دائمی خوشی کا قرآنی فلسفہ

قمر فلاحی

دوستو آج لوگ خوش رہنے کے بہت سارے طریقے  ڈھونڈتے اور بتاتے ہیں مگر چونکہ یہ خیالاتی،  تجرباتی اور تصوراتی ہوتے ہیں اس لئے کہیں نہ کہیں پھر غم دے جاتے ہیں لہذا آئیے میں آپ کو اس خالق کائنات کا اصول بتاتا ہوں جو خود خوشی اور غم کا بھی خالق ہے۔

1۔ صبر اور تقوی

صبر سے آزمائشوں کا مقابلہ ہوسکے گا اور تقوی سے اللہ کے پاس سے مقابلہ کرنے کی طاقت نصیب ہوگی۔ (آل عمران ۱۲۰)

2۔ نعمتوں پہ شکر

انسانوں کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے، جسے وہ کسی لمحہ بھی چھیننے پہ قادر ہے۔ جو نعمتیں انسان کو ملی ہیں وہ اللہ کا تحفہ اور فضل ہیں، اس میں انسان کی قابلیت اور لیاقت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ ورنہ ہمیں یہ بھی ماننا پڑیگا کہ قارون کو جو دولت ملی ہے وہ بھی اس کی محنت اور لیاقت کی وجہ سے ملی تھی اور اگر اسی جیسی محنت کوئی دوسرا کرے تو وہ بھی قارون بن سکتا ہے۔

اسی طرح جسے یہ نعمت نہیں ملی ہے اسے نالائق اور نااہل نہیں سمجھنا ہے بلکہ یہ سمجھنا ہے اللہ سبحانہ نے انکے لئے بہتر نہیں سمجھا ۔ساتھ ہی انہیں بھی نعمت ملے اس کیلئے دعا کرتے رہنا ہے۔نیز انہیں اپنی نعمتوں میں شامل کرنا ہے۔ (آل عمران ۔۱۷۰)

3۔کسی بھی چیز کو دائمی نہیں سمجھنا 

نعمت ہو یا مصیبت کوئی بھی چیز دائمی نہیں ہے بلکہ یہ گردش کرنے والی چیز ہے آج ہمارے پاس تو کل کسی اور کے پاس ۔نعمتوں پہ انسان اس وقت اتراتا ہے جب وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ چیز اس کے پاس ہمیشہ رہنے والی ہے ۔اسی طرح اس کی منتقلی پہ انسان غمگین ہوجاتا ہے ۔اسی طرح مصیبت کو بھی وہ آزمائش الہی نہیں سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے عارضی سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے ۔۔۔۔جبکہ ہر چیز کی عمر ہے ۔آزمائشوں کو مصیبت نہیں سمجھنا چاہیے ۔یہ عذاب نہیں ہے جو نافرمانی پہ نازل ہوا کرتا ہے ۔یہ ایمان کا ٹسٹ ہوتا ہےاور ٹسٹ سے مومن نہیں بھاگتا۔آزمائشیں مشیت سے ہوتی ہیں اس میں اللہ کی رضا شامل نہیں ہوتی ہے ۔بھلا وہ اپنے بندے کو بخوشی کیوں مصیبت میں ڈالے گا ۔ (الانعام ۴۴۔ الروم ۳۶)

4۔ اللہ کے فیصلہ کو دل سے قبول کرنا

اللہ سبحانہ کا سارا فیصلہ انسانوں اور مسلمانوں کے حق میں ہوتا ہے۔اس کی لیاقت کے مطابق اسے نعمت ملتی ہے ۔اگر کوئی نعمت نا ملے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ابھی ہم اس کے لائق نہیں ہوئے ۔۔۔۔۔جیسے بلوغت سے پہلے اولاد نہیں ملتی۔اسی طرح اللہ سبحانہ کوئی نعمت دیکر واپس لے لیا کرتا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نرینہ اولاد عطا کی پھر واپس لے لیا ۔اب اس کی حکمت وہی جانتا ہے ہمیں اس میں  اپنا دماغ لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔والقدر خیرہ وشرہ تقدیر میں کوئی بات جی کو بھاتی ہے اور کچھ نہیں بھاتی۔مگر ایمان دونوں پہ برابر رکھنا ہے۔

5۔ اپنے ذمہ کا کام کرنا

اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ  میری اولاد میرا کہا نہیں مانتی مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہیں مانتی۔کہاں کمی رہ گئ۔تربیت میں پرورش میں۔رزق میں ۔۔۔۔۔گویا ہم نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی تو نتیجتا اس نے بھی ایسا ہی کیا۔یہ اصول ہر جگہ لاگو ہوتا ہے ۔
دوسری طرف ہم وہ کام بھی کرنے لگتے ہیں جو اوروں کا ہے اور اللہ کا ہے۔مثلا عورتوں کو کام پہ لگایا خود گھر گرہستی سنبھال لی۔۔۔۔اسی طرح کل کا مسئلہ اور فکر ہمیں نہیں کرنی ہے، وہ اللہ کریگا مگر ہم اپنے کل اور بچوں کے کل میں سرگرداں ہوتے ہیں اور کل آنے سے پہلے اللہ کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔

اسی طرح کام کی تکمیل کیلئے پریشان ہونا ۔نتیجہ تلاشنا یہ سب انسان کو غمگین رکھتا ہے آپ کوشش ضرور کریں مگر تکمیل اور نتیجہ اللہ سبحانہ پہ چھوڑ دیں۔اور جان لیں کہ ہر کام اپنے وقت پہ ہوگا خواہ آپ جتنی قوت لگالیں۔

6۔ اپنی سکت بھر کوشش کرنا

انسان کو اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اندازہ ہوتا ہے مگر ہمیشہ صلاحیتوں سے اوپر کی سوچتا ہے مثلا بچہ باپ کی کدال ہاتھ میں  لیکر چلانا شروع کر دیتا ہے نتیجتا اپنا پائوں زخمی کر لیتا ہے ۔لون قرضوں اور دوسروں کے بھروسے جینے والے اکثر غمگین رہتے ہیں۔جتنی بڑی چادر اتنا ہی پائوں پسارنا اس کا حل ہے۔وما علینا الا البلاغ میں یہ اصول پوشیدہ ہے ۔ (شوری ۱۸)

7۔ کبر سے بچنا مافات پہ افسوس نا کرنا

اللہ تعالٰی متکبرین اور اترانے والوں سے اپنی نعمتیں چھین لیا کرتا ہےاور نعمتوں سے محرومی انسان کو غمگین بنا دیتی ہے ۔

اسی طرح جو کھوئ ہوئے شئے پہ افسوس کرتے ہیں وہ بہت غمگین رہتے ہیں ۔انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ زندگی اسی پہ مکمل نہیں ہے آگے اور بھی وقت ہے تلافی مافات کیلئے ۔ڈوبتا سورج بار بار نکلتا ہے ۔اور مومن کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ (الحدید ۲۳)

تبصرے بند ہیں۔