"ڈیجیٹل انڈیا کے نام پرانّ داتاؤں کی بلی."

        کئی دنوں سے لکھنا چاہ رہاتھا پرسمجھ نہیں آرہاتھاکس کس پرلکھوں،تنزیل احمد پر،پنامہ کیس پر،بہار پنچایتی الیکشن پریاخشک سالی سے موت کے دروازہ پر کھڑےنوصوبوں کےکسانوں  پر،لیکن مرکزی وزیر وینکیا نائڈو اور آئی.پی.ایل چیرمین راجیو شکلا کے تبصرہ نے موخر الذکر کی جانب ہی قلم کارخ موڑدیا،ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں بیک وقت سوکھے جیسی قدرتی آفت کاسامناناکرناپڑاہو،بلکہ ماضی میں بندیل کھنڈ کے سوکھے نے توہندوستان کی چولیں ہلاڈالی تھیں،پرفی الوقت ہندوستان کے نو بڑےاوراہم ترین  ریاستیں جیسےمہاراشٹر، کرناٹک،چھتیس گڑھ، راجستھان، آندھراپردیش،تلنگانہ اترپردیش،سمیت ۹صوبوں میں خشک سالی سے حالات اتنے بدتر ہوچکے ہیں کہ لوگ پینے کے پانی تک سے محروم ہوچکے ہیں،لوگ خود کشی کررہے ہیں،بلکہ اب تو اپناگھر بارچھوڑکرنقل مکانی کرنےپر مجبورہورہےہیں،یہ تو تصویر کاایک رخ ہے،اب آئیے دیکھتے ہیں غریبوں کی مسیحا،کسانوں کاسہارا مودی سرکار کواس نے اس خشک سالی کو ابھی تک کتنی سنجیدگی سے لیا ہے،اس قدرتی آفت سے پیدا شدہ حالات سے نمٹنے کے لئے کس قدر عملی اقدامات کئے ہیں؟یوگا جیسے غیر ضروری امور کے لئے ہزاروں کروڑ روپئے پانی کی طرح بہانے والی حکومت نے کتنافنڈ ان مرتے ہوئے کسانوں کے لئے مختص کیاہے؟جن کے ہاتھوں کی  محنت،اور رات دن کی انتھک محنت سے ہماراملک کے۱۲۵کروڑ عوام و خواص اپنی بھوک مٹاتے ہیں،سوکھے سے نمٹنےکے لئے حکومت کے پاس ایکشن پلان کیاہے،بنظر غائر دیکھنے سے ایسالگتاہے کہ مودی جی اور ان کی حکومت کوابھی اس کی خبر ہی نہیں،بلکہ وہ تو بھارت کو
ڈیجیٹل انڈیا بنانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ بھارتی  ریڑھ کی ہڈی  کی حیثیت رکھنے والے کسانوں کی بدحالی انہیں نظر ہی نہیں آرہی ہے،کیونکہ سپریم کورٹ کے حالیہ نوٹیفیکشن سے یہی معلوم ہوتا ہے جس میں سپریم کورٹ نے ملک میں خشک سالی کی صورت حال پر آنکھیں بند کئے پڑی مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لےلیاہے، عدالت عظمی نےکہاکہ ملک کے نو اہم ترین صوبے  خشک سالی سے متاثر ہیں اور مرکزی حکومت اس پر اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی۔ بنچ نے اس سے نمٹنے کے لئے ضروری قدم اٹھائے جانے کا حکم بھی دیا، جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس این وی رمن کی بنچ نے غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ”سوراج ابھیان” کی عرضی کی سماعت کے دوران یہ بات کہی تھی،۔عدالت نے مرکز کو کل تک حلف نامہ دے کر یہ بتانے کی ہدایت دی ہے کہ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) منصوبہ خشک سالی سے متاثرہ ریاستوں میں کس طرح لاگو کیا جا رہا ہے۔دوسری اور جب مرکزی وزیر وینکیا نائڈو سے میڈیاکے اہلکاروں نے اس حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے چٹکی لیتے ہوئےجو کچھ کہاوہ خشک سالی سے جوجھ رہے لوگوں کے زخموں پر اور نمک لگانے کا کام کر سکتا ہے۔  سوکھے  کو لے کر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وینکیا نائیڈو نے کہا کہ خشک سالی کاہونا ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ وینکیا کا کہنا تھا کہ خشک سالی کیا ہمارے ہاتھ میں ہے، بارش آئے گی تو ٹھیک ہے نہیں توپھر جو ہوتا ہے وہ ہم دیکھتے ہیں وینکیا نے یہ بھی کہا کہ پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ہوا پھر اس کی رپورٹ ریاست تیار کرتی ہے اور مرکز کو بھیجتی ہے، پھر جو ہوتا ہے وہ طریقے سے ہوتا ہے۔ بی.جے.
