پوچھتا’’ماں جی باپو کون ہیں ؟ میں بھی ان سے ملونگا‘‘ تو ماں جواب دیتی۔

 ’’باپو تو اب مر چکے ہیں لیکن ان کی آدرش اور کتابیں آج بھی زندہ و جاوید ہیں تم پڑھ لکھ کر جب جوان ہو جاؤ گے تو خود ہی ان کی ان کتابوں کو پڑھ کر سبق حاصل کروگے۔ ارے یہی باپو ہیں جنہوں نے بھارت کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا یہی وہ باپو ہیں جنہوں نے انگریزوں کی ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور اپنی جنتا کو اہنسا کا اپدیش دیا تھا انہیں نے جھوٹ بولنے سے منع کیا تھا جھوٹ ان سب جرائم کی جڑ ہے ان ظلم و ستم کے سامنے تو کبھی مت جھکنا بلکہ ان کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہو جانا چاہے وہ ظالم کتنے ہی مضبوط و متحد کیوں نہ ہوں شروع میں نہ سہی آخر میں ان کی ہار ہوگی اور تمہاری جیت……‘‘

 اس طرح اس کی ماں نے اہنسا پر مو دھرم، کا سبق دوہراتے دوہراتے صادق کو اہنسا کا دھرماتما بنا دیا تھا جیسے جیسے وہ جوان ہوتا گیا ویسے ویسے ا سکے کردار پر بھی پاپو کے ان اپدیشوں پر اس کا یقین اور بھی مستحکم ہو گیا تھا آخر کار اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ’’ وہ باپو کے بتائے ہوئے راستہ سے اپنا منہ کبھی نہیں موڑے گا۔ وہ باپو کا ترجمان بن کر زندگی بسر کریگا وہ اس دیش میں ظلم و ستم اور جرائم کے خاتمہ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا وہ جھوٹ نہیں بولیگا اسکے سامنے اگر کوئی ظلم کرتا نظر آئے گا تو وہ اس کا منہ توڑ جواب دے گا ‘‘اور اس طرح اسکے ذہن میں ایک اوصول مرتب ہو گیا تھا جسکے بنا پر وہ کبھی بھی کسی وقت کوئی شخص سے لڑ سکتا تھا اسکے سامنے مصلحت نام کی کوئی بھی چیز باقی نہیں تھی۔

 شروعات میں جب صادق نے اپنا مورچہ سنبھالا تو گاؤں والوں نے بہت حد تک اسے روکنے کی کوشش کی تھی کچھ لوگوں نے اسکے نتیجہ سے بھی آگاہ کیا تھا کہ ’’اس معاملہ میں سبھی لوگ تمہارا ساتھ چھوڑ دینگے یہاں تک وہ بھی جس پرظلم و ستم ڈھائے جائیں گے ایک ایک کر کے سبھی لوگ انکے شکار ہوتے رہیں گے اور وہ سب اپنی اپنی قسمتوں کا رونا روتے ہوئے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جائیں گے اور اسوقت تم اپنے آپٖکو تنہا محسوس کروگے بالکل تنہا‘‘ لیکن وہ ان سب باتوں سے بے پرواہ ہو کر آگے بڑھتا رہا، ہاں اسوقت گاؤں کے تمام لوگوں نے اسکا ساتھ چھوڑ دیا تھا اگر کسی نے اسکا ساتھ دیا تھا تو وہ صرف اس کی ماں ۔ وہی ایک ایسی عورت تھی جس نے کبھی بھی پیچھے موڑنے کا مشورہ نہیں دیا تھا وہی ایک تھی جو ہر بار کہتی کہ تو آگے بڑھ اور ان کا منہ نوچ ڈال تو کبھی پیچھے مت ہٹنا یہاں تک کہ تیری موت آجائے تو باپو کا سدھانت بن۔ آخر کا تیری جیت ہوگی تیری جیت ہوگی تیرے سوا کوئی بھی نہیں جیتے گا۔

