چوہوں کے دیس میں بلّی کا حج!

 عادل فراز

 ڈونالڈ ٹرمپ نے سرزمین وحی پر مسلمانوں کو امن و آشتی کا درس دیکر یہ واضح کردیا کہ جس اسلامی حکومت کا دعویٰ سعودی عرب کرتاہے وہ ڈھونگ ہے ۔ڈوب مرنے کی بات ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گردی کے بانی دہشت گردی سے لڑنے کے طریقے بتارہے ہیں ۔ظالم ظلم کے خلاف لیکچر دے رہے ہیں اورسعودی مسلمان مظلومیت کے ساتھ ظالموں کی لن ترانیاں سن رہے ہیں ۔اسرائیل اور امریکہ دہشت گردی کے خاتمہ کا منصوبہ تیارکررہے ہیں اور مسلمان اس منصوبہ پر عمل کرنے کے لئے کمربستہ ہیں ۔

50 ملکوں کے سربراہان سعودی عرب میں ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور تقریریوں سے فیض یاب ہونے کے لئے پہونچ رہے ہیں ۔اسلامی ملکوں پر ایسی خدا کی مار پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی کہ غلامی ٔ انگریز میں ہلاکو و چنگیز سے بھی بدتر نفسیاتی مریض کی قدم بوسی میں صفیں بندھی ہوئی ہیں ۔ڈونالڈ ٹرمپ اپنی اسلام دشمنی کے باوجود ایک اسلامی ملک میں مہمان نوازی کے مزے لوٹ رہاہے اور مسلمان بیچارے اپنی بیچارگی کا نوحہ بھی نہیں پڑھ سکتے ۔بلّی چوہوں کو حفاظت کے طریقے سمجھارہی ہے اور چوہے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں پہلا خطرہ تو آپ ہی سے ہے۔ایسی بیچارگی اور بے بسی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔آخر سعودی عرب امریکہ سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے ۔؟اس سوال کا جوب تاریخی تناظر میں دیا جائے تو بہت آسان ہے کیونکہ سعودی عرب یعنی سلفیت و تکفیریت امریکہ و اسرائیل کی مکروہ پالسیوں کا نتیجہ ہے اس لئے سعودی عرب کی پالیسی امریکہ و اسرائیل کے ایوانوں میں ترتیب پاتی ہے اور سعودی شاہزادوں میں اتنی جرآت نہیں ہے کہ وہ امریکہ سے منظور شدہ پالیسی کی مخالفت کرسکیں ۔

 امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ گیدڑ بھبکیاں دیکر دنیا کو خوفزدہ کرتارہاہے ۔ اپنی ایجنسیوں کی جھوٹی رپورٹوں کی بنیاد پر ایک ملک کو دوسرے ملک کے خلاف آمادۂ جنگ کرتاہے تاکہ اسکا اسلحہ بازار میں اچھی قیمت پر فروخت ہوسکے ۔دنیا کو جنگ کی بھٹی میں ڈھکیلنے کی ایک وجہ جدید اسلحہ کو بازار میں متعارف کرانا بھی ہے ۔ورنہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جدیدترین ٹیکنالوجی کے ہتھیار کہاں سے آتے ہیں ۔چونکہ دہشت گرد ی کا پورا منظر نامہ امریکہ و اسرائیل کے لوگوں نے تیار کیا ہے لہذا اس منظر نامہ پر پوری فلم کی عکس بندی بھی وہی کررہے ہیں ۔ دنیا اس فلم کے ہر منظر میں پیدا کئے گئے تھرلر،ٹریجڈی اورڈرامہ پر کبھی تالیاں بجاتی ہے اور کبھی تشوش میں مبتلا نظر آتی ہے ۔کبھی روتی ہے اور کبھی قہقہے لگاتی دکھائ دیتی ہے ۔مسلم ممالک کی حالت تو دنیا کے تمام ملکوں سے مختلف ہے ۔نا تووہ رو سکتے ہیں اور نہ ہنسنے کی سکت باقی ہے ۔وہ تو بس ایک زندہ لاش کی طرح اپنی آخری رسومات کے منتظر ہیں ۔

