ڈاکٹر ذاکر نائیک کا متنازعہ جملہ ’محمد ﷺ کو بھی ماننا حرام ہے‘

 مقبول احمد سلفی

ذاکٹرذاکر نائیک صاحب سے ایک ہندو نے سوال کیا کہ بت پرستی غلط ہے میں بھی مانتا ہوں مگر مزار کی پوجا کرنا کیسا ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے سائل کے اس سوال کے جواب میں قبر سے متعلق دو احادیث پیش کیں۔ ایک یہ کہ نبی ﷺ کا حکم ہے قبروں کو زمین کے برابر کردواور دوسری یہ کہ قبر کی زیارت سے آخرت یاد آتی ہے۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ باباؤں کو چھوڑو آج کی تاریخ میں ہم محمد ﷺ سے بھی نہیں مانگ سکتے۔ آگے ایک جملہ بولتے ہوئے سبقت لسانی کے طور پر زبان سے نکل گیا ” محمد ﷺ کو بھی ماننا ہمارے لئے حرام ہے”۔

ڈاکٹرصاحب آگے بیان کرتے ہیں کہ جو شخص مرچکا ہے ہم انہیں عزت کرتے ہیں، محمد ﷺ سے محبت کرتے ہیں، ان سے پیار کرتے ہیں لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے، ان کی عبادت نہیں، عبادت صرف اللہ کی۔

اس ویڈیو کلپ کا مذکورہ جملہ کہ محمد ﷺ کو بھی ماننا ہمارے لئے حرام ہے اس پہ بریلوی طبقہ  نے بڑی افسوسناک حد تک گرفت کی اور جب سے یہ جملہ بولا گیا ہے اس وقت سے اب تک اس کا حوالہ دے کر ڈاکٹر صاحب کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا جاتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ پوری جماعت اہل حدیث کو مطعون کیا جاتا ہے۔

جب متنازعہ جملہ کو پورے ویڈیو کلپ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے زبان کی سبقت کی وجہ سے مانگنے کی جگہ ماننا کہا گیا ہے، اصلا وہ وہی بات کہنا چاہ رہے تھے جو انہوں نے پہلے کہی کہ آج کی تاریخ میں ہم محمد ﷺ سے بھی نہیں مانگ سکتے۔ اور یہ سہوا "ماننا حرام "کہا جانا سوفیصد سبقت لسانی ہے کیونکہ وہی شخص اس کلپ میں نبی ﷺ کی دو احادیث بطور دلیل پیش کرتے ہیں پھر آپ ﷺ سے محبت وپیار کرنے کا واسطہ دیتے ہیں مزید برآں انہوں نے پہلے صحیح جملہ استعمال بھی کیا ہے کہ آج کی تاریخ میں ہم محمد ﷺ سے بھی نہیں مانگ سکتے۔ یہ چیز کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کوئی بھی یوٹیوب پر ڈاکٹر صاحب کا متنازلہ بیان سن سکتا ہے اور حقیقت جان سکتا ہے۔

کہاوت ہے "چور مچائے شور”۔ جب چور کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہی شور مچانے لگتا ہے بعینہ ایسا ہی بریلوی طبقہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق کررہا ہے۔ ان میں سے اکثریت کو پتہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے سہوا ایسا جملہ نکل گیا ہے مگر چونکہ ڈاکٹر صاحب نے مزارات کی کمائی پرکاری ضرب لگائی ہے جس سے اس طبقہ  کی تجارت میں خاصا نقصان ہوا ہے، اس نقصان کا بدلہ چکانے کے لئے اس جملے سے بہتر اور کوئی گرفت نہیں ملی اور نہ مل سکتی ہے اس لئے سالوں سے اس سبقت لسانی کو پکڑے ہوئے ہیں جبکہ یہی طبقہ بڑی بڑی گستاخی پر صرف اپنے مفاد کے لئے شیعوں کی حمایت کرتا ہے۔ حال ہی کا واقعہ ہے جب عامر لیاقت نے پاکستان میں مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی تو لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا، عامر لیاقت کی حقیقت عوام کے سامنے لائی، پیمرانے اس پر پابندی بھی لگائی۔ اسی پابندی کے دوران ایک ویڈیو میں کوکب نورانی (بریلوی  عالم)عامر لیاقت کا صحابی سے متعلق گستاخی پر دفاع کرتے ہیں کہ انہوں نے توبہ کرلی ہے اس لئے توبہ کے بعد کوئی مسئلہ ہی نہیں رہ جاتا مزید توبہ کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ یہاں چونکہ اس بریلوی  عالم کو چینل پہ آنے کا مکمل معاوضہ لینا ہے بلکہ مزید کمانا بھی ہے تو ایسے گستاخ کی تائید نہیں کرے گا تو کیا کرے  گا؟۔

