پاکستانی عدلیہ نے تاریخ رقم کردی 

نہال صغیر

پاکستانی عدلیہ نے تاریخ رقم کردی ۔ اس معاملہ پر گفتگو شروع کرنے سے قبل ہی اگر پاکستانی عوام کو اس بات کیلئے مبارکباد پیش کی جائے تو کوئی برائی نہیں کہ وہ ایک ایسے خطے میں ہیں جہاں عدلیہ کافی حوصلہ مندی کے ساتھ ملک کے سب باوقار اور طاقتور عہدہ پر بیٹھے شخص کے خلاف فیصلہ سناتی ہے کہ وہ بدعنوان ہے اور اس عہدہ کے قابل نہیں ہے یعنی وہ نا اہل ہے۔ یقیناًیہ پاکستانیوں کیلئے ایک خوشگواریت کے کئی پہلو رکھتا ہے ۔ یہ تو عدلیہ کی آزادی اور اس کی جرات مندی کی ایک تازہ مثال ہے۔ ہمارے سامنے پاکستان پریس بھی بہت حد تک آزاد ہے اور اس نے کسی دباؤ کو کبھی خاطر میں لانے کے بارے میں نہیں سوچابقول سدارتھ ورداراجن پاکستانی صحافی کافی حوصلے والے ہیں۔

’پاکستان پریس فاؤنڈیشن ‘ذرائع ابلاغ اور اس کے کام کاج کے ساتھ ہی اس سے تعلق رکھنے والے افراد کی سلامتی کو درپیش مسائل و مشکلات پر نظر رکھنے والا ایک غیر سرکاری ادارہ ہے ۔ اس نے اپنی تازہ رپورٹ کے شروع میں ہی لکھا ہے ’گزشتہ دہائی میں پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے کردار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور خاصی تبدیلی بھی رونما ہوئی ہے ۔گوکہ پچھلے چند سالوں میں کافی مخالفت ہوئی ہے لیکن پاکستان ایک زندہ دل ، آزاد اور بڑی حد تک شفاف ذرائع ابلاغ کا لطف اٹھا رہا ہے‘۔ یعنی پاکستان میں میڈیا آزاد ہی نہیں بلکہ شفافیت کا مظہر بھی ہے۔ کم و بیش یہی حالت یا اس سے بہتر پوزیشن میں وہاں کی عدلیہ ہے ۔ جہاں کی عدالت عظمیٰ نے ابھی پناما لیکس معاملہ میں نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا اور انہیں اپنی وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑنی پڑی۔

پناما لیکس وکی لیکس کے بعد دنیا کے کئی ممالک کے بدعنوان سیاست دانوں اور بیوروکریٹ کا کچا چٹھا ہے ۔ پناما پیپر میں صرف پاکستانی سیاست دانوں کے ہی نہیں کئی ہندوستانیوں کے نام بھی ہیں لیکن اس تعلق سے اب تک یہاں کسی سراغ کسی ہلچل کی کوئی خبر نہیں ۔ سدھارتھ ورداراجن کہتے ہیں اس معاملے میں تو کم از کم پاکستان سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ حالانکہ پاکستان میں کچھ بہتر ہے یہ سننا پسند نہیں کرتے لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ انہوں نے ایک مثال قائم کی ہے ۔ وہ ایک درجہ ہم سے اوپر چڑھ گئے ہیں ۔ حالانکہ بدعنوانی کے معاملات میں یہاں کافی شور غل مچا ہوا ہے۔ ہنگامہ اتنا تیز ہے کہ وہ محاورہ بولنا پڑتا ہے کہ کانوں پڑی آواز سننے کو نہیں ملتی۔ لیکن یہ سب محض دکھاوا ہے۔ شاید عوام بھی اس کے لئے زیادہ بیدار نہیں ہے۔

پاکستانی عوام نے سپریم کورٹ تک جاکر اپنی بیداری کا ثبوت فراہم کیا ۔ لیکن ہمارے یہاں تو سپریم کورٹ نے ہی پناما پیپر معاملہ میں انکوائری کی بھی اجازت نہیں دی ۔ عوام کو بھی شاید اس کی ضرورت نہیں یا انہیں اس کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کیلئے فرصت ہی نہیں ہے کیوں کہ وہ فی الحال گائے اور بیف یا پھر مندر مسجد کے جھگڑوں اور لو جہاد جیسے اہم معاملات میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ان کے سامنے نریندر مودی ایک کرشماتی شخصیت ہیں جو ہندوستان کو ثریا کی بلندی پر لیجانے کی قوت رکھتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ساڑھے تین سال میں سوائے اعلانات اور سلوگن کے کوئی اور کام ہوتا نظر نہیں آیا ۔ اگر کچھ ہوا ہے تو عوام کا بھرکس نکالنے والے کرنسی منسوخی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلے ۔ جس کی قیمت ملک ادا کررہا ہے اور نا جانے کب تک ادا کرتا رہے گا۔

