عصر حاضر میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت 

سعیدالرحمٰن عبدالخالق

تاریخ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ قوموں کے عروج وزوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی و تنزلی، خوشحالی و فارغ البالی اور بدحالی کے تقدم و تخلف میں اتحاد و اتفاق، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلاف و انتشار، تفرقہ بازی،اور باہمی نفرت و عداوت کلیدی رول آدا کرتا ہے۔ اور آج کے دور میں مسلمان جس قدر ذلیل و خوار اور رسوا ہے شاید اس سے پہلے کسی دور میں رہا ہو اور جتنا کمزور آج کا مسلمان ہے شاید ہی اتنا کمزور کبھی رہا ہو۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے اور دنیا کی تمام قومیں مسلمانوں پر پل پڑی ہیں۔ ہر جگہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، ان کی عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے، ان کے املاک تبای و برباد کئے جا رہے ہیں، بہت سارے ممالک میں انہیں تہ وتیغ کیا جارہا ہے جن میں قابل ذکر فلسطین، افغانستان،عراق، سوریا،حلب اور میانمار ہے۔ وطن عزیز میں بھی مسلمانوں کو مختلف اوقات میں مختلف طریقے سے ہراساں و پریشاں کیا جاتا ہے کبھی شریعت میں رد وبدل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی گائے کے نام پر معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اسلامی قلعے مدارس و مساجد کی طرف انگشت نمائی کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اخر ہماری ایسی درگت کیوں ہو رہی ہے، ہمیں ہر طرف سے دبانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے۔ اس کے اسسباب و وجوہات کیا ہیں جب کی اللہ نے مسلمانوں کو ان کے گناہوں اور معصیتوں کے باوجود بہت ساری نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور یہ نعمتیں مختلف انواع و اقسام کے ہیں جیسے اللہ نے مسلمانوں کو زراعتی،حیوانی،آبی، معدنی غرضیکہ ہر قسم کے ثروت و دولت سے نوازا ہے، پیٹرول کا ایک وافر مقدار مسلمانوں کے پاس موجود ہے، مسلمانوں کی تعداد بھی ایک عرب سے زائد ہے،ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں اور ان کا محل وقوع بھی بہت اہم ہے، اہم آبی گزر گاہیں مسلمانوں کے پاس ہیں۔ پھر مسلمان اتنا بے بس، مجبور، کمزور، ذلیل کیوں ہیں ان کے خون کی قیمت پانی سے بھی ارزاں کیوں ہے ؟

ان کے متعدد وجوہات ہو سکتے ہیں مگر ان میں سب سے اہم اور اصل وجہ آپسی اختلاف و انتشار اورتفرقہ بازی ہے یہی وہ بیماری ہے جس نے آج مسلمانوں کو مفلوج کر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے آج اغیار ہم پر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں اپنے اسلاف سے اتحاد اتفاق اور باہمی یکجہتی کی جو میراث ملی تھی ہم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے اوراس کے بر عکس آج دوسری قومیں متحد و متفق ہو کر اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول میں کوشاں نظر آرہی ہیں۔ کسی شاعر نے کہا۔

گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی 
ثریاسے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا 

جبکہ قرآن کریم نے ہمیں زمانہ نزول سے ہی یہ سکھا دیا تھا کہ ( ترھبون بہ عدواللہ و عدوکم)(انفال ۶۰) یعنی اپنی طاقت کے ذریعہ تم اپنے اور اللہ کے دشمن کو خائف کر سکتے ہو۔ اور قرآن مجید میں مسلمانوں کو متعدد بار اس بات کی تلقین کی گئی کہ آپسی اختلافات کو ختم کرکے متحد و متفق ہو جاؤ ارشاد باری تعالیٰ ہے (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا) (ال عمران ۱۰۳) اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔ مفسرین کے نزدیک ’’حبل اللہ ‘‘سے مراد کتاب اللہ اور سنت رسول ہے۔ لہذا امت محمدیہ کے پاس کتاب اللہ اور سنت رسول کی شکل میں اتحاد و اتفاق کی دومضبوط بنیادیں موجود ہیں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ‘‘(مسلم) میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک ان دونوں چیزوں کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور رسول کی سنت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اختلاف اور باہمی انتشار و بد امنی کی مذمت کرتے ہوئے اسے بد ترین عذاب قرار دیا ہے (قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم و من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعا و یذیق بعضکم بأس بعض )(انعام ۶۵)بتا دیجئے کی اللہ قادر ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے،تم پر کوئی عذاب مسلط کر دے یا تمہیں فرقہ فرقہ بنا کر ایک فرقے کو دوسرے سے لڑائی کا مزا چکھا دے۔ابن اثیر نے کہا کہ شیعا سے مراد امت اسلامیہ کیاتفرقہ پھیلانا ہے(النھایہ فی غریب الحدیث ج۲ ص ۵۲۰)اللہ رب العالمین نے پیغمبروں کو ایسے لوگوں سے لا تعلقی کا حکم دیا جو آپس میں اختلاف ایجاد کرتے ہیں اور اس پر اصرار بھی کرتے ہیں (ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شئی)(انعام ۱۵۹) جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈلا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کا کوئی سروکا ر نہیں ہے۔

