ڈاکٹرناز قادری کی تنقیدی بصیرت

ڈاکٹر سید احمد قادری

ناز قادری نے تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی میدان میں فکری اور فنی محرکات اور ترجیحات کا جس طرح مظاہرہ کیا ہے اور معنویت اور انفرادیت کے جو نقوش پیش کئے ہیں، وہ کافی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی گرانقدر خدمات کا جس طرح اعتراف ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ بقول معروف صحافی اور شاعر حسن کمال:
’’گروہ بندی، جوڑ توڑ، من ترا حاجی بگویم اور اس قسم کے دوسرے سیاسی رجحانات آج ادب میں پوری طرح جلوہ گر نظرآتے ہیں۔‘‘
ایسے حالات میں ناز قادری جیسے مخلص اور ادب کے تئیں پوری طرح متحرک اور فعال لوگوں کو جو ایسے ہتھکنڈوں کی بجائے اپنے مطالعے کی گہرائی وگیرائی اور افکار واظہار پر یقین رکھتے ہوں، انہیں ظاہر ہے ناقدین اور تذکرہ نگاروں کی بے اعتنائی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔
ناز قادری نے اپنی تنقید اور تحقیق کے حوالے سے جن منطقی استدلال کو پیش کیا ہے، ان کی اہمیت وافادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ’’دریافت‘‘ اور ’’زاویے‘‘ ان کے دو تنقیدی مقالات کے مجموعے اور تیسری کتاب ’’اردو ناول کا سفر‘‘ ہے۔ یہ تینوں کتابیں ایسی ہیں جو عصری تنقید کی معنویت اورافادیت میں خاطر خواہ اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ناز قادری کی یہ اعلیٰ ظرفی ہے کہ ایسے معیاری اور شعور وبصیرت سے بھرپور تنقیدی وتحقیقی افکار واظہار کے باوجود وہ ناقدہونے پر اصرار نہیں کرتے اور اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ:
’’ میں نے اپنے تنقیدی شعوروبصیرت کا ادعا کبھی نہیں کیا اور نہ اپنے آپ کوناقد کہا، آج بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ زبان وادب کا طالب علم اور قاری کی حیثیت سے اپنے ادبی سفر کے دوران تنقیدات وتحقیقات کی پُرپیچ وخم دار اور خاردار وادیوں سے گزرتا رہا۔ مطالعۂ شعر وادب کے دوران میں کسی نظریہ کی رنگین عینک نہیں لگاتا، بلکہ راست مطالعہ اور تاثرات وخیالات کا برملا اظہار وبیان میرا شعار ہے، یہ اور بات ہے کہ میرا نقطۂ نظر کسی نہ کسی نظریے سے شعوری یا لاشعوری طور پر متصادم یاہم آہنگ ہوجائے۔ یہ مختلف تنقیدی مسالک کا تقاضا بھی ہے۔‘‘
(زاویے، صفحہ:6)
اپنے اس اعتراف میں ناز قادری نے اپنی تنقید وتحقیق کے تعلق سے اپنا نقطۂ نظر بھی واضح کردیا ہے۔ مطالعہ شعر وادب کے دوران کسی خاص نظریہ کی عینک نہیں لگانا اور اپنے مطالعات کے تاثرات وخیالات کا برملا اظہار وبیان کا شعار ہی ناز قادری کے تنقیدی افکار واظہار کو اہمیت اور انفرادیت بخشتا ہے۔
ناز قادری کے تقریباً تمام مقالات ان کے گہرے تنقیدی شعور وآگہی کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ بدلتے وقت کے تفکرات اور تغیرات کے اثرات کو قبول کرتے ہوئے اپنے افکار ونظریات کو جس خوش اسلوبی سے پیش کرتے ہیں وہ فہم وادراک کے وسیلہ سے تنقیدی اور تحقیقی مندرج طے کرتے ہیں، جس سے تحریر کی سلاست وروانی کے ساتھ ساتھ معنویت کے دروازے بھی کھلتے چلے جاتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے ناقدین ادب اپنے مطالعات کوا س قدر ثقیل اور بوجھل بنا دیتے ہیں کہ ان کے معنی ومطالب واضح نہیں ہوپاتے، لیکن ناز قادری کے تنقیدی اسلوب کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کا مطمحِ نظر بالکل واضح ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر وہاب اشرفی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ:
