میاں بیوی کے اچھے اور برے تعلقات کے اثرات و نتائج (تیسری قسط)

عبدالعزیز

بد زبانی نہ کی جائے:

وَلَا یُقْبَحُ بھی فرمایا گیا کہ جسمانی سزا تادیب کیلئے ہونی چاہئے اس لئے اپنی بیوی کو گالی گلوچ یا برے کلمات کہہ کر ذہنی اذیت مت کرو۔

 مرد کے تا دیبی اختیارات کی یہ آخری حد ہے اگر اس کا نتیجہ مفید مطلب برآمد ہو اور عورت بغاوت کی بجائے اطاعت کی راہ پر آجائے تو پچھلی کدورتیں بھلا دینی چاہئیں، اس سے انتقام لینے کے بہانے نہیں ڈھونڈنے چاہئیں۔ مرد کو اپنی قوامیت کے زعم میں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سب سے بلند اور سب سے بڑا اللہ ہے جس کی گرفت سے کوئی باہر نہیں۔

  لیکن اگر یہ ترغیب و تادیب کے تمام ممکن ذرائع استعمال کرنے کے بعد بھی عورت نشوز سے تائب نہیں ہوتی اور مرد کی تمام تدابیر اکارت جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے مرد یعنی شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے۔ اب چونکہ یکجائی کی کوئی صورت نہیں اور اختلافات کی خلیج بہت وسیع ہوگئی ہے اس لئے بہتر ہے کہ طلاق کے ذریعہ دونوں الگ ہوجائیں کیونکہ اب اگر زبردستی دونوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی تو اولاً تو یہ دونوں پر ظلم ہوگا اور ثانیاً اس سے مقاصد نکاح کو بھی نقصان پہنچے گا کیونکہ نکاح کے دو بڑے مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ میاں بیوی کے باہمی گہرے جذباتی رشتے سے شرم و حیا اور عفت و عصمت کا وہ قلعہ تعمیر ہو جس میں یہ دونوں نہایت پاکیزہ زندگی گزاریں۔ دوسرا یہ کہ ان دونوں کے درمیان مودت و رحمت کے جذبات کی وجہ سے معاشرے کو یک مضبوط معاشرتی اور اخلاقی بنیاد فراہم ہو جو تہذیب و تمدن کیلئے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے میں ممد و معاون ہو، لیکن جب دونوں مقاصد کسی طرح بھی بروئے کار آتے نظر نہیں آتے تو شریعت دو زندگیوں کو تباہ کرنے اور اس کے وسیع تر اثرات سے معاشرے کو بچانے کیلئے مرد کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ طلاق دے کر نئی زندگی کے آغاز کی صورت پیدا کر دے۔ قرآن کریم واضح طور پر جہاں بھی احکام طلاق بیان کرتا ہے وہاں فعل طلاق کو شوہر کی طرف منسوب کرتا ہے اور سورۃ البقرہ آیت 31 میں صریحاً شوہر کے بارے میں کہتا ہے:

  بِیَدِہٖ عُقْدَۃ النِّکاح

(نکاح کی گرہ شوہر کے ہاتھ میں ہے)۔

  اب کون یہ حق رکھتا ہے کہ اس گرہ کو اس کے ہاتھ سے چھین کر کسی اور کے ہاتھ میں دے دے۔ عورت کو خلع کا حق یقینا شریعت اسلامیہ نے دیا ہے جو طلاق سے کچھ مختلف ہے۔

 ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ سے شکایت کی کہ میرے آقا نے اپنی لونڈی کا نکاح مجھ سے کیا تھا اب وہ اسے مجھ سے جدا کرنا چاہتا ہے۔ اس پر آپ نے خطبے میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

   ’’اے لوگو! یہ کیا ماجرا ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے غلام سے اپنی لونڈی بیاہ دیتا ہے پھر دونوں کو جدا کرنا چاہتا ہے، طلاق کا اختیار تو شوہر کو ہے‘‘۔