 سعودی عرب نے ٹرمپ کے دورہ سے کیا امیدیں وابستہ کررکھی ہیں یہ تو جلد ہی معلوم ہوجائے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کے دور ہ کی منظوری کے پس پردہ ایران دشمنی کارفرماہے۔سعودی عرب کی خوش گمانی ہے کہ اگر انکے تعلقات امریکہ کے ساتھ خوشگوار رہتے ہیں تو ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرانے میں اہم کردار ادا کرسکتاہے یا خطہ میں ایران کی سیاست کی کمر توڑی جاسکتی ہے ۔جبکہ دنیا جانتی ہے کہ ایران امریکہ کی گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہے ۔ایران اپنے فیصلوں اور اقدامات میں کسی بڑی طاقت کا محتاج نہیں ہے اور نا وہ کسی بڑی طاقت کے صدر و سکریٹری کو اپنے ملک میں دعوت دینے کا خواہش مند ہے ۔ایران وحدت اسلامی کا حامی ضرور ہے مگر وحدت اسلامی کے نام پر اسلام دشمنوں اور دہشت گردی کے بانیوں کے ساتھ ڈنر کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوگا ۔

سعودی عرب بھی ایران دشمنی میں اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا ہے ۔ریاض میں ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ دفاعی معاہدوں کا مقصد ایران کے ضرررساں اثرورسوخ کا مقابلہ کرناہے‘‘واضح کرتاہے کہ ٹرمپ کے سعودی عرب دورہ کا مقصد کیا ہے۔امریکہ اپنی تمام تر توانانیوں کوبروئے کار لانے کے باوجود اب تک ایران کواپنے قدموں پر جھکانا تو دوررتی بھر ڈرانے میں بھی ناکام رہاہے ۔لہذا سعودی عرب کی حمایت کرکے امریکہ ایران کے خلاف ایک ایسی طاقت کو کھڑا کرنا چاہتاہے جو خاتمہ کے قریب ہے ۔ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب کی ڈوبتی اقتصادی کشتی کے لئے کنارہ ثابت ہوسکتاہے،ایسا سعودی نواز تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے ۔شاید اسی لئے شاہ سلمان کی پوری ٹیم ٹرمپ کی اس طرح آئو بھگت کررہی ہے جیسے سرزمین وحی پر ٹرمپ کوئ الہی پیغام لیکر آئے ہوں ۔

ایسا نہ ہو کہ ٹرمپ کا یہ دورہ اور خفیہ معاہدوں پر کئے گئے دستخط سعودی عرب کی تباہی کاپیش خیمہ ثابت ہوں ۔اس دورہ میں ٹرمپ نے ریاض کے ساتھ100 بلین ڈالر کی مالیت سے زیادہ کے مختلف عسکری سمجھوتوں کو حتمی شکل دی ہے ۔کیا ریاض سے کوئ اسلامی ملک یہ سوال نہیں کریگا کہ اسلام دشمن طاقتوں سے عسکری معاہدہ کی کیا ضرورت درپیش تھی ؟ان معاہدوں کے تحت امریکہ سعودی عرب کو جو جدید اسلحہ فراہم کریگا اسکا استعمال کہاں اور کس ضرورت کے تحت کیا جائے گا ۔آیا یہ اسلحہ عراق،شام اور لبنان و بحرین میں بنام اسلام دہشت گردی کو فروغ دینے والی تنظیموں کو دیا جائے گا یا کسی نئ تنظیم کی بنیاد رکھی جائے گی ۔کیونکہ دنیا اب داعش کا نام سن سن کر تھک چکی ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ اب سعودی عرب امریکہ و اسرائیل سے باہمی صلاح و مشورہ کے بعد کسی نئ دہشت گرد تنظیم کو جنم دے ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سعودی عرب کی عسکری طاقت کو آنے والے وقت میں ایران کے خلاف استعمال کرے گا ۔