’’نقاد کو ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ کسی ادب کے بارے میں معنی ومفہوم کے علاوہ اظہار وبیان اور دوسرے لوازم کی توضیح کررہا ہے، لہذا زبان ایسی ہونی چاہئے جو تفصیلی بھی ہو اور زور دار بھی، زور دار کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ڈل نہ ہو۔‘‘
(ایوان اردو، دہلی، نومبر2012ء صفحہ:33)
اس تناظر میں ناز قادری کی تنقید کا یہ انداز دیکھئے:
’’انیسویں صدی عیسوی کے آخری نصف بہت سارے انقلابات کا حامل ہے۔ سیاسی انقلاب سے فکر ونظر کے تمام شعبوں میں انقلاب پیدا ہوا۔ زندگی اور سماج کے بارے میں نئے شعور کا پرتو اس دور کے ادبیات میں ملتا ہے۔ یہ نیا شعور اردو کی جدید شاعری کے ان معماروں کے یہاں ملتا ہے، جنھیں محمد حسین آزاد، حالی اور اسماعیل میرٹھی کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کی ڈالی ہوئی بنیاد پر دوسرے شاعروں نے عمارت اٹھائی، نقاشی اور صناعی سے اس عمارت کی دل کشی بڑھائی اور اسے آفاق میں محترم کہلانے کے قابل بنایا۔ بنیادی طور پر جدید اردو شاعری کے پہلے اکابر زعما یہی تینوں ہیں۔ مغربی ادب کا اثر ان کی مصلحانہ کوششوں میں نمایاں ہے۔‘‘
(زاویے، صفحہ:30)
ایسے خوبصورت اور بامعنی جملے ناز قادری کے تنقیدی شعور وادراک کے مظہر ہیں،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے تنقیدی افکار وخیالات سے اردو کی سمت ورفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔ ناز قادری کی تنقید کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ وہ تنقیدی جائزہ کے لیے تنقیدی اصول بھی وضع کرتے ہیں، اس ضمن میں ان کا یہ بیان دیکھئے:
’’کسی فنی کارنامے کا جائزہ خارجی پیکر اور اس میں چھپے ہوئے معنی کا جائزہ ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک کو نظرانداز کرنا اعتدال اور توازن کی راہ میں انحراف کرنا ہے۔ فکر اور فن کا تعلق جسم وروح کا ہے۔ جس طرح کسی شخصیت پر تبصرہ اسکے ظاہر وباطن کو کنگھالے بغیر مکمل نہیں ہوتا، اسی طرح ادب وفن کی صوری ومعنوی تنقیح کے بغیر تنقید کا فرض ادا نہیں ہوتا۔‘‘
(زاویے، صفحہ:43)
ناز قادری اپنے ان وضع کردہ تنقیدی اصولوں پر کاربند نظر آتے ہیں۔ انھوں نے سحر البیان:ایک مطالعہ، اردومیں جدید نظم نگاری اور حالی، مولانا آزاد کی سیاست دینی، اقبال کا نظریہ دین وسیاست، اور کبیر داس کے کلام میں عصری آگہی وغیرہ جیسے تنقیدی مضامین نصابی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ضرور لکھا، لیکن اپنی تنقیدی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے یہ تمام مضامین اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد مضامین ہیں۔ ’’زاویے‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد شمیم نے بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’شامل کتاب مضمون ’’کبیرداس کے کلام میں عصری آگہی‘‘ اپنی طرح کا ایک منفرد مضمون ہے۔ جس میں مصنف نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ بھگتی دور کے شعراء میں کبیر داس کے امتیازات پر ہر عہد میں ارباب نظر نے توجہ دی ہے۔ آج کبیر کو کمزور اور استحصال زدہ افراد کے غم وغصہ کی آواز اپنے عہد کے نظام کے خلاف مورچہ بندی کرنے والا زبردست اور بے خوف باغی سمجھا جاتا ہے۔‘‘
(ماہنامہ ’’آجکل‘‘مئی2010ء، صفحہ:44)