  ویسے بھی طلاق کا حق اگر عورت کو دیا جاتا تو پھر شاید ہی کوئی زندگی بھر کا ساتھ دے سکتا کیونکہ عورت کی طبیعت میں جذبات کی فراوانی اور حالات سے شدید تاثر کی جو کیفیت فطرت نے ودیعت کی ہے (اور یہی اس کی طبیعت کا حسن بھی ہے) اس کے پیش نظر بہت امکان تھا کہ وہ اس تعلق کو توڑنے میں ہمیشہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتی اور معمولی اختلافات میں بھی صبر و تحمل کو بھی ہاتھ سے چھوڑ دیتی۔

 مرد کو یہ اختیار آخری چارہ کے طور پر دیا گیا ہے ورنہ ہمارا پروردگار طلاق کو ہر گز پسند نہیں فرماتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

   اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطّلاَقُ ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘۔

  مزید ارشاد فرمایا: ’’نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ اللہ مزے چکھنے والوں اور مزے چکھنے والیوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔

 اگر طلاق کے سوا کوئی اور صورت باقی نہ رہے تو پھر بھی شریعت ہدایت کرتی ہے کہ زندگی بھر کا یہ تعلق یک لخت نہ توڑ ڈالو بلکہ ایک ایک مہینے کے فاصلہ سے ایک ایک طلاق دو۔ تیسرے مہینے کے اختتام تک تم کو سوچنے سمجھنے کا موقع حاصل رہے گا۔ ممکن ہے اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے یا عورت کے رویہ میں کوئی صحت مند تغیر واقع ہو جائے یا خود تمہارا دل ہی بدل جائے، البتہ؛ اگر اس مہلت میں سوچنے اور سمجھنے کے باوجود تمہارا فیصلہ یہی ہو کہ اس عورت کو چھوڑ دینا چاہئے تو پھر چاہو تو تیسرے مہینے کے ختم پر آخری طلاق دے دو ورنہ رجوع کئے بغیر یونہی عدت گزر جانے دو بلکہ احسن طریقہ یہ ہے کہ تیسری مرتبہ طلاق نہ دی جائے بلکہ یونہی عدت گزر جانے دی جائے۔ اس صورت میں یہ موقع باقی رہتا ہے کہ اگر یہ زوجین باہم نکاح کرنا چاہیں تو دوبارہ ان کا نکاح ہوسکتا ہے لیکن تیسری بار طلاق دینے سے طلاق مغلظ ہوجاتی ہے۔ جسکے بعد تحلیل کے بغیر زن و شوہر کا ایک دوسرے نکاح نہیں ہوسکتا۔ افسوس یہ ہے کہ لوگ بالعموم اس مسئلے سے ناواقف ہیں اور جب طلاق دینے پر آتے ہیں تو چھوٹتے ہی تین طلاق دے ڈالتے ہیں بعد میں پچھتاتے ہیں اور مفتیوں سے مسئلے پوچھتے پھرتے ہیں۔

حاصل کلام یہ کہ مرد کا ناگزیر حالات میں طلاق کا اختیار دیا گیا ہے لیکن شریعت کا حقیقی منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی نا گفتہ بہ حالت میں بھی جہاں نصیحت، ہجر فی المضاجع اور ضرب و تعزیر بھی ناکام ہو جائیں اور نظر بظاہر طلاق کے سوا کوئی صورت نظر نہ آتی ہو وہاں بھی وہ اصلاح احوال کیلئے ایک اجتماعی کوشش کا حکم دیتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

 ’’اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ ہو ایک پنچ مرد کے لوگوں میں سے اور ایک پنچ عورت کے لوگوں میں سے مقرر کرو، اگر دونوں اصلاح کے طالب ہوئے تو اللہ ان کے درمیان سازگاری پیدا کر دے گا، بے شک اللہ علیم و خبیر ہے‘‘ (النساء: 35)۔