 اب آئیےمیں پوچھتا ہوں کیا اس کوکب  نورانی کو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا متنازعہ بیان پرتوبہ کرنا معلوم نہیں ہے جبکہ یہ سبقت لسانی ہے اس پہ توبہ کی ضرورت ہی نہیں پھر بھی ڈاکٹر صاحب کی اعلی ظرفی کہ ملت اسلامیہ کے سامنے اپنے بیان کئے الفاظ کو غیرارادی اورسبقت لسانی کہتے ہیں اور ساتھ ساتھ توبہ بھی کرتے اوراپنے الفاظ واپس لیتے ہیں۔ صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ طبقہ اپنے جرم کو چھپانے، شرک وبدعت کی شناعت پہ پردہ پوشی کرنے اور اپنے عیوب کو مخفی رکھنے کے لئے کچھ بھی بول سکتا ہے، کسی سے مدد لے سکتا ہے اور کسی کی بھی حمایت وتائید کرسکتا ہے چہ جائیکہ مسلمان میں سے ہو یا غیر وں میں سے۔ الحفظ والامان

ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے جو غلط جملہ اپنی زبان سے غیرارادی طور پر ظاہر کیا جس کی انہوں نے بعد میں وضاحت کی اور اس پہ کھلے دل سے توبہ بھی کیا پھر بھی مسلمانوں میں سے بعض لوگ اس پہ گرفت کرتے اور اس جملے کی وجہ سے ان کی تکفیر کرتے ہیں حتی کہ انسانوں سے بھی خارج کیا جارہاہے۔ آئیے ڈاکٹر صاحب کے مقدمہ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی عدالت میں پیش کرتے ہیں تاکہ کم ازکم صاحب فہم وبصیرت پر حق واضح ہو اور وہ جانے انجانے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔

صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ اللَّهَ وضَعَ عن أمَّتي الخطَأَ والنِّسيانَ وما استُكرِهوا عليهِ(صحيح ابن ماجه:1677)

ترجمہ: اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی) غلطی، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔

گویا نبی ﷺ کے فرمان کی روشنی میں اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ جب کسی بندہ سے غیرارادی طور پر بھول چوک ہوجائے تو اللہ کے نزدیک وہ معاف ہے اس وجہ سے کسی کی بھول چوک پر مواخذہ نہ دنیا میں ہوگا اور نہ ہی حساب وکتاب کے دن ہوگا۔

اب یہاں پر رسول رحمت ﷺ کی زبانی ایک پیارا سا  واقعہ ملاحظہ فرمائیں جو سب کی آنکھیں کھولنے والا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث ہے اس لئے اس حدیث کی صحت میں شک کی گنجائش نہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

للهُ أشدُّ فرحًا بتوبةِ عبدِه، حين يتوبُ إليه، من أحدِكم كان على راحلتِه بأرضِ فلاةٍ . فانفلتت منه . وعليها طعامُه وشرابُه . فأيس منها . فأتى شجرةً . فاضطجع في ظلِّها . قد أيس من راحلتِه . فبينا هو كذلك إذا هو بها، قائمةٌ عنده . فأخذ بخطامِها . ثم قال من شدةِ الفرحِ : اللهم ! أنت عبدي وأنا ربُّك . أخطأ من شدةِ الفرحِ۔(صحيح مسلم:2747)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ (بندہ) اس کی طرف توبہ کرتا ہے، تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اپنی سواری پر (سفر کر رہا) تھا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل (کر گم ہو) گئی، اس کا کھانا اور پانی اسی (سواری) پر ہے۔ وہ اس (کے ملنے) سے مایوس ہو گیا تو ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ وہ اپنی سواری (ملنے) سے ناامید ہو چکا تھا۔ وہ اسی عالم میں ہے کہ اچانک وہ (آدمی) اس کے پاس ہے، وہ (اونٹنی) اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے اس کو نکیل کی رسی سے پکڑ لیا، پھر بے پناہ خوشی کی شدت میں کہہ بیٹھا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ خوشی کی شدت کی وجہ سے غلطی کر گیا۔