ناز قادری نے اپنے پسندیدہ موضوع ’’ناول‘‘ پر، اپنی تنقیدی آگہی و بصیرتوں سے معنویت، ہمہ گیری اور وسیع تر تنقیدی نظام فکر کو بھی اجاگر کیا ہے ۔ ناول کے تاریخی حقائق، احوال، فکری وفنی اوصاف، اندازِ بیان واسالیب کے محاسن کے ساتھ ساتھ اس کے عصری معنویت کو بڑی خوش اسلوبی اور حسن ومعیار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اپنے تنقیدی عمل میں وہ ناول کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں جہاں فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہیں ناول اور اس کی تنقید میں در آئے معائب پر بھی کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں۔
ناز قادری کی ایک تنقیدی وتحقیقی کتاب ’’اردو ناول کا سفر‘‘ کے نام سے 2001ء میں منظر عام پر آئی تھی، جو در اصل ان کے تحقیقی مقالہ ’’اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ‘‘ کے چند ابتدائی ابواب ہیں اور مصنف کے بیان کے مطابق (1975ء تک) اس موضوع نو پر اردو میں یہ پہلا تحقیقی مقالہ تھا۔ اس لیے بہرحال اس مقالے کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے، اور چونکہ ناز قادری تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی میدان میں عرصہ قبل (1962-63ء )سے ہی پوری طرح منہمک، متحرک اور فعال تھے، اس لیے مذکورہ مقالہ میں نہ صرف زبان وبیان، بلکہ اس کے اسلوب، فکری وفنی محاسن اور تنقیدی وتحقیقی رویۂ میں حسن ومعیار نمایاں ہے۔ ان کے افکار وخیالات اس امر کے واضح ثبوت ہیں کہ انھوں نے مختلف مکاتب فکر کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد ہی حتمی رائے قائم کی ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اردو میں ناول انگریزی ادب کا مرہون منت ہے، لیکن ناز قادری اس امر سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
’’…. در اصل ناول کافن اردو میں قِصہ گوئی کی فطری نشو ونما کی تخلیق ہے اور یہ صنف فطری محور پر داستان کے فن کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔‘
اردوناول کا سفر، صفحہ:18
اردو میں ابتدائی ناول نگاری کی بہت ساری تفصیلات ناز قادری نے بڑے خوبصورت انداز میں بھرپور معنویت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اردو ناول کے ابتدائی اسلوب کے سلسلے میں ناز قادری نے کئی دلچسپ باتیں بھی بیان کی ہیں، جو بہرحال ناز قادری کے مطالعہ کی گہرائی وگیرائی اور تحقیقی صلاحیتوں کی مظہر ہیں۔ ایک دلچسپ تحریر اس ضمن میں ملاحظہ ہو:
’’میرامّن کا اسلوب دہلوی دبستان ادب کا نمائندہ تھا، گرچہ یہ اسلوب فارسی نثر سے مکمل طورپر پیچھا نہ چھڑا سکا تھا، یعنی اس میں مقفیٰ ومسجع عبارتیں ملتی ہیں۔ لیکن اس عہد کے دوسرے لکھنے والوں کی طرح مسجع نثر نگاری کا باضابطہ اہتمام نہیں کیا گیا ہے اور زبان روز مرہ کی گفتگو کا نمونہ ہے۔ اس لئے ’’باغ وبہار‘‘ کو دوامی شہرت حاصل ہوئی، مگر اس عہد میں ایسی نثر کا چلن نہ تھا اس لئے بعض حلقوں سے خصوصیت کے ساتھ دبستان لکھنؤ کے ادیبوں کی طرف سے اس پر بہت لے دے کی گئی اور1824ء میں رجب علی بیگ سرور نے اپنی طبع زاد داستان ’’فسانۂ آزاد‘‘ کے دیباچے میں میرامّن کے اسلوب کا دل کھول کر مذاق اڑایا اور اپنے خیال کا اظہار کیا کہ میرامن کو لکھنا نہیں آتا۔‘‘
اردوناول کا سفر، صفحہ: 27,28

 1857ء کے عہد کو عام طور پر سیاسی اور سماجی خلفشار کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن ناز قادری نے اس دور میں اردو ادب ،خصوصاً داستان اور ناول کے حوالے سے جاننے کی خصوصی کوشش کی اور کامیاب رہے:
’’…. غرض یہ کہ اس عہد کے تمام لکھنے والوں نے 1857ء کے بعد کی متوحش، خوف زدہ، گوشہ نشیں، خلوت پسند، شکست خوردہ اور بے عمل قوم کو روزانہ کی صف آرائی میں شامل کرنا چاہا اور یہ قومی اور تعمیری کوشش فن کے ہر پہلو سے کی گئی۔