یعنی جب دیکھو کہ شوہر کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور معاملہ جدائی اور افتراق تک پہنچا چاہتا ہے تو اب میاں بیوی کے قبیلہ، برادری اور ان کے رشتہ داروں اور خیر خواہوں کو آگے بڑھنا چاہئے اور اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر اس کی بگاڑ کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کی عملی صورت یہ ہو کہ ایک پنچ میاں کے رشتہ داروں سے منتخب کیا جائے، دوسرا بیوی کے خاندان میں سے۔یہ دونوں مل کر اصلاح کی کوشش کریں۔ بسا اوقات فریقین جس جھگڑے کو خود طے کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے دوسرے خیر خواہوں کی مداخلت سے وہ طے ہوجاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں خطاب جمع کے صیغے سے ہے جس کے مخاطب میاں بیوی کے خاندان بھی ہوسکتے ہیں اور پورا اسلامی معاشرہ بھی جن کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے۔ یہ تینوں درجہ بدرجہ اس کے مکلف ٹھہرائے گئے ہیں۔ ہمارے فقہائے کرام نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ جو ثالث مقرر کئے جائیں گے ان کے اختیارات کیا ہوں گے؟ جو بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر تو میاں بیوی انھیں صرف اس لئے منصف مان رہے ہیں کہ وہ جانبین کے معاملات سن کر صرف مشورہ دیں یا تصفیہ کی کوئی سفارش کریں تو ایسی صورت میں یقینا ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ ہاں! اگر زوجین نے انھیں طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے میں اپنا وکیل بنایا ہو تو اب ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کیلئے واجب ہوگا اور اگر یہ معاملہ عدالت تک پہنچ جائے تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات حکم مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے انھیں حاکمانہ اختیارات بھی دیتے تھے۔ حضرت عقیل ابن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عقبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمان کی عدالت میں پیش ہوا تو انھوں ںے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس کو اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہاکہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان دونوں درمیان تفریق کر دینا ہی کافی ہو تو تفریق کر دیں۔ اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علیؓ نے حکم مقرر کئے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہیں ملا دیں اور چاہیں جدا کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطور خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے، البتہ اگر میاں بیوی اس پر راضی ہوں یا عدالت ان کو مقرر کرتے وقت اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہوگا۔

 گزشتہ دونوں آیات پر اگر آپ مجموعی طور پر تدبر کی نگاہ ڈالیں تو دو باتیں واضح طور پر معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ میاں بیوی کا باہمی رشتہ اور تعلق انتہائی نزاکت احساس کا حامل ہے۔ اسی طرح ان کے باہمی اختلافات نہایت خطرناک نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔ بنا بریں یہ ضروری ہے کہ ان اختلافات کو حتی الامکان باہر نکلنے اور لوگوں کی زبانوں پر چڑھنے سے روکا جائے۔ اس لئے سب سے پہلے تو یہ حکم دیا کہ شوہر اپنے تینوں اختیارات یکے بعد دیگرے استعمال کرکے گھر ہی میں اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کرے، لیکن اگر یہ معاملہ ان کے اپنے قابو سے نکل گیا ہے تو پھر دونوں گھروں کے ذمہ دار لوگ اس میں مداخلت کریں اور جانبین میں سے ایک ایک حکم مقرر کرکے خاندانوں ہی میں ان اختلافات کو حل کرکے دفن کر دینے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر معاملہ عدالت تک پہنچنا ناگزیر ہوجائے تو پھر عدالت کے معاملے میں بھی اسلام کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی میاں بیوی کے خاندانوں کے ذمہ دار لوگوں کے واسطے سے ان اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے قاضیوں کے نام ایک فرمان جاری فرمایا تھا اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ آپؓ نے لکھا تھا:

 ’’رشتہ داروں کے مقدمات کو انہی میں واپس کردو تاکہ وہ خود برادری کی امداد سے آپس میں صلح کی صورت نکالیں کیونکہ قاضی کا فیصلہ دلوں میں کینہ و عداوت پیدا ہونے کا سبب ہوتا ہے‘‘۔

 دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ میاں بیوی کا تعلق ایک گھر کو بسانے یا اجاڑنے کا باعث ہے۔ اس کی کامیابی سے خاندان وجود میں آتا ہے اور اسی خاندان کی ترقی یافتہ صورت مسلمان معاشرہ اور اسلام کا سیاسی نظام ہے۔ اس لئے تمام دینی اور شیطانی قوتوں کا ہمیشہ یہ ہدف رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس رشتے میں دراڑیں پیدا کریں۔ چنانچہ اس شیطانی مقصد کو بروئے کار لانے کیلئے وہ اپنی تمام ممکن مساعی کو صرف کر دینے سے بھی دریغ نہیں کرتیں کیونکہ ایک گھر اجاڑنے میں ان کی کامیابی درحقیقت اسلامی معاشرے کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

شیطان کا سب سے اہم کارنامہ:

 ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابلیس کبھی کبھی سمندر میں پانی کی سطح پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنا دربار منعقد کرتا ہے، اس کے تمام کارندے دربار میں حاضر ہوتے ہیں۔ ابلیس ان سب سے ان کی کارکردگی کی رپورٹیں سنتا ہے۔ ایک چیلا اپنی کارگزاری سنتا ہے کہ ایک شخص نماز پڑھنے کے ارادے سے مسجد کی طرف جارہا تھا میں نے درمیان میں اس کو ایک ایسے کام میں پھنسا دیا جس سے اس کی نماز چھوٹ گئی۔ ابلیس سن کر خوش ہوتا ہے کہ تم نے اچھا کام کیا۔ اسی طرح ہر چیلا مختلف لوگوں کے گمراہ کرنے اور اچھے کام روکنے کی کار گزاری سنتا ہے، ابلیس سب کو شاباشی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک چیلا آکر بیان کرتا ہے کہ دو میاں بیوی باہمی اتفاق اور محبت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے میں نے جاکر ایک ایسا کام کیا جس کے نتیجے میں دونوں میں جدائی واقع ہوگئی۔ ابلیس یہ سنتے ہی خوشی کے مارے تخت پر کھڑا ہوجاتا ہے، اس چیلے کو گلے لگاتا اور معانقہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تو صحیح معنی میں میرا نمائندہ ہے اور تو نے جو کام کیا وہ اصل میں حقیقی کارنامہ ہے جس پر مجھے فخر ہے۔

 حاصل کلام یہ کہ گھر کی آسودگی اور اس کا پرسکون ماحول خاندان کی بقا اور اس کے کردار کے نتیجہ خیز ہونے کی ضمانت ہے، ا س لئے شریعت نے خاتون خانہ پر آخری ذمہ داری یہ ڈالی ہے کہ مرد جب تک بیرون خانہ اپنی ذمہ داریوں اور اجتماعی فرائض ادا کرنے میں مشغول ہے وہ گھر اور اہل و عیال کے تمام امور کی نگران ہے اور اس کے بارے میں اسے عنداللہ جواب دہی بھی کرنا ہوگی کیونکہ اگر وہ ذمہ داری ادا کرنے میں تساہل یا تغافل کا ثبوت دے گی تو گھر کے معاملات بگڑ جائیں گے۔ بچوں کی تربیت متاثر ہوگی۔ نتیجتاً شوہر گھر میں الجھ کر باہر کی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکے گا۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’عورت اپنے خاوند کے گھر پر نگران ہے اور جواب دہ ہے‘‘۔

  اس اعتبار سے عورت کی بڑی ذمہ داری گھر کی تنظیم بچوں کی تربیت اور خاندان کے وقار کی حفاظت ہے اور ایسا ہی خاندان ایک ایسے معاشرے کی بنیاد ہے جہاں ایک زندہ اولوالعزم اور آبرو مند قوم وجود میں آتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