پی.کی حکومت والے صوبہ مہاراشٹر کے بیڑ میں خشک سالی کے سبب حالات اتنے بدتر ہو گئے ہیں کہ وہاں کسان خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں تووہیں دوسری طرف پانی کے لئے لوگوں کے درمیان جھگڑا ہو رہا ہے۔مہاراشٹر کے بیڑ میں جہاں گزشتہ تین سالوں سے خشک سالی ہو رہی ہے، وہاں رہنےوالےکسانوں کے حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ وہ خودکشی تک کر رہے ہیں۔ بیڑ میں ڈیم میں پانی مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ڈیم کے نگراں کا کہنا ہے کہ اگر جلد بارش نہیں ہوئی تو حالات اور بھی بدتر ہو سکتے ہیں۔ ادھر لاتور میں بھی خشک سالی کے سبب بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ وہیں پپری میں حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ پانی کے لئے لوگوں میں آپس میں جھگڑے تک ہو رہے ہیں۔دیگر صوبوں کے حالات اس سے مختلف نہیں ہے، جبکہ وینکیا کےبقول ابھی ریاست کےرپورٹ کاانتظار ہے،پھرمرکز سوچےگی،اب آپ ایک اور رخ دیکھئے،اور سوچئے کہ ڈیجیٹل انڈیاوالے بھارتی سنسکرتی سے کتنا الرجی رکھتے ہیں،آئی.پی.ایل کے نام سے ایک”وبا” شروع ہوچکی ہے،ایک طرف لوگ پیاسے مررہے ہیں،دوسری اور ساٹھ ہزار لیٹر پانی روزانہ پچ کے رکھ رکھاؤ پر صرف کیاجارہاہے، بامبے ہائی کورٹ کےتبصرے پر آئ.پی.ایل چیرمین کہتے ہیں کہ ہم پانی خریدتے ہیں، اس لئے کچھ بھی ہو میچ تو وہیں ہوگا،عدالت کےاس تبصرہ نے کہ میچ اہم ہے یاانسان؟ پہلے تو یہ تسلیم کرنےکاجواز دیاتھاکہ شاید انسانیت اب بھی برقرار ہے،پر آئی.پی.ایل کاافتتاحی میچ لاشوں کی شاہراہ پر ہوتے ہوئے دیکھ ایسا لگنے لگا ہے کہ اس ملک میں کسان صرف اناج پیدا کرنے والے مشین ہیں، جن کاکام ہر سال کروڑوں ٹن غلہ دینا ہے،پھر چاہے وہ جئے یامریں،ان کے گھر ویران ہوں یا ان کے بچے یتیم اور ان کی بیویاں بیواہوجائیں،حکومت یا کارپوریٹ جگت کو اس سےکوئی سروکارنہیں،کسانوں کی سونے اگلتی زمینوں کو کوڑی کے بھاؤ خرید کریا مفت میں قبضہ کر آسمان چھوتے پروجیکٹ تیار کرنے والے سرکاری و پرائیویٹ ادارے انہیں کسانوں کو مرتاتڑپتا بلکھتا دیکھ کر بھی اپنی زبانوں سےایک حرف تسلی تک نہیں نکالتے،ہمیں آئی.پی.ایل سے کوئی پرخاش نہیں، پرکیا اکیسویں صدی کے بھارت کو یہ زیب دیتا ہے کہ ایک طرف پانی ناملنے پرکسان لڑتے ہوئے جان دیں؟ اپنا گھربارسب قربان کریں،وہیں انہیں کسانوں کی جفاکشی اورجانوروں کی طرح باربرداری کے نتیجہ میں پیدا شدہ اناج سے مختلف ڈش بناکر،ایئر کنڈیشن روم میں بیٹھ کر،چیئر لیڈرس کی ناچ کامزالیتےہوئے ہمارے سرمایہ کار،کارپوریٹ دنیاکےفنکار اور حکومتی اہلکارچھکوں اورچوکوں کامزالیتے رہیں.لاکھوں لوگ  ٹیلی ویژن کے سامنے اچھل کود کرتے رہیں، کیونکہ فنڈیویس حکومت قحط سالی سے متاثرین کی راحت رسانی کے لئےابھی تک کچھ بھی نہیں کرپائی ہے،وزیر اعلی کو بھارت ماتا کی سیاست سے ہی فرصت نہیں  ہے،وزیر اعظم ‘میک اِن انڈیا’ اور ‘میک اِن مہاراشٹر’ میں مصروف ہے۔  ،اب مودی جی کو ‘فارمرڈیتھ اِن مہاراشٹر’ بھی دکھایاجانا چاہئے۔  مراٹھواڑہ خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے اور وہاں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ وہاں کسانوں کی خودکشی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ مویشیوں کے لئے چارہ اور پانی کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ دیہی علاقوں میں پینے کے لئے پانی دستیاب ہی نہیں ہے یہاں تک کہ پانی کی قلت کی وجہ سے اسپتالوں میں آپریشن بند ہوچکا ہے۔ ایک جانب پانی کی یہ قلت تو دوسری جانب سے بوتل بند مینرل واٹر کا کاروبار سے تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے لئے دیہی علاقوں کے لوگوں کو لوٹا جارہا ہے۔ ان پانی مافیاؤں پر پابندی لگانا نہایت ضروری ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم اس وقت یہ ھیکہ پانی فراہمی کے پروگرام کومرکزی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے ،اور پانی کی قلت کو دور کرنے، اس کا مناسب استعمال کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سےجرمنی کے ادارے GTZ یعنی جرمن ٹیکنیکل کوآپریشن اور بھارت کے واٹرشیڈ آرگنائزیشن ٹرسٹ یعنی WOTR جیسے پروگراموں کو خوب  بڑھاوا دے،کیونکہ جرمنی اور بھارت کے ماحولیات، آبی وسائل اور قدرتی وسائل کے ماہرین نے یہاں ان تجربات کے مختلف پہلووں پر غور کیا ہے اور انہیں جنوبی ایشیا کے دیگرملکوں میں نافذ کرنے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیاہے۔ نیز یہ امر بھیبقابل غور ھیکہ پورے بھارت میں پانی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے، اورگزشتہ بیس برسوں کے دوران واٹر شیڈ کے تجربات کافی کامیاب رہےہیں، اور مستقبل میں انہیں مزید موثر بنانے کے طریقہ” کارتیارکئے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں واٹرشیڈ کے تجربات کئے جارہے ہیں وہاں پانی کی قلت دور ہورہی ہے۔ پینے کا پانی سالوں بھر ملنے لگا ہے، آبپاشی کا پانی مل رہاہے،اس لئے اس پروگرام کو نافذ کرنے کے لئے مرکزی حکومت کو سبھی صوبائی حکومتوں کاساتھ لیکر میدان میں کودنا چاہئے، پارلمینٹ سے اس کے لئے باضابطہ بجٹ پاس کرکے پردھان منتری یوجنا کے تحت یاراشٹر پتی یوجنا کے تحت ان قحط زدہ علاقوں میں پانی کی فراہمی کے لئے فوری طور پر ہر  ممکن اقدام نہایت  ضروری ہے.علاوہ ازیں ان کسانوں کو معاوضہ دینے اور ان کی بازآبادکاری کے لئے لفظی پہاڑوں کو چھوڑ کر سبھی ممبران پارلیمینٹ واسمبلی نیز سرکاری وغیرسرکاری نوکر شاہوں کو  اپنی ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کرنا چاہئے، نیز خیراتی اداروں کو اپنے فلاحی کاموں میں ان کسانوں کی بازآبادکاری کو بھی شامل کرلینا چاہئے،کیونکہ ناتو راہل گاندھی اورکانگریس کو ابھی کسانوں کی ضرورت ہے کہ وہ پارلیمینٹ سیشن رکوائیں،اور ناہی میڈیااسے کور کرےگی،کیونکہ زی.نیوزجیسے چینل تووہیں دکھائینگے جس میں کامیابی کاسہرا مودی حکومت کے سربندھے،بلکہ ناکامی کو بھی کامیاب بناکر اجاگر کرنے کاٹھیکہ ان زرخریدوں کے ذمہ ہے،سپریم کورٹ  ہی شاید اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لے.اور مرکزکو بازآبادکاری، فراہمی ،آب پاشی اور پانی کی  قلت کودور کرنے  کاپابند بنائے، لیکن انصاف پسند باضمیر ملکی عوام کوچاہئے کہ صرف ایک بار آئی.پی.ایل کابائیکاٹ صرف اس لئے کریں کہ کسانوں کی آہوں و لاشوں پر تعمیر  اس ترقی وبلندی کاکوئی معنی نہیں،جب الیکشن کی وجہ سے آئی.پی.ایل پروگرام کو موخر کیاجاسکتا ہے تو موت وحیات سے جنگ لڑنے والے کسانوں کےلئے  اکسیر و حیاتین کاکام کرنے والے ایک ایک بوند پانی کو بچانے کے لئے آئی.پی.ایل  کے  شیڈول کو  چینج کرکے ملک کے دوسرے خوش حال صوبوں و خطوں میں منعقد کیا جانا کیونکر ممکن نہیں؟؟اس لئے ڈیجیٹل انڈیا و کلین انڈیا کے طلسماتی تصور سے نکل کر حقائق کی دنیامیں جینے کی ضرورت ہے،سردی گرمی،برسات طوفان رات دن کسی کابھی خیال ناکرکے جان توڑ محنت کرکے ہم تک روٹی و چاول پہونچانے والے ان کسانوں کواگریونہی تڑپتا چھوڑدیاگیا،ان کے لئے پانی کافوری انتظام نہیں کیا، ان کی تباہی میں ان کے آنسو نا پونچھے گئے،تو یاد رکھئے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں ۷۱ فیصد کسان ہیں،ملک کس سمت میں جائےگااورکتنی  ترقی کرےگا،یہ خود ہی قیاس کرئیے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