کہانوی سطح پر جس شخص نے ۱۸۵۷ء کے بعد کے متوسط مسلم طبقے کی حسیت وشعور کی آئینہ داری، ترجمانی اور تنقید کی، وہ ڈپٹی نذیر احمد ہیں۔ 1857ء کے پہلے کی سماجی اور اجتماعی زندگی کلاسیکی اور داستانی تہذیب رکھتی تھی، اس لئے 1857ء کے پہلے داستان گوئی ہماری پسندیدہ کہانوی صنف تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد نئی زندگی اور نئے زمانی تقاضے سامنے آئے۔ زندگی، سماج اور معاشرے کا یہی نیاپن داستان کو ناول بنا گیا۔‘‘
(اردوناول کا سفر، صفحہ:31)
ناز قادری اپنی تحقیق وتنقید میں جہاں وہ مناسب باتوں سے اتفاق کرتے ہیں، وہیں وہ غلط باتوں سے اختلاف کا اظہار برملا اور جرأت کے ساتھ کرتے ہیں۔ مثلاً سہیل بخاری نے ناول کی تعریف جس طرح بیان کی ہے، اس اقتباس کو نقل کرنے کے بعد اس سے کس طرح اختلاف کرتے ہیں، یہ دیکھئے:
’’سہیل بخاری کی یہ تعریف مبہم، پیچیدہ اور غیر واضح ہے، اس لئے کہ انھوں نے ناول کی تعریف کی بجائے ناول کے فنی اقدار کی روشنی میں اس کی صنفی حیثیت کی تعیین کی کوشش کی ہے اور اس میں بھی وہ ناول کے کردار ہی پر تمام توجہ صرف کرنے کی بات کرتے ہیں اور اس کے واسطے سے ماحول، معاشرہ اور واقعات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ناول کے فنی اقدار ومعیار کا معروضی شعور نہیں رکھتے۔ یہی نہیں مندرجہ بالا اقتباس کا آخری جملہ بھی ہے جو عمومیت کا شکار ہے….‘‘
(اردوناول کا سفر، صفحہ:53)
ایسی باوقار اور حسن و معیار سے بھرپورتنقیدی اظہار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ناز قادری مشاہیر ادب سے مرعوب نہیں ہوتے اور بعض ایسے لوگوں کی تنقیدی لغزشوں سے اختلاف کرتے ہیں تواس کے لیے وہ منطقی دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ ناز قادری کا انگریزی ادبیات کامطالعہ بھی عمیق ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے نقادوں کی طرح انگریزی ادب کے حوالوں سے مرعوب کرنے کی بجائے وہ اپنے قاری کو حقیقت حال سے آگاہ کرتے ہوئے انگریزی زبان کے ادبا ء کی خامیوں کو سامنے لاتے ہیں۔
Engene Jonesco کے مضمون سے اختلاف کرتے ہوئے، وہ کس جرأت کے ساتھ لکھتے ہیں، یہ دیکھئے:
’’…. لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ صرف اردو نقادوں کے یہاں یہ کمزوری نہیں ملتی، بلکہ عالمی ادب کے ناقدین فن بھی اس کمزوری سے مبرا نہیں ….‘‘
(اردوناول کا سفر، صفحہ:49)
ناز قادری کی مذکورہ کتاب کا ایک اہم باب ’’انگریزی ناول کی روایت‘‘ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس باب میں مصنف نے اپنی بھرپور تنقیدی وتحقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ہے۔ اس باب کے بعد ’’اردو ناول کا سفر‘‘ جیسے موضوع پر بھی ناز قادری نے اپنے وسعت مطالعہ کے ساتھ ساتھ تنقیدی شعور وآگہی کامظاہرہ کیا ہے۔ ملاوجہی کی تخلیق’’سب رس‘‘(1635-36) سے لے کر جیلانی بانو تک کے ناول ’’ایوان غزل‘‘ (1976) پر جس طرح تنقیدی نگاہ ڈالی ہے اورناول کے سلسلے میں جو اہم نکات پیش کئے ہیں، ان نکات پر تفصیلی مباحث کی بہرحال ضرورت ہے اور یہ تمام نکات اردو ناول کی تنقید کے سرمایہ میں اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ناز قادری اپنے ایک اورمقالہ ’’بہار میں ظریفانہ ادب کی تخلیق‘‘ کے حوالے سے بھی ہمیشہ یاد کئے جائیں گے، بیشک اپنے موضوع پر غالباً یہ پہلا اور آخری مقالہ ہے،جو اتنا مفصل اور بھرپور تحقیقی مواد کے ساتھ لکھا گیا ہے، اس مقالہ کو عہدحاضر تک کے طنز ومزاح نگاروں کو شامل کردیا جائے تو یہ ایک دستاویز بن جائے گا۔  ناز قادری کا تنقیدی سفر اسی طرح جاری رہا تو بہت سارے اعلیٰ اور معیاری تنقیدی اضافے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