کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو

سہیل انجم

سپریم کورٹ کے وکیل اسد علوی نے دشنام طرازی پر اپنے شاندار کالم، مطبوعہ روزنامہ انقلاب، 28؍ اکتوبر، سے خاکسار کے قلم کو مہمیز لگا دی۔ انھوں نے بہت ہی خوبصورت انداز میں سماج، ادب اور گالیوں کے باہمی رشتے پر اظہار خیال کرکے ایک خوابیدہ موضوع کو بیدار کر دیا۔ انھوں نے غالب، چرکین اور کیف بھوپالی کے حوالوں سے اپنی بات کو مزین کیا اور عزیز حسن بقائی کے ماہنامہ ’پیشوا‘ کے گالی نمبر کا بھی حوالہ دیا۔ چرکین کی شاعری یا اردو اور دیگر زبانوں میں برازیات کی شاعری پر پھر کبھی اظہار خیال ہوگا، فی الحال میں خود کو اردو شاعری کے ایک دوسرے پہلو تک محدود رکھوں گا۔ یہ موضوع اس لحاظ سے بھی بروقت ہے کہ ابھی ابھی دہلی میں جشن اردو کا اہتمام ہوا ہے اور آئندہ ماہ 9 نومبر کو علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر یوم اردو کا اہتمام ہوگا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ یوم اردو کس تاریخ کو منایا جائے، یہ ایک لائق تحسین قدم ہے۔ کیونکہ اس کے توسط سے ہم اردو زبان کی صورت حال اور اس کے مسائل پر کچھ دیر گفتگو کر لیتے ہیں ۔ ہمیں اس کا بھی موقع مل جاتا ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں اور یہ دیکھیں کہ ہم اردو کے تئیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کتنے سنجیدہ ہیں ۔

شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے اردو زبان کی شیرینی، حلاوت اور محبوبیت کے بارے میں کہا تھا:

ندّی کا موڑ، چشمۂ شیریں کا زیر و بم          

چادر شبِ نجوم کی، شبنم کا رقصِ نم

موتی کی آب، گل کی مہک، ماہِ نو کا خم

ان سب کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے تو

کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو

لہجہ ملیح ہے کہ نمک خوار ہوں ترا

صحّت زبان میں ہے کہ بیمار ہوں ترا

آزاد شیر ہو ں کہ گرفتار ہوں ترا

تیرے کرم سے شعر و سخن کا امام ہوں

شاہوں پہ خندہ زن ہوں کہ تیرا غلام ہوں

اگر اردو کے ’غلاموں‘ کی فہرست سازی کی جائے تو اس میں بہت سے ’پردہ نشینوں ‘ کے بھی نام آجائیں گے۔ وہ لوگ بھی جو کہ اردو کے بدخواہ ہیں ، اس کی چاشنی، حلاوت اور دلکشی کے شیدا ہیں۔ سیاست داں اپنی تقریروں کو اردو کے اشعار سے سجاتے ہیں اور اس ہتھیار سے اپنے حریفوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں جب بھی کسی اہم موضوع پر بحث ہوتی ہے تو معزز ارکان بھی اشعار کا سہارا لیتے ہیں ۔ اب یہی دیکھیے کہ ارون جیٹلی جیسے غیر شاعرانہ شخص نے بھی جب عام بجٹ پیش کیا تو اشعار کا سہارا لیا۔ انھوں نے اس شعر سے اپنی تقریر شروع کی:

کشتی چلانے والوں نے جب ہار کے دی پتوار ہمیں

 لہر لہر طوفان ملے اور موج موج منجدھار ہمیں

ارون جیٹلی کے اس شعر کو پڑھنے کے بعد ہمیں بہت سے وزرا اور ممبران پارلیمنٹ کے پڑھے گئے اشعار یاد آگئے۔ اس سلسلے میں قارئین کی تفریح طبع کے لیے کچھ مثالیں پیش ہیں ۔ 92۔1991 میں وزیر مالیات کی حیثیت سے جب ڈاکٹر من موہن سنگھ نے عام بجٹ پیش کیا تو انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا:

یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے

باقی مگر ہے اب تک نام و نشاں ہمارا

من موہن سنگھ غالب و اقبال کی شاعری کے دیوانے ہیں ۔ جب 2013ء میں ایک پروگرام کے دوران میڈیا نے ان سے پوچھا کہ آپ کی حکومت کو 9 سال ہو گئے آپ کیا محسوس کرتے ہیں تو انھوں نے پھر اقبال کا شعر پڑھا:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

 ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

لیکن جب ان کے حریفوں نے ان پر مسائل پر نہ بولنے اور خاموش رہنے کا الزام لگایا اور ایک محفل میں اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے ایسا برجستہ شعر پڑھا کہ مخالفین ڈھیر ہو گئے۔ انھوں نے کہا:

ہزاروں جوابوں سے اچھی ہے میری خامشی

نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھ لی

2013ء میں صدر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک کے دوران وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپوزیشن کے الزامات کے جواب میں غالب کا شعر پڑھا:

