کسی عمل کو معمولی نہ سمجھئے

 ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اعمال کے مختلف درجات ہیں۔ ان کے اعتبار سے ان پر حاصل ہونے والے اجروثواب یا سزا وعذاب کے درجات بھی مختلف ہیں۔ کسی نیک عمل پر بڑے اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو کسی پر اس سے کم تر اجر وثواب کا۔ اسی طرح کسی گناہ کے کام پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے تو کسی پر اس سے کم تر عذاب۔ لیکن یہ بڑی نادانی کی بات ہوگی کہ کم تر اجروثواب  والے عمل کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اس پر توجہ نہ دی جائے اور معمولی گناہ کو ہلکا سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرلے، وہ انسان کو روز قیامت سرخ رو کرسکتا ہے خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتناہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ اور جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہو، وہ انسان کے لیے موجبِ ہلاکت ہوسکتا ہے خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور ہلکا کیوں نہ ہو۔ احادیث میں اس پہلو پر بہت زور دیا گیا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے متعدد مواقع پر صحابہ کرام کو بہ تاکید نصیحت فرمائی ہے کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا:

لا تحقرن من المعروف شئیا۔ (صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، مسند احمد)

’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو۔ ‘‘

عربی زبان میں یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کسی چیز سے سختی سے روکنا مقصود ہو۔ اس اسلوب میں جو زور پایا جاتا ہے اسے زبان شناس بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔

آں حضرت ﷺ نے نہ صرف یہ کہ بطریق اجمال اس طرف توجہ دلائی بلکہ اپنے ارشادات میں ایسے متعدد کاموں کا تذکرہ کیا جنھیں عام طور سے بہت معمولی سمجھا جاتا ہے اور زور دے کر فرمایا کہ انھیں ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ بڑے جلیل القدر اور قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا:

لا تحقرن من المعروف شئیا ولوأن تلقی اخال بوجہ طلق۔

(صحیح مسلم:کتاب البروالصۃ، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء)

’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو خواہ یہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو۔ ‘‘

کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا بظاہر ایک بہت معمولی عمل ہے۔ بسا اوقات ہم میں سے کسی کی بھی توجہ اس طرف نہیں جاتی۔ لیکن عملی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی سے گفتگو کرنا یا اس سے کچھ دریافت کرنا چاہیں اور وہ ہماری طرف التفاق نہ کرے یا ترش روئی کے ساتھ جواب دے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر بات کرنے والا یا کچپ دریافت کرنے والا سماجی اعتبار سے کم مرتبے کا ہے تو جواب دینے والا اس کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے اور اس کے چہرے پر وہ انبساط نہیں آتا جو مطلوب ہے۔ ایک مومن کے شایان ِشان نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے اس حال میں ملے کہ اس کے چہرے پر تکبر اور رعونت کے آثار ہوں یا وہ بالکل سپاٹ، اور انبساط، محبت اور اپنائیت کے احساسات سے عاری ہو۔

حضرت ابوجری جابر بن سُلیم الہجیمیؓ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک وفد کے ساتھ آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ ہمیں کچھ کارآمد باتوں کی نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا:

لا تحقرن من المعروف شئیا ولو ان تفرغ من دلوک فی إناء المستسقی۔ ولوأن تکلم أخاک ووجوہک إلیہ منبسط۔

                                                (مسند أحمد، 5/63)

’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو۔ خواہ یہ تمھارے اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی انڈیلنا ہو، یا تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ گفتگو کرنا ہو۔ ‘‘

دوسری روایت میں ابتدائی الفاظ یہ ہیں :

لا تزہدن فی المعروف۔ (یعنی کوئی نیک کام کرنے میں بخل سے کام نہ لو۔ )

اسے معمولی سمجھ کر چھوڑ نہ دو۔ اس حدیث میں آپؐ نے خندہ روئی سے ملنے کے علاوہ ایک دوسری مثال بھی دی ہے۔ کسی پیاسے کو پانی پلادینا بظاہر بہت معمولی کام ہے۔ لیکن آپؐ نے تاکید فرمائی کہ اسے بھی انجام دینا چاہیے اور اس پر اجر و ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اسے ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی ہمدردی میں اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں کیا جانے والا یہ معمولی عمل بھی انسان کو جنت کا مستحق بناسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ آں حضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک کتے کو شدید پیاسا دیکھ کر ایک عورت کو ترس آیا اور اس نے اسے پانی پلادیا۔ وہ عورت بدکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے(اس عمل کی وجہ سے) اس کی مغفرت کردی۔

 (صحیح بخاری: کتاب الأنبیاء باب بدون، ترجمہ، مسند احمد، 2/507)

جب حیوانات کے ساتھ ہمدردی کرنے اور انھیں پانی پلانے کا یہ اجر ہے تو انسانوں کی پیاس بجھانے کا کتنا بڑا اجر ہوگا؟!!

