وزیر اعظم ہندنریندر مودی کا دورہ سعودی عرب اور۰۰۰؟

ہندوستانی وزیر اعظم کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سیول ایوارڈ

ڈاکٹر محمد عبدالرشید جنید

مملکت سعودی عرب کی جانب سے ہندوستانی وزیر اعظم نریندرمودی کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سول اعزاز ”شاہ عبدالعزیز ایوارڈ“سے نوازا گیا اور یہ ایوارڈ انہیں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے شاہی محل میں عطاکیا ۔ نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا اور دونوں ممالک کے درمیان کئی ایک معاہدوں بشمول تجارتی تعلقات کو فروغ، سرمایہ کاری بڑھانے، انسداد دہشت گردی تعاون ،توانائی کے شعبہ میں مضبوط شراکت داری، رقومات کی غیر قانونی منتقلی اور اسٹریٹجک تعاون پر دستخط ثبت کی گئیں۔ اس موقع پروزیر اعظم ہند نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ ان کی عظیم ملاقات رہی، ہم لوگ ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط تعلقات کے لئے پابند ہیں۔وزیر اعظم نے مزید لکھا کہ” شکریہ سعودی عرب۔ بہت سے پروگرام میں شرکت کی جو ہمارے ملکوں کے درمیان معاشی اور لوگوں کے درمیان رابطے کو مضبوطی فراہم کرے گا“۔ وزیر اعظم ہند نے مملکت سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ہندوستان آنے کی دعوت بھی دی جسے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے قبول کرلیا اور ہوسکتا ہے کہ عنقریب کسی اہم موقع پر شاہ سلمان ہندوستان کا دورہ کرےں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی ملک کی ترقی کے لئے بیرونی ممالک کے دورے کرتے ہوئے اپنی ساکھ کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیونکہ جس طرح بیرونی ممالک کے دوروں کے موقعوں پر ان کی پالیسیوں کو سراہا جارہا ہے اس میں کس حد تک ہندوستان کو کامیابی اور ترقی ہوگی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن فی الحال نریندر مودی کی امیج عالمی سطح پر نمایاں اور متاثرکن نظر آتی ہے۔ ویسے ایک ہندوستانی وزیر اعظم کے کامیاب دورے یا دوسرے ممالک کے ساتھ معاشی استحکام اور ترقیاتی پروگراموں کو بڑھاوا دینے کے لئے مختلف معاہدوں کے طئے کئے جانے سے ہم ہندوستانیوں کے لئے خوش آئند بات ہے اور ان ممالک میں رہنے والے ہندوستانی تارکین وطن کےلئے وزیر اعظم کا کامیاب دورہ کئی مواقع فراہم کرتا ہے اور حکومتی سطح پر بھی انہیں حیثیت دی جاتی ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نریندر مودی سے قبل ہندوستان کا کوئی وزیر اعظم شاید ہی اتنے کم عرصے میں بیرونی دورے کیا ہو۔ یہ اور بات ہے کہ موجودہ حکومت کی معیاد ختم ہونے کے بعد اگر کانگریس برسراقتدار آتی ہے تو نریندر مودی سے ان دوروں کا حساب کتاب پوچھا جائے گا کیونکہ سرکاری خزانے پر جو بوجھ پڑرہا ہے شاید اس کا اندازہ عام شہری تو کیا نریندر مودی کی حکومت کے انتظامیہ کئی عہدےداروں کو تک نہیں ہوگا۔اگر واقعی وزیراعظم ہند کا نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے تحت انکے بیرونی ممالک کے دورے کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ملک اور قوم کے لئے بہترثابت ہونگے ورنہ کروڑوں روپیے کی بربادی ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم اور انکے دیگر اعلیٰ عہدےداروں اور وزراءکے لئے تفریح تصور کئے جائیں گے۔ جس طرح وزیر اعظم کا نعرہ کہ ”سب کا ساتھ سب کا وکاس“ کس حد تک کامیاب ہوگا اور بیرونی ممالک کی ہندوستان میں سرمایہ کاری سے کتنا فائدہ ہوگا اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا، البتہ اسٹریٹجک معاہدہ کی وجہ سے دہشت گردی کے خاتمہ اور ملزمین و مجرمین کا حصول و منتقلی میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔سعودی عرب بھی ان دنوں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کی سرگرمیوں سے پریشان ہے اور سعودی حکومت داعش کی سرگرمیوں کو کسی بھی صورت سعودی عرب سے ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ جبکہ ہندوستان بھی دولت اسلامیہ کی سرگرمیوں کو ملک میں کسی صورت برداشت نہیں کرے گا اور داعش کے خلاف سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ ہندوستان بھی تعاون دراز کرے گا۔دورے کے دوسرے روز شاہ سلمان نے الیمامہ پیالس میں مذاکرات کے دوران وزیر اعظم ہند نریندر مودی کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک طاقتور اسلامی فوجی اتحاد کی تشکیل کے لئے 34مسلم ممالک کو متحد کرنے کے سعودی عرب کے اقدام کے بارے میں واقف کروایا اور شاہ سلمان نے خلیج میں ہندوستان کی دلچسپی کی ستائش بھی کی۔