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

اس پر اہل ایوان نے خوب لطف لیا۔ بی جے پی میں سشما سوراج ایسی لیڈر ہیں جن کو اچھے اشعار یاد ہیں ۔ جب من موہن سنگھ بیٹھ گئے تو سشما کھڑی ہوئیں اور انھوں نے شگفتہ انداز میں کہا کہ وزیر اعظم نے شعر سے ہمارے اوپر حملہ کیا ہے۔ ہم بھی اس کا جواب دینا جانتے ہیں ، ہم شعر ادھار نہیں رکھتے۔ اور ہم ایک نہیں دو شعر پڑھیں گے:

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بیوفا نہیں ہوتا

 انھوں نے یہ مصرعے بھی پڑھے: تمھیں وفا یاد نہیں ہمیں جفا یاد نہیں ، زندگی اور موت کے دو ہی تو ترانے ہیں، اک تمھیں یاد نہیں اک ہمیں یاد نہیں ۔

اسی طرح 2008ء میں کانگریس پر الزام تھا کہ اس نے ایوان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ممبران پارلیمنٹ کو خریدا ہے۔ اس پر پارلیمنٹ میں بحث ہو رہی تھی۔ پھر مقابلہ من موہن سنگھ اور سشما سوراج کے درمیان ہوا۔ سشما نے اپنی تقریر میں من موہن سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تری رہبری کا سوال ہے

ان کے جواب میں من موہن سنگھ نے کہا کہ وہ سشما جی کی طرح اچھے مقرر تو نہیں ہیں لیکن وہ بھی ایک شعر سے جواب دینا چاہتے ہیں ۔ اس پر اپوزیشن کی نشستوں سے بہت زور سے آواز آئی ارشاد!۔ من موہن سنگھ نے پھر اقبال کا شعر پڑھا:

مانا کہ تری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ

سشما جی کو مخاطب کرکے پڑھے گئے اس شعر پر ایوان نے بھرپور لطف لیا، خود سشما نے بھی لیا۔من موہن سنگھ نے فروری2011ء میں صدر کے خطبہ پر ہونے والی بحث میں بھی شعر پڑھا تھا اور وہ تھا:

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

فروری 2011ء میں ریل بجٹ پیش کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے لتا منگیشکر کے گائے ہوئے ایک مشہور نغمے کے اشعار پڑھے۔ مارچ 2011ء میں ایف ڈی آئی پر ہونے والی بحث کے دوران نشی کانت دوبے نے غالب کا یہ شعر پڑھا:

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

یشونت سنہا این ڈی اے حکومت میں وزیر مالیات رہے ہیں ۔ حالانکہ ان بھی شعر و شاعری سے کوئی رشتہ نہیں ہے وہ تو ایک بیوروکریٹ رہے ہیں لیکن انھوں نے بھی بجٹ تقریر کے دوران شعر سے لطف پیدا کرنے کی کوشش کی۔ 2014ء میں کانگریس لیڈر ملک ارجن کھڑگے کو ریلوے بجٹ پیش کرنا تھا۔ بھلا وہ کیسے بغیر شعر کے اپنی تقریر مکمل کرتے۔ لہٰذا انھوں نے غالب کا شعر پڑھا:

صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

انھوں نے یہ عوامی شعر بھی پڑھا:

          کبھی چلمن سے وہ جھانکیں کبھی چلمن سے ہم جھانکیں

           لگا دو آگ چلمن میں نہ وہ جھانکیں نہ ہم جھانکیں

وزیر اعظم نریندر مودی نے 9 مارچ 2016 کو پارلیمنٹ میں بحث کے دوران راہل گاندھی کی تقریر کے جواب میں جو تقریر کی اس میں انھوں نے ندا فاضلی کے یہ ا شعار پڑھے اور محفل لوٹ لی:

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں ، تم بھی نکل سکو تو چلو

کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں

تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا

مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

اس سے قبل ۸ مارچ کو یوم خواتین کے موقع پر پارلیمنٹ میں خاتون ممبران کو بولنے کا موقع ملا تو اس میں بھی کئی ممبران نے اشعار پڑھے۔  ایک خاتون ممبر کے یہ اشعار اچھے لگے:

دن کی روشنی خواب بنانے میں گزر گئی

 رات کی نیند بچوں کو سلانے میں گزر گئی

 جس گھر میں مرے نام کی تختی بھی نہیں ہے

 ساری عمر اس گھر کو سجانے میں گزر گئی

تقریباً ایک سال قبل ایک تقریب کے دوران سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے جو کہ کشمیری الاصل ہیں ، جج حضرات کے تقرر پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا:

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

 ابھی تاج محل پر تنازعہ کے دوران بھی اشعار کا خوب استعمال ہوا اور خاص طور پر میڈیا رپورٹوں میں دو شعرا کے اشعار بار بار دوہرائے گئے۔ ایک شکیل بدایونی کا یہ شعر:

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

اور دوسرا ساحر لدھیانوی کا یہ شعر:

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

بہر حال شاعری سے کسی کو مفر نہیں ۔ خواہ اردو دوست ہوں یا اردو دشمن۔

تبصرے بند ہیں۔