  ڈونالڈ ٹرمپ نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ’’شدت پسندی کے خلاف جنگ عقائد کے خلاف جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ’نیکی اور بدی‘ کی جنگ ہے‘‘۔ ظاہر ہے سعودی عرب بھی یہ تسلیم کرتاہے کہ خیروشر کی جنگ میں امریکہ کا اہم کردار رہاہے اور امریکہ شر کے خلاف جنگ میں ہمیشہ کمربستہ رہاہے ۔اس لئے شر کے خاتمہ کے لئے امریکہ سعودی عرب کی ہر ممکن تعاون کریگا ۔مگر ٹرمپ یہ واضح کرنے میں ناکام رہے کہ شر سے انکی مراد کونسی طاقتیں یا کون سے ملک ہیں ۔بہتر ہوگا کہ سعودی عرب یا سعودی نواز مولوی اس کی تشریح کریں کہ آخر حاجی ٹرمپ کی شر سے مراد کیا تھی ؟۔ٹرمپ کے مضحکہ خیز بیان سے زیادہ سعودی وزیر خارجہ کا بیان مضحکہ خیز ہے کہ ’’امریکہ اور مغرب، اسلامی دنیا کے دشمن نہیں ہیں ‘‘۔

سعودی وزیر خارجہ کو یہ بھی واضح کرنا چاہئے تھاکہ اگر مغرب اور ٹرمپ اسلامی دنیا کے دشمن نہیں ہیں تو پھر وہ کون دشمن ہیں جن سے مقابلہ کے لئے 200 ملین ڈالر کے عسکری معاہدے کئے گئے ہیں یا پھر یہ امریکہ کا فراہم کردہ تمام اسلحہ حوثی باغیوں کے خاتمہ پر استعمال کیا جائے گا۔سعود ی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنی تقریر میں یہ بھی واضح کردیا کہ اسلامی دنیا کو اصل خطرہ کن طاقتوں سے ہے ۔انکے مطابق’’ ‘اس دورے سے اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان عموماً اور امریکہ کے درمیان خصوصاً مکالمہ بدل جائے گا۔ یہ شدت پسندوں کو تنہا کر دے گا، چاہے وہ ایران ہو، دولتِ اسلامیہ ہو یا القاعدہ ہو، جو کہتے ہیں کہ مغرب ہمارا دشمن ہے‘‘۔

عادل الجبیر نے اپنے اس احمقانہ بیان کے ذریعہ ٹرمپ کے دورہ کی مقصدیت کو دنیا کے سامنے واضح کردیا ۔سعودی عرب اپنے شہریوں کی ترقی اورعالم اسلام کے پر آشوب حالات سے زیادہ ایران کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور خطہ میں اسکے اثرات سے خوفزدہ ہے لہذا سعودی عرب نےمغرب کی اسلام دشمنی اور ٹرمپ کے اسلام فوبیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایران دشمنی میں اسلام دشمنوں کے ساتھ ہاتھ ملالیا ہے ۔دیکھنا یہ ہوگا کہ ایران دشمنی سعودی عرب کو مزید کس مالیخولیا میں مبتلا کرتی ہے اور وہ دیگرکن اسلام دشمن طاقتوں کی گود میں پناہ تلاش کرتاہے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اب بھی سعودی نواز ملّا اور امریکی زرخرید مولوی سعودی عرب کی حقیقت سے نظریں چراتے نظر آرہے ہیں ۔بہتر ہوگا کہ ہم درپیش حالات پر غورکریں اور عالم اسلام کے دن بہ دن بد تر ہوتے حالات کو بہتر کرنے کا لائحۂ عمل ترتیب دیں ۔مگر شایدیہ ممکن نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. ندیم عبدالقدیر کہتے ہیں

    بھائی ، امریکہ سے ساری دنیا ڈرتی ہے ، روس اور چین بھی امریکہ سے خوف کھاتے ہیں۔ اتنی بڑی بڑی طاقت رکھنے والے ممالک جس سے خوف کھاتے ہیں اس سے سعودی لڑجائے ، اپنے ملک کو بھی افغانستان، عراق، شام ، لیبیا بنادے ؟