اللہ نے آپسی اختلاف و انتشار اور فخر و غرورکو مشرکوں کا شیوہ قرار دیتے ہوئے فرمایا(ولا تکونوا من المشرکین من الذین فرقو ادینھم وکانوا شیعا)(روم ۳۱) اور ان مشرکوں میں سے نہ ہو جانا جنہوں نے اپنا دین الگ کر لیا اور گروہوں میں بٹ گئے۔ جب انسان اتحاد و اتفاق کو طاق نسیاں میں رکھ کر گروہوں اور ٹولیوں میں بٹ جاتا ہے، تو ان کا انجام کیا ہوتا اور کس طرح سے انہیں اس کا نتیجہ ملتا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا (ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم )(انفال ۴۶)اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم لوگ بزدل ہو جاو گیاور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی۔مزید فرمایا (ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجاء ھم البینات والٰئک لھم عذاب علیم )(ال عمران ۱۰۵ )اوران لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقے میں بٹ گئے اور روشن دلائل آ جانے کے بعداپس میں اختلاف کرنے لگے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔

پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی جانب سے اہل ایمان کے درمیان اتحاد واتفاق کو باقی رکھنے کے لئے متعدد فرامین وارد ہوئے ہیں۔ اپ ﷺ نے فرمایا ’’تری المؤمن فی تراحمھم و تودھم و تعاطفھم کمثل الجسداذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر الجسد بالسھر و الحمیٰ‘(متفق علیہ) موموں کی مثال ایک دوسرے سے رحم کرنے، ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے جب ان میں سے کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو پورا جسم اس کے لئے درد اور بخار کے ساتھ رات جگائی کرتا ہے۔ اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ’’المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ‘‘ ( صحیحین) ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے عمارت کے مانند ہے جس کا بعض بعض سے تقویت حاصل کرتا ہے۔اسی طرح اسلامی جماعت سے کناری کشی کرنے والوں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا۔ ’’من فارق الجماعۃ فقد مات میتۃالجاھلیہ‘‘(مسلم) جوشخص جماعت سے الگ ہوا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو گئی تو گویا کہ وہ جاہلیت کی موت مرا۔

آج پوری دنیا کے مسلمانوں کی حالت زار اس بات کا تقاضہ کررہی ہے کہ تمام مسلمان خصوصا وارثین انبیاء ا تحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی دعوت دینے اور اس کے فضائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ عملی پروگرام اور لائحہ عمل بھی بنائیں۔ اج امت اسلامیہ کا ایک عظیم المیہ یہ ہے کہ وہ ایک اللہ ایک رسول اور ایک قرآن کے حامل ہونے کے باوجود افتراق و انتشار کے شکار ہیں اور یہ اختلاف ہمارے بعض عمائدین ملت، علماء د ین اور نام نہاد ملت فروش قائدین نے مسلک و جماعت اور عقیدہ و نظر کے اختلاف کو ہوا دیکر پیدا کیا ہے۔

عموما اتحاد ملت کا ایک نظریہ یوں پیش کیا جاتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے مسلک پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہواور بنیادی طور پر تمام مسلک اور فرقوں کی بقاء و تحفظ کے ساتھ ساتھ مسلمان ایک پلیٹ فرم پر جمع ہو جائیں، بظاہر یہ ایک ایسا عمدہ اور خوشنما اتحادی تصور ہے جس پر عمل پیرا ہو کر مسلمانوں کی صفوں میں ا تحاد و اتفاق اور یکجہتی پیدا کی جاسکتی ہے مگر دین اسلام ہمیں اس طرح کے تحاد کی اجازت قطعی اجازت نہیں دیتا بلکہ اتحاد کا جو اصل تصور ہے وہ ہے ’اعتصام بحبل اللہ والتمسک بالکتاب والسنہ’‘یعنی پہلے آپسی فرقہ بندیوں کو ختم کیا جائے اور قرآن وسنت کو اپنا آئڈیل و مشعل راہ بناتے ہوئے سب سے پہلے امت مسلمہ اپنے عقائد و نظریات میں یکجہتی پیدا کرے اور جب عقائد ونظریات درست ہو جائیں گے تو پھر فطری طور مسلمانوں میں اتحاد اتفاق کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ کسی شاعر نے کہا

