مولانا عامر رشادی صاحب، آپ کی قربانیوں کو کون فراموش کر سکتاہے؟

ذاکر حسین

مکری !مسلمانوں کا المیہ ہیکہ مسلم قوم کو ہر اس شخص میں آراایس ایس اور بی جے پی کے ایجنٹ کا ہیولا نظر آنے لگتا ہے جو قوم کے مسائل کے حل کیلئے قوم کی صفوں سے نکل کر قوم دشمن عناصر سے لوہا لینے کی جرائت کرتاہے ۔ہم سب غور کریں بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے وقت مسلمانوں نے اپنے اوپر بے بنیاد الزام اور ظلم کی بیخ کنی کیلئے تمام نام نہاد سیکولر جماعتوں کے لیڈران کو آواز دی لیکن جواب میں صرف ایک گہرا سکوت۔جب  اہلِ اعظم گڑھ پر ظلم و زیادتی نے شدت اختیار کی تواعظم گڑھ کا ایک ایساشخص مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف محاز پر ڈٹ گیا جس کا نہ تو سیاست سے کوئی واسطہ تھا اور نہ ہی اس شخص نے کبھی اعظم گڑھ کی عوام سے کسی قسم کا فائدہ اٹھایا تھا ۔

جبکہ اعظم گڑھ کی عوام نے جن نام نہاد سیاسی لیڈران کو اپنے اوپر ظلم و زیادتی کی داستان سنائی اور اس ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا مطالبہ کیاانہوں نے عظم گڑھ کی عوام سے بے تحاشہ فائدہ اٹھایا ۔کیا یہ حقیقت نہیں ہیکہ اگر نام نہاد سیکولر لیڈران بٹلہ ہائوس کے وقت اعظم گڑھ کی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے تو کیا اعظم گڑھ کے علماء کو آگے آکر قوم کے مسائل کیلئے شور مچانا پڑتا۔صرف گزشتہ آٹھ سالوں میں سیاسی جماعتوں کا مسلمانوں کے تئیں برتائو پر نظر ڈالیں ۔

کب اور کس موڑ پر ان سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے ؟ شایدکسی بھی موڑ پر نہیں ۔مسلمانوں کو زخم لگے ، مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ، مسلمانوں کی عزت و عصمت لوٹی گئی ، مسلمانوں کے آشیانوں کو نذرِ آتش کیا گیا ، کشی نگر میں مسلم نوجوان لڑکیوں کے شدت پسند تنظیم کے کارکنان کے ذریعے اغوا اور عصمت دری اورجبراً شادی کی گئی ، مسلمانوں کو ریزروزیشن سے محروم کیا گیا ،مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھنسا کر گھر کے گھر تباہ و برباد کر دئیے گئے۔ کیاکبھی کانگریس ، سماجوادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اس ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی ، نہیں ہر گز نہیں ،جب جب مسلمانوں کے جسم اور روح زخمی ہوئے تب تب مسلمانوں کے اپنے رہنمابالخصوص اعظم گڑھ کا یہی مردِمجاہد اور بہادر انسان کے لہو نے انگڑائی لی اور نکل پڑا اپنے آشیانے سے بغیر کسی فکر ، بغیر کسی خوف کے ۔ اب آپ خود بتایئے ہم کیسے حمایت کریں ؟

ان نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کی ۔ماضی کی راہ میں دور کی مسافت طے کرنے کے بجائے نزدیک کی مسافت طے کیجئے اور یاد کیجئے ۔لکھنئوانکائونٹر کو جس میں یوپی پولس نے سیفﷲنامی نوجوان کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر ڈالا ۔ اس انکائونٹر کے خلاف کس نے آواز بلند کی ؟ حالانکہ وہیں لکھنئو میں ملائم سنگھ یادو ، اکھیلش یادو، مایاوتی ،اور دیگر مسلم ہمدرد موجود تھے ، کیوں ں نہیں گئے سیف اﷲکے اہلِ خانہ کے زخموں پر مرہم رکھنے ۔بتایا جاتا ہیکہ جب لکھنئو انکائونٹر ہواتو مولانا عامر رشاد ی ٹائفائڈ بخار میں مبتلا تھے ۔

لیکن انہوں نے اعظم گڑھ سے سیف اﷲ کے گھر تک سفر کیااور مرحوم کے والد کو انصاف دلانے کا وعدہ کیا۔حالانکہ اس کے بعد سے مولانا کو گرفتار کرنے کی کوشش اور میڈیانے عامر رشادی کو’ آتنکی مولانا ‘تک کہا۔ بتا دیں کہ اب تک مولانا پر تقریباً 200سے اوپر فوجداری کے مقدمات ہیں ۔لکھنئو انکائونٹر کے خلاف تو بہت لوگ آواز بلند کر سکتے تھے ۔ لیکن برے وقت میں مولانا عامر رشادی ہی کیوں عوام کی حمایت میں آتے ہیں ۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