    جارجیا میں حال ہی میں ، امریکہ نے وارننگ دے دی تھی کہ اگر روس نے فوج پیچھے نہیں کی تو امریکہ حملہ کردے گا۔ روس نے چپ چاپ فوج پیچھے کرلی۔

    چین نے کہا تھا کہ جنوبی چین کے سمندر پر وہ کسی کی موجودگی برداشت نہیں کرے گا، یہ سننا تھا کہ امریکہ نے اپنا فوجی بحری بیڑہ جنوبی چین کے سمندر میں بھیج دیا اور چین سے کہا کہ مار کے دکھا دو، چین نے خاموشی اختیار کرلی۔ اب اس امریکہ سے سعودی لڑجائے ؟ واہ

    1. عادل فراز کہتے ہیں

      بھائ ندیم عبدالقدیر صاحب
      معلوم ہوتاہے کہ آپ قرآن کریم سے زیادہ آشنائ نہیں رکھتے۔آپ کے بقول سعودی عرب اس لئے اسلام دشمن ٹرمپ اور امریکہ کی غلامی کررہاہے تاکہ اسکے حالات شام و بحرین و لیبیا جیسے نہ ہوجائیں ۔یعنی آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ظالم سے ان شرائط کی بنیاد پر صلح کی جاسکتی ہے اور اسکے ساتھ شراب و شباب کے مزے لوٹے جاسکتے ہیذں اگر آپ حقائق سے واقف ہیں۔۔
      قرآن کہتاہے ’’ا
      اے ایمان والو ! تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہت راست نہیں دکھاتا ۔ المائدہ ( 51 )
      اب حدیث شریف ملاحظہ کریں بھی ملاحظہ کریں ’’عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:​

      ” جس كسى نے بھى كسى قوم كى مشابہت كى تو وہ انہى ميں سے ہے "​

      سنن ابو داود حديث نمبر ( 3512 )​کیا آل سعود یہودیت نوازی میں انہی کی طرح نہیں ہوگئے ؟؟؟
      پھر کچھ آیات ملاحظہ کریں’’وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ – آل عمران 140
      اللّه ظالموں کو پسند نہیں کرتا .
      اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ – البقرہ 190
      اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا”
      وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ – البقرہ 276
      اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدین – القصص 77
      اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا””
      اگر سعودی عرب اسلامی حکومت کا دعویٰ نہ کرتا تو نہ یہ مضمون لکھنے کی نوبت آتی اور نہ آپ سے اس قدر قرآن و حدیث کی روشنی میں جرح کرنی پڑتی ۔۔ میرے بھائ عبدالقدیر صاحب ،کیا آپ کو علم نہیں ہے کہ آل سعود اور آدھے سے زیادہ اسلامی ممالک اسرائیل و امریکہ کی غلامی قبول کرچکے ہیں ۔کیا آپ نے ہمفرے کی ڈائری نہیں پڑھی ۔ کیا آپ مسلم ممالک کے اندرونی حالت سے باخبر نہیں ؟؟ کیا آپ شاہزادوں کی عیاشیوں سے باخبر نہیں ؟؟؟اگر نہیں تو افسوس ہے ۔۔

      اگر سعودی عرب کو اسلام اور مسلمانوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو پھر وہ فلسطینیوں پر ہورہے ظلم و تشدد پر کیوں آواز نہیں اٹھاتا ۔۔آپ پھر فرار کا جواز پیش کرین گے کہ سعودی عرب اپنا تحفظ کرے یا فلسطینیوں کے حق کے لئے آواز اٹھائے ۔۔تو صاحب ہم ایسی نام نہاد اسلامی حکومت کو قطعی پسندنہیں کرسکتے جو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے کام کررہی ہو ۔۔جسے عالم اسلام کے حالات پر تشویش نہ ہو ۔رسول اسلام کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ،اگر کسی ایک عضو کو تکفلیف پہونچتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتاہے ۔۔کیا آپ سعودی عرب کو ایسا پاتے ہیں؟؟؟؟؟
      اگر تلخ کلامی ہوگئی ہو تومعذرت

تبصرے بند ہیں۔