ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار 

عبدالباری شفیق السلفی

ہمارا ملک ہندوستان ایک آزاد اور سیکولر ملک ہے یہاں تمام ادیان ومذاہب کےمتبعین وپیروکاروں کو اپنی بات کہنے، سننے، پھیلانے اور اپنی شریعت کے احکام وفرامین پر عمل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ ملک 15؍اگست 1947 کو انگریزوں کے شکنجوں اور ظلم واستبداد سے آزاد ہو ا،اس میں اہل وطن اور خصوصا مسلمانوں کوکثیر تعداد میں اپنے جان ومال کا نذرانہ پیش کرنا پڑاہے۔ مسلمانوں نے آزادی کی خاطر انگریزوں کے خلاف تحریکیں چلائیں، پھانسی کے پھندے پر لٹکائے گئے اور کالا پانی کی خوفناک وہیبت ناک سزائیں برداشت کیں۔ غرضیکہ ہر طرح کی مصیبتیں اور اذیتیں برداشت کرنے باوجود بھی ان کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی اوروہ بخوشی اپنےمنزل کی طرف رواں دواں رہے۔

دراصل 1947کی آزادی سے پہلے یہ ملک انگریزوں کے ظلم واستبداد کا شکار تھا وہ انگریز جو اس ملک میں ۱۶۰۰؁ء میں تجارت کی  خاطرداخل ہوئے تھے، آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی سیاسی چالوں، عیاری ومکاری اور دھوکہ وفراڈ کے ذریعہ مسلمانوں کوسکشت فاش دے کرسونے کی چڑیا کہے جانے والے اس ملک کے کرسی اقتدار پراپنا تسلط قائم کرلیاتھااور قابض ہونے کے فورا بعد ہی سے ہندوستانیوں اور خصوصا مسلمانوں کو اپنےظلم وستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا یہاں تک کہ مسلمانوں کا اس ملک میں جینا دوبھر ہوگیاتھا۔ چنانچہ اس وقت مسلمانوں نے ملک کے حالات اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے انفرادی واجتماعی طور پر انگریزوں کے خلاف تحریکیں چلائیں، ان کے ظلم وستم اور سیاسی چالبازیوں کواپنی تقریروں وتحریروں کے ذریعہ عوام الناس کے سامنے طشت ازبام کیا، علمائے کرام نے خصوصی طور پراس تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااورعوام میں آزادی کی روح پھونکی۔ اس تحریک میں جماعت اہلحدیث کے مایہ ناز سپوت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م 1762) کو اولین مقام حاصل ہے جنہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور درس وتدریس کے ذریعہ علماء اور عوام کی ایک ایسی جماعت تیار کی جنہوں نے اس ملک کی آزادی کی لئے اپنے جان ومال کو قربان کرنے کا فیصلہ کیااور آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز ؒ(م 1824) نے اپنے فتویٰ کے ذریعہ اس ملک کو دارالحرب قراردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک کا اتنا اثر ہوا کہ مختلف گروہوں اور ٹولیوں میں بٹے ہوئے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر انگریزی حکومت کے خلاف متحدہ محاذ چھیڑدیا۔

اس کے بعد اس تحریک کو مزید تقویت ملی اور اس تحریک میں شاہ عبدالحئی، شاہ اسماعیل شہید اور شاہ اسحاق رحمھم اللہ جیسے مایہ ناز اہل علم شامل ہوئے اور اس تحریک کو منظم ومستحکم بناکر انگریزوں کے خلاف ببانگ دہل جہاد کا علم بلند کیا۔ اسی طرح 1831 میں سید احمد شہید شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے بالا کوٹ کے میدان میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ وطن عزیز کو آزادکرانےکے لئے فرنگیوں اور ان کے اتحادی سکھوں کے خلاف جہاد میں شرکت فرماکر جام شہادت نوش کیا۔ اس طرح یہ تحریک اپنے منزل کی طرف رواں دواں رہی اور علمائے امت کا ایک عظیم قافلہ اس تحریک میں شامل ہوتارہا۔ ایک طرف جہاں پورے ملک کے باشندے اس تحریک میں شریک ہوتے رہے وہیں دوسری طرف علمائے صادق پور،پٹنہ کا اس تحریک اور جہاد میں ایک قائدانہ کرادار رہاہے مولانا ولایت علی عظیم آبادی ( م 1852) اور ان کے بھائی مولانا عنایت علی عظیم آبادی (م 1858) نے اس تحریک کو اپنے خون جگر سے سینچا اور مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی روح پھونکی۔

تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک کو آزاد کرانے میں اپنے جان ومال اور اعزہ واقارب کی قربانیاں پیش کیں ہیں اور علمائے اہلحدیث نے خاص طورپر آزادی کی تحریک چلانے میں پیش پیش رہے ہیں، غرضیکہ 1857میں علماء کی ایک ایسی جماعت تیارہوئی جنہوں نے اپنے قلم وقرطاس اور خطبے ودروس سے عوام کے دلوں میں آزادی کی مزید روح پھونکی،ان کے جذبات کو جھنجھوڑا،انھیں اپنا مقام وحیثیت یاددلائی۔ خصوصا حادثہ بالاکوٹ کے بعد علمائے صادقپور نے اس تحریک میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہیں۔ جن کے بارے میں آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ’’ اگر پورے ہندوستانیوں کی قربانیوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں اورعلمائے صادقپور، پٹنہ کی قربانیوں کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو علمائے صادقپور کی قربانیاں بھاری پڑیں گی ‘‘۔ یہ شہادت کسی عام انسان کی نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم کی ہے جنہوں نے مسلمانوں کے خون کے ذریعہ سینچے گئے اس عظیم انقلاب اور آزادی کو دیکھا اور سنا تھا۔ نیز1857 اور اس سے پہلے سے لے کر 1947تک ملک کی کوئی بھی ایسی سیاسی تحریک وجماعت نہ تھی جس میں مسلمانوں اور علمائے امت نے حصہ نہ لیاہو،ان علماء کی ایک طویل فہرست ہے جن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، مولانا عبدالقادر قصوری،مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا عبیداللہ احرار،مناظر اسلام مولانا ابو الوفاءثناءاللہ امرتسری،مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی، مولانا ابو القاسم سیف بنارسی، مولانا ابو القاسم محمد علی مئوی،مولانا محمد نعمان مؤی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا محمد ادریس خان بدایونی، مولانا فضل الہٰی وزیر آبادی، شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد وغیرھم رحمھم اللہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

لیکن افسوس کہ ان عظیم قربانیوں اورجانفشانی کے باوجود ہمیں ملک میں امن وسکون سے رہنے کا حق نہیں دیا جارہاہے، بات بات پر دیار غیر میں جانے کی دھمکی دی جارہی ہے، انتہا پسند اور دہشت گرد جیسے گھنائونے القاب سے ملقب کیا جارہاہے، ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو فراموش کرکے اس پر بھگوا رنگ پوتا جارہا ہے، ہمارے خلاف مختلف قسم کی سازشیں کی جارہی ہیں، عدالتوں اورکچہریوں میں جانبدارانہ رویہ اختیارکیا جارہاہے، کبھی اذان تو کبھی قرآن مقدس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، کبھی مدارس ومساجد کو نشانہ بناکران کے خلاف ناپاک سازشیں اورمنظم تحریکیں چلائی جارہی ہیں اور ان مقدس مقامات کونعو ذباللہ دہشت گردوں کے اڈے قرار دیئے جارہے ہیں۔ اور جب سے ملک کے عظیم عہدوں خصوصا کرسی وزارت پر متعصب وتنگ نظریہ افراد کے حاملین براجمان ہوئے ہیں تب سےاس ملک میں مسلمانوں کا جینا اور دو بھر ہوگیا ہے، جنہوں نے اپنی نئی حکمت عملی اور سیاسی پالیسیوں کے ذریعہ مسلمانوں کے کردار کو مسخ کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔ ان کے اشتعال انگیز بیانات نے مساجد ومدارس اور مسلمانوں کے لئے مزیدخطرہ پیدا کردیاہے۔گذشتہ دنوں حکومت مہاراشٹراکی جانب سے ریاست کے مدارس اسلامیہ کے متعلق جو فیصلہ آیاہے اس پر پورا ہندوستان تقریباًیک زبان ہوگیاکہ یہ فیصلہ مدارس کے خلاف ہے۔ کہا جارہاہے کہ مدرسوں کا وجود ملک کی سا لمیت کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ وہاں دہشت گردوں کوپنا ہ دی جاتی ہے    او ران کی تربیت کا اہتمام کیا جاتاہے۔

مزید یہ کہ ان جگہوں میں جہاد کے لئے ذہن سازی کی جاتی ہے اور ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان جھوٹے اور شرمناک الزامات کے ٹھوس ثبوت تو کیا جزوی ثبوت بھی پیش نہیں کئے گئے۔ (اورانشاء اللہ قیامت تک نہ پیش کرسکیں گے)اس کے باوجود مختلف ذرائع ابلاغ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا سے مدرسوں کے خلاف شر انگیز مہم مسلسل جاری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں ان ہی مدارسِ اسلامیہ اور علمائے کرام کاکردار نمایاں تھااور ملک کو آزاد کرانے والے ان ہی مدارس کے پروردہ تھے۔لیکن افسوس کہ آج ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کی جارہی ہے مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی ریشنہ دوانیاں کی جارہی ہیں ہمیں پاکستان اور بنگلہ دیش جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جو کہ باغیرت اہل وطن کے لئے بہت ہی شرمناک اور توہین کی بات ہے۔

لہذا آج حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو پہچانیں، اسلاف کے کارناموں کو یاد کریں، اسلام کی روشن تعلیمات کو پوری دنیا میں عام کریں، سنگھیوں اور اغیار کے رخساروں پر تاریخ کے ان سنہرے واقعات وحادثات اور مجاہدین آزادی کی خدمات جلیلہ کے ذریعہ ان کے ذہن ودماغ کے دریچوں کو کھولیں اور انھیں بتائیں کہ یہ ملک جتنا تمہارا ہے اتنا ہی ہمارا بھی۔ اس ملک میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا اس ملک کی آزادی میں سب نے مل کر اپنے جان ومال، اعزہ واقارب اور آباء واجداد کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ یہ ملک سب کا ہے اور سب کا رہے گا اور اس ملک میں سب کو امن وسکون سے رہنے کا حق حاصل ہے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