چاہتے ہو اگر زمانے میں وقار دائمی
سب سے پہلے اتحا باہمی پیداکرو۔

قارئین کرام ! اتحاد ملت کے لئے چند مطلوبہ اوصاف ہیں جن پر عمل کئے بغیر امت اپنے اس مقصد میں کامیاب و کامراں نہیں ہو سکتی وہ مطلوبہ اوصاف یہ ہیں۔ (۱)شخصی، گروہی اور مسلکی عصبیت سے اجتناب کیا جوئے (۲)اپنوں اور غیروں کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے(۳)الزام اور طعن و تشنیع سے مکمل اجتناب کیا جائے (۴)اختلافی امور میں سختی کے بجائے نرمی و فیاضی کامعاملہ کیا جائے(۵)بحث و مباحثہ میں احسن طریقہ اختیار کیا جائے۔

اتحا ملت کے لئے چند علمی وعملی ذرائع۔:(۱) کلمہ گو مسلمانوں کی تکفیر سے اجتناب کیا جائے(۲) اختلاف علم کے تمام ممکنہ اسباب کی گہری فہم حاصل کی جائے(۳) منہج سلف کی پیروی کی جائے (۴) اسلام کے اہم مسائل کی جانب خصوصی توجہ دی جائے (۵) اختلافی امور میں اعدال کی پیروی اور تشدد سے اجتناب کیا جائے(۶) محکمات پر توجہ اور مشتبہات سے اجتناب کیا جائے (۷) گروہی مفاد پر امت کے مفاد کو ترجیح دی جائے (۸)متفق علیہ مسائل میں تعاون کیا جائے۔

حضرات ! اتحاد و اتفاق کے سلسلے میں یہ چند چیزیں تھیں جو میں آپ کے سامنے ذکر کی ہیں اور میرا یقین ہے کہ اللہ نے جو کچھ فرمایا وہی سچ ہے اور اسی پر عمل کرکے ایک بار پھر یہ امت سرخرو اور کامیاب ہو سکتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت، مجد، شہرت، عزت اور ساکھ کو دوبارہ بحال کر سکتی ہے اگر ہم اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو ذلت ورسوائی اور بزدلی مزید اس قوم کی مقدر بن جائے گی اس لئے سب سے پہلے ہمیں بیدارہونا ہو گا جب ہم بیدارگے تو پھر پوری قوم بیدار ہوگی۔ چونکہ اللہ کا ارشاد ہے۔ (ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرما بانفسھم )(رعد ۱۱ )

شاعر نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے۔ ۔۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 

نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا

اخیر میں اللہ سے دعا ہیکہ ہم سب کو اتحاد واتفاق سے رہنے اور ایک دوسرے محبت و مؤدت کرنے کی توفیق دے۔ ۔۔۔آمین