بدعنوانی کیخلاف مرن برت کا ڈرامہ رچنے والے انا ہزارے بھی نہ جانے کہاں کھوئے ہوئے ہیں ۔ وہ تو بدعنوانی کے خلاف جنگ کے وہ سپاہی مانے جاتے تھے جو کہ ساری دنیا میں اکیلا ہے ۔ لیکن وہ بولے اور بہت بولے لیکن پناما پیپر جیسے معاملات میں ان کی کوئی آواز نہیں آئی ۔ پتہ نہیں انہیں اس بلا کے بارے میں جانکاری بھی ہے کہ نہیں یا ان کی بدعنوانی کیخلاف اسی حد تک پہنچ ہے کہ ایک ایک قانون بن جائے جس پر کبھی عمل نہ ہو اور ایک عدد اس کا ذمہ دار چن لیا جائے جو کبھی کام نہ کرے ۔ ایسالگتا ہے مرکز میں یو پی اے کی حکومت ختم کرواکر اور این ڈی اے کی حکومت بنوا نے تک ہی ان کی دلچسپی تھی ۔ گویا وہ ایک خاص گروہ کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف جنگ کے نام پر پلانٹ کئے گئے تھے اور اب ان کا کام ختم یاشاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ اب بدعنوانی کا یہاں گزر ممکن نہیں جیسا کہ ان دنوں مودی صاحب پیش کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ بہار میں نتیش کمار کا عظیم اتحاد سے ناطہ توڑ کر وزیر اعلیٰ کی کرسی سے استعفیٰ دینے پر مودی جی نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’’بدعنوانی کی جنگ میں شامل ہونے پر مبارکباد ‘‘۔

ہمیں کسی ایک شخصیت یا کسی ایک پارٹی کو نشانہ بنانے کا شوق نہیں اور نہ ہی ہم اس کے قائل ہیں کہ کسی کی بیجا حمایت یا مخالفت کی جائے لیکن جب خامی ہی خامی نظر آئے بہتری کی کوئی سبیل نہ نکلے تو تنقید کرنا ہی پڑتی ہے ۔ موجودہ حکومت بدعنوانی کے خلاف جنگ کا ڈھول تو پیٹتی ہے لیکن اس میں یا تو وہ سنجیدہ نہیں ہے یا عوام کو گمراہ کرنے میں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ موجودہ حکومت اور اس کی پارٹی کی ریاستی حکومتوں میں کئی بدعنوانی کے معاملات ہوئے ہیں ۔ جس میں مدھیہ پردیش کی تعلیمی بدعنوانی سب سے اوپر ہے ۔ کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں ان کی حکومت پر بدعنوانی کے داغ نہیں لگے ہوں لیکن جب یہ کوئی انکوائری اور کوئی کارروائی ہی نہ کریں تو گرفتاری کس کی ہوگی۔

ہمیں عددی ، قوت ، دفاعی اور مالی برتری کے احساس تفاخر سے باہر نکل کر قدرے کمزور ، ناکام اور دہشت گرد ریاست پاکستان سے آنے والی خبر جو کہ پہلی ہے اور نہ ہی آخری ، پر دھیان دینا ہی ہوگا کہ ایک کمزور ، ناکام اور دہشت گرد ریاست کی عدلیہ اسقدر جرات مندانہ قدم اٹھا سکتی ہے تو ہماری عدلیہ کیوں نہیں ۔ ہم اپنی عدلیہ کو اتنا آزاد کیوں نہیں بنا سکتے کہ اسے کسی معاملہ کو اس لئے التوا میں ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے کہ اس کا یہ فیصلہ ان لوگوں کے خلاف جائے گا جو کہ بہت طاقتور اور اقتدار میں ہیں ۔ ہاں ہم بدعنوانی کے معاملہ میں صرف اس وقت قدم اٹھائیں گے جب اس سے ہمیں حزب اختلاف کو نشانہ بنانا ہو یا اپنا مفاد عزیز ہو ۔ ملک کا مفاد تو شاید ہم نے کہیں دور رکھ چھوڑا ہے ۔ اس سے ہمیں کیا مطلب ۔ حالیہ بہار کا معاملہ ہی لے لیا جائے تو اس میں سیاسی انتقام کے علاوہ اور کیا ہے ۔ ورنہ مبارکباد دینے والے کا وزیر اعلیٰ کئی فسادات اور اقدام قتل کے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور اس کے خلاف کئی تھانوں میں ایف آئی آر درج ہیں۔

لالو پرشاد کے خاندان پر جو الزامات ہیں اس سے سنگین الزمات نتیش اور ان کے نئے دوست سشیل مودی پر ہیں لیکن نتیش کی نوٹنکی دیکھئے کہ انہوں برسوں قبل درج ایف آئی آر کو دیکھ کر انجان بننے کا ڈرامہ اور دو دن قبل کے ایف آئی آر پر ہنگامہ آرائی اور اپنی ایمانداری کا پرشور اعلان ۔ پچھلی یو پی اے حکومت میں تو اتنی اخلاقی جرات تھی کہ اس نے اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف انکوائری کروائی اور انہیں جیل جانا پڑا لیکن موجودہ حکومت تو باتوں اور میڈیا منیجمنٹ کی اتنی ماہر ہے کہ چوری بھی اور سینہ زوری بھی اس کا وطیرہ بنتا جارہا ہے ۔ کاش ہم بھی پاکستانی عدلیہ کی طرح کوئی مثال پیش کرسکتے ! ایسے بہترین مثال کیلئے بابری مسجد کا مقدمہ ہی بہت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