اس حدیث میں مذکور ہے کہ جب سوار کو کھوئی ہوئی اپنی سواری مل گئی تو  مارے خوشی کے اس کی زبان سے کفریہ جملہ ” تومیرا بندہ میں تیرا رب”نکل جاتا ہے مگر چونکہ وہ بندہ کہنا یہ چاہ رہاتھا کہ میں تیرا بندہ تو میرا رب۔ اس وجہ سے اللہ غلطی کرنے کے باوجود خوش ہوتا ہے۔ اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی سبقت لسانی پر گرفت کرتا ہے تو میں کہوں گاکہ اسے ڈاکٹر صاحب سے نہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دشمنی ہے۔

ڈاکٹرصاحب سے حسد ودشمنی میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ  نہیں جی !ذاکر نائیک نے جان بوجھ کر ایسا کہا ہے، اس کا عقیدہ ہی ایسا ہے۔ یہ بات گلے سے نہیں اترے گی کیونکہ اس ویڈیو کو سن کر دشمن سے دشمن ایسا الزام لگانے سے ڈرے گا مگر بیحد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ مسلکی حسد میں اس  قدر اندھا ہوگئے کہ حق سجھائی نہیں دیتا یا زبان پر ایسی مہر لگ گئی کہ حق ادا نہیں ہوتا۔

تھوڑی دیر کے لئے محض بحث کے طور پرمان لیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات جان بوجھ کہی، اب اس مقدمہ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ(الشورى: 25)

ترجمہ: وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کی) برائیوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتا ہے۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے :

التائبُ من الذنبِ كمن لا ذنبَ لهُ(صحيح ابن ماجه:3446)

ترجمہ: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے سرے سے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔

یہاں بھی عدالت الہیہ کا فیصلہ ہے کہ توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے، نبی ﷺ کی عدالت نے توبہ کرنے والے کو گناہوں سے پاک وصاف کردیا۔ اس سلسلے میں بہتیرے نصوص ہیں اور صحابہ وتابعین کے بے شمار واقعات جن میں توبہ کرنے سے معافی کا ذکر ہے۔

اس کے باوجود کوئی اس مسئلے میں ہٹ دھرمی کرے، ڈاکٹرصاحب کو طعنہ دے، تکفیر کا فتوی لگائے،انہیں مسلمانوں سے خارج گردانے، انسانوں میں بھی شمار نہ کرے، بری بری گالیاں دے ایسے سارے لوگوں کو کل قیامت میں اللہ کے یہاں حساب دینا ہے اور یہ حقوق العباد ہیں جو نیکیاں کرنے سے معاف نہیں ہوتیں بندوں کا حق لوٹانے سے معاف ہوتی ہیں۔ آج برائیوں کے غلبے نے لوگوں کے دل سیاہ کردئے، اللہ کا خوف دل سے نکل گیا، ایمان میں آمیزش کرلی، عقیدہ خراب کرلیا، مسائل خود سے وضع کرلئے، مسلمانوں پر طعن وتشنیع اور ان کی تکفیر معمولی مشغلہ بن گیا۔

اللہ کے بندو! کسی کا خوف ہونہ ہو اللہ کا تو خوف کرو، کسی کا دل دکھاؤگے، اللہ ناراض ہوگا، گالیاں بکوگے ان کے بدلے اعمال برباد ہوں گے۔ ایک دن اللہ کا سامناہوگا اس دن ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا ، اس وقت سوائے ندامت ورسوائی کے اور کچھ نہ ملے گی۔اگر خود کو مومن کہتے ہو تو فرمان مصطفی ﷺ کا پیکر بن جاؤ۔

المسلمُ من سلِم المسلمون من لسانِه ويدِه، والمهاجرُ من هجر ما نهى اللهُ عنه(صحيح البخاري:6484)

ترجمہ: مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے ( تکلیف پہنچنے سے ) محفوظ رکھے اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں سے رک جائے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا مسلمان بننا ہے جس شر سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں بلکہ ہمیں مسلمان مہاجر بننا ہے اللہ تعالی نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان تمام چیزوں سے رک جانا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