سات صندوقوں میں بھر کردفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    تفرقہ اور اختلاف رائے دو علیحدہ چیز ہیں
    تفرقہ کے لغوی معنی ”علیحدگی٫امتیاز٫فرق“ کے ہیں
    مثال کو طور پر دین اسلام کے احکامات کی تکمیل کے بعد اسلام کا پیغام دنیا تک پہچانے والی پہلی سیڑھی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
    جن سے ایک جماعت نے مکمل اختلاف کرتے ہوئے اپنی راہیں جدا کیں
    تو یہ تفرقہ یا علیحدگی یا امتیاز پیدا کیا گیا
    یعنی اسلام کا پیغام پوری دنیا تک پہچانے والے صف اول کے دستے سے عدم اعتماد کا مطلب ہر مسلمان سمجھ سکتا ہے
    اسی طرح اس سے آگے کے وہ دستے جو سینہ بہ سینہ اسلام کا پیغام لے کر آگے بڑھتے گئے جیسے تابعین کرام تبع تابعین کرام کے خلاف اپنی راہیں جدا کرتے گئے ۔۔ دراصل تفرقے میں وہ لوگ شامل ہیں
    اس کے بعد بے شمار مسائل ایسے تھے جن کی صراحت قرآن یا احادیث رسول میں نا تھی
    اور ہر دور کے علما فقہا محدثین مفسرین شارحین وغیرہم نے اپنے اجتہاد سے مسائل کا تعین فرمایا
    یہ اختلاف رائے کہلاتی ہے جو صحابہ کرام سے لے کر ہر دور میں رہی
    جو ہرگز تفرقہ یا معیوب نہیں بلکہ ایک بدیہی امر تھی
    اس کے بعد دور آگے بڑھتا گیا مسائل پر خوب تحقیق ہوتی رہی
    جس کے بعد مختلف فقہا کرام نے اپنی اپنی تحقیق کے مطابق شرعی مسائل کے جوابات پیش فرمائے
    جس میں سے چار فقہائے کرام کی تحقیق مسلمانوں میں موجود رہی ۔۔۔ اور مسلمان صدیوں سے اپنے اپنے ائمہ کرام کی تحقیق کے مطابق شرعی احکام پر عمل کرتے رہے
    یہ یاد رہے کہ فقہی مسائل کا تعلق اجتہاد سے رہا اور ائمہ اربعہ کے اہل علم ہر ایک کو اپنی جگہ درست ٹہراتے تھے
    جب کہ کچھ لوگوں نے ”اجتہادی مسائل“ پر بھی تشدد کا راستہ اختیار کیا اور اپنے سوا باقی کو غلط ٹہرایا
    تو یہ بھی تفرقہ کی ایک قسم کہلاسکتی ہے
    کہ اجتہادی مسائل میں کوئی سو فیصدی یقین سے اپنے آپ کو درست نہیں کہہ سکتا ۔۔ خطاء کا احتمال برقرار رہتا ہے
    ایسی حالت میں اپنا یقین بنا لینا کہ میرا مکتب فکر سوفیصد درست ہے باقی غلط تو اس لیے اس سوچ پر تفرقہ کا گمان رکھا جاسکتا ہے
    اس کے بعد کچھ لوگوں کی رائے یہ بھی رہی کہ جس فقہ سے جو بات درست لگے وہ لے لو
    تو اس پر علما دین نے اس لیے مخالفت کی کہ پھر یہ طریقہ لوگوں کے لیے خواہشات پوری کرنے کا سبب بن جائے گا
    یعنی لوگ اپنے لیے آسانیاں ڈھونڈنے لگ جائیں گے
    اور یہ چیز اپنے نفس کو اسلام کا تابع کرنے والے اصول کے خلاف ہے ۔۔ لوگ اسلام کو نفس کے تابع لانے کی جستجو میں لگ جائیں گے
    لہذا ہر مسلمان کے لیے اسلام کے بنیادی احکام اور ضروریات دین بلا تفریق کسی مکتب کے ازخود جاننا سیکھنا اور عمل کرنا لازم ہے
    اس کے بعد فروعات دین کے لیے ائمہ اربعہ سے کسی ایک فقہ کی پیروی ضروری ہے
    لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بطور مسلمان ہم اپنا تعارف کسی مکتب سے نا کروائیں
    البتہ ناگزیر صورت میں گنجائش ممکن ہے
    اور آخری بات کہ بہت سے دوست فقہ کو قرآن سنت سے کوئی علیحدہ چیز سمجھتے ہیں
    جو کہ سخت غلط فہمی ہے
    الحمدللہ فقہ قرآن و سنت کا نچوڑ ہے جو کم علمی کے سبب بعض مسائل متعارض نظر آتے ہیں
    ورنہ متاخرین علما دین نے ہر گوشہ سے باریک بینی سے ہرمسئلہ کی خوب تحقیق کا حق ادا کیا
    جو آج کے دور میں ایسی تحقیق کا حق ادا کرنا ناممکن ہے
    کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اگر چہ فتنوں نے مسلمانوں کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے
    اور توازن قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے
    لیکن پھر بھی ہمیں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے
    جو غلط ہے اس کی نشاندہی ضروری ہے تو جو صحیح ہے اس کی حقیقت بھی تسلیم کرنا ضروری ہے
    ورنہ تو فتنوں کی شدت دیکھ کر صحیح راہ والا بھی لڑکھڑا جاتا ہے.

تبصرے بند ہیں۔