  اور اس روز…… جب اسکے چچا گاؤں کے ایک ہریجن بچہ کو بے تحاشہ مار رہے تھے اسے دیکھ کر وہ آپے سے باہر آگیا بھیڑ کو چیرتا ہوا وہ آگے بڑھا اور چچا کے کلائی کو کستے ہوئے بولا ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ کو شرم نہیں آتی اس چھوٹے بچے کو مارتے ہوئے چھوڑیے اسے۔ یہ کیا غلطی کر سکتا ہے؟ یہ چھوٹا بچہ ہے کوئی ظالم نہیں اور اگر اسے مارنا ہی تھا تو جان سے مار دیتے‘‘ اور گاؤں والوں کو مخاطب کرتے ہوئے بولا ’’آپ لوگ یہ کیا تماشہ دیکھ رہے ہیں کیا کسی کے جسم میں ایک قطرہ بھی انسانی خون نہیں تھا؟ جو اسے آزاد کراسکے یہ ظلم سہنے سے اچھا ہوتا کہ آپ سب لوگ اپنی اپنی کلائیوں میں چوڑیاں پہن کر گھر میں جا کر بیٹھ جاتے اگر آپ لوگ اسی طرح ایک دوسرے کا منہ تکتے رہینگے تو ایک ایک کرکے سارے لوگ اس ستم کے شکار ہوتے رہیں گے کوئی نہیں بچے گا، کوئی بھی نہیں ‘‘اور اتنا کہتے ہوئے وہ اس بچے کو اپنے کاندھے پر اٹھا کر وہاں سے چل پڑا۔

 گاؤں میں یہ پہلا اتفاق تھا کہ جب کسی نے اس کے چچا کہ خلاف زبان لگائی ہو اسکے قبل اچھے اچھوں رئیس زادوں کو بھی ان کے خلاف نظر اٹھانے کی بات تو دور سامنے آنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی۔

  اور …… اور جب وہ گھر پہنچا تو وہاں ایک عجب کہرام مچا ہوا تھا چچا اس کی ماں کو گھر سے نکل جانے کا حکم صادر کر چکا تھا اوروہ  کہہ رہا تھا ’’تمھارا بیٹا ذلیل و خوار ہے آج اس نے بھرے مجمع میں مجھے ذلیل کیا ہے اور گاؤں والوں کو میرے خلاف اکسانے پر تلا ہوا ہے آج تک کسی کو میرے سامنے آنے کی ہمت تک نہیں ہوتی تھی اور وہ……وہ اسی تھالی میں چھید کرنے پر تلا ہوا ہے جس میں پل کر وہ جوان ہوا ہے اس میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی ضرور اسکے خون میں کوئی کمی ہے‘‘۔

  یہ سنتے ہی صادق کا خون کھول اٹھا اور آگے بڑھتے ہوئے بولا ’’آپ کے خون اور میرے خون میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ حرام کا مال کھاتے کھاتے اور ظلم کرتے کرتے آپ کاروواں روواں گندہ ہو چکا ہے‘‘ اور یہ کہتے ہوئے وہ چچا پر شیر کی طرح کود پڑا اسی درمیان اس کی ماں زور سے آواز لگاتے ہوئے بولی۔

  ’’مار بیٹا مار ۔دل بھر کر مار یہ ظالم ہے اسے ظلم کرنے کا نشہ سوار ہوچکاہے اسے خوب مار اس وقت تک مار جب تک یہ معافی نہ مانگ لے‘‘ اور صادق اس پر طمانچوں اور ہاتھوں کی بارش کیے جا رہا تھا یکایک اس کی چچی اسکے پاس آئی اور اسکے پیٹ میں چھورا گھونپ (پیوست) دیا اور وہ زمین پر گر گیا صادق کے زمین پر گرتے ہی اس کا چچا زمین سے اٹھا اور اسکے پیٹ سے چھورا نکال کر اسکے جسم پر کئی اور وار کر دیا۔

 اور ……اور وہ زمین پر نڈھال پڑا تھا اس وقت اس کی زبان سے صرف یہی آواز نکل رہی تھی ’’کیا میں جھوٹ بولتا مجھ سے ایسا نہیں ہوگا باپو۔ باپو مجھ سے ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اے خدا مجھے معاف کر مجھے معاف کر۔

تبصرے بند ہیں۔