وزیر اعظم کا دوروزہ دورہ سعودی عرب کافی اہمیت کا حامل تصور کیا جارہا ہے ، ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان آزادی کے بعد سے بہتر اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 1955میں ہندوستان کا دورہ کیا ، شاہ کے دورہ کے بعد 1956میں ہندوستانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان روابط میں اضافہ ہوا اس کے بعد 1982ءمیں اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات میں مزید اضافہ ہوا اور مختلف معاہدات طئے کئے گئے۔ 2006میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے ہندوستان کا دورہ کیا اور اس دورہ کو کافی اہمیت دی گئی شاہ عبداللہ کے دورے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری پیدا ہوئی اور 2010ءمیں ہندوستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اورڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورہ کے موقع پر کئی ایک معاہدوں پر دستخط ہوئے اور دونوں ممالک کے درمیان معاشی ترقی اور اسٹراٹجک معاہدات، دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے مجرمین و ملزمین کی منتقلی اور انکے خلاف کارروائی کےلئے معاہدہ طے ہوا۔اب جبکہ عالمی سطح پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ہر ممکنہ کوششیں جاری ہیں اس دوران ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا سعودی عرب دو روزہ دورہ عالمی سطح پر اہمیت اختیار کرگیا تھا۔ ویسے ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات تو ہمیشہ بہتر رہے ہیں اورامید ہےکہ مستقبل میں بہتر ہی رہیں گے، ہندوستانی حکومت کے لئے سعودی عرب ایک اہم ملک ہے کیونکہ تیل کا زیادہ تر حصہ سعودی عرب سے ہندوستان آتا ہے یہی نہیں بلکہ سعودی عرب میں کم و بیش 30لاکھ ہندوستانی مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں ہندوستانیوں کا اہم رول رہا ہے اور ہندوستانی لیبر سے لے کر اعلیٰ تجربہ کار قابلِ ڈاکٹرس، انجینئرس ، بینکرس و ماہر معاشیات و مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراداعلیٰ عہدوں پرفائز ہوکر خدمات انجام دیتے رہے ہیں، یہ سلسلہ جاری ہے اور مستقبل میں بھی ہندوستانی تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ ساتھ لیبر پیشہ افراد کی ضرورت بھی سعودی عرب رہے گی۔ وزیر اعظم ہند نے جس طرح اپنے دورہ کے موقع پر اپنے ہم وطنوں سے بات چیت کی اور انکے ساتھ دوستانہ ماحول میں چند لمحات گزارا اس سے سعودی عرب میں مقیم تارکین وطن کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں ۔ بے شک جو دیارِ غیر میں رہتے ہیں ، جب اس ملک کا حکمراں ، یہاں کے حکمراں سے ملاقات کرتا ہے تو اس سے دونوں ممالک کے عوام میں بھی پیار و محبت اور خوشیوں کی فضاءپیدا ہوجاتی ہے اورکیوں نہ ہو یہی تو انسانیت ہے جو ایک دوسرے سے قربت پیدا کرتی ہے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے پر ابھارتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