ہجیمی صحابی ہی سے مروی دوسری روایت میں کسی قدر تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت ﷺ سے اچھے کاموں کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:

لا تحقرن من المعروف شیئا، ولو أن تعطی صلۃ الحبل، ولو أن تعطی شسع النعل، ولو أن تنزع بین دلوک فی إناء المستسقی، ولو أن ان تنحّی الشئی من طریق الناس یؤذیہم، ولو أن تلقی أخاک ووجھک إلیہ منطلق، ولوأن تلقی أخاک فتسلّم علیہ، ولو أن تؤنس الوحشان فی الأرض۔ (مسند أحمد، /483)

’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو معمولی نہ سمجھو خواہ یہ کام ہوں : کوئی چیز باندھنے کے لیے رسی دینا، جوتے کا تسمہ دینا، اپنے برتن سے پانی کسی پیاسے کے برتن میں انڈیلنا، راستے سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے والی کوئی چیز ہٹادینا، اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا، ملاقات کے وقت اپنے بھائی کو سلام کرنا، بدکنے والے جانوروں کو  مانوس کرنا۔ ‘‘

حدیثِ بالا میں جن کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ دیکھنے میں بہت معمولی ہیں۔ روز مرہ کی ضرورت کی چیز کسی کو دینا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا، خوش روئی کے ساتھ کسی سے گفتگو کرنا اور اس طرح کے دیگر کام یوں تو بہت معمولی نوعیت کے ہیں۔ اتنے معمولی کہ بسااوقات ان کی طرف ذہن بھی نہیں جاتا۔ لیکن سماجی اور اخلاقی حیثیت سے ان کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس لیے انھیں نظر انداز کرنا اور خاطر میں نہ لانا درست رویہ نہیں ہے۔

عموماً کسی کو دعوت اس موقع پر دی جاتی ہے یا کسی کو کھانا اس وقت کھلایا جاتا ہے جب گھر میں معیاری اور اچھے کھانے کا اہتمام ہو۔ ورنہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ کھانے کے معیار کو کھلانے والے کی سماجی حیثیت سے جوڑا جاتا ہے۔ آدمی کسی کو گھر کا عام معیار کا کھانا کھلانے میں اپنی سبکی محسوس کرتا ہے۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کھانے والے اس کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں بنائیں اور کیسے کیسے تبصرے کریں ؟؟ اسی طرح جس کو دعوت دی جاتی ہے وہ بھی کھانے کے معیار کو دعوت دینے والے سے اپنے تعلق کا پیمانہ بناتا ہے۔ دعوت کا زبردست اہتمام اس کے نزدیک قربت اور تعلق خاطر پر دلالت کرتا ہے اور اس کا عدم اہتمام تعلقات میں سرد مہری کا پتا دیتا ہے۔ یہی معاملہ تحفے کے لین دین کا بھی ہے۔ تحفہ دینے والے اور تحفہ لینے والے دونوں کی نظر اس کے معیار اور مالیت پر ہوتی ہے۔ قیمتی تحفہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور غیر معمولی اور کم قیمت تحفہ کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس رجحان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ اصل اہمیت دعوت یا تحفہ کو دینی چاہیے نہ کہ اس کے معیار کو۔ اس لیے کہ ایک دوسرے کو دعوت دینے سے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا ہے اور تحائف کا تبادلہ کرنے سے باہم محبت بڑھتی ہے۔ صحابی رسول حضرت جابرؓ کی خدمت میں کچھ دوسرے صحابہ ملنے آئے۔ اس وقت ان کے گھر میں صرف روٹی اور سرکہ موجود تھا۔ انھوں نے وہی ان کے سامنے پیس کردیا اور کہا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:

نعم الإدام الخل، إنہ ہلاک بالرجل أن یدخل علیہ النفرمن إخوانہ فیحتقر ما فی بیتہ أن یقدّمہ إلیہم۔ وہلاک بالقوم أن یحتقروا ما قدّم إلیہم۔ (مسند أحمد، 3/371)

بہترین سالن سرکہ ہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس کے پاس اس کے کچھ بھائی آئیں تو اس وقت اس کے گھر میں جو کچھ کھانے کو موجود ہو، اسے ان کے سامنے پیش کرنے میں شرمائے اور ان لوگوں کے لیے بھی ہلاکت ہے جو اس معمولی کھانے کو، جو ان کے سامنے پیش کیا جائے، حقارت سے دیکھیں۔ ‘‘

ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:

لو دُعیتُ إلیٰ ذِراعٍ أو کراعٍ لأجبتُ، ولو أہدِیَ إلیَّ ذراع أو کراع لقبلتُ۔ (صحیح بخاری:، کتاب الہبۃ، باب القلیل من الہبۃ۔ )

’’ اگر مجھے کھانے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا خواہ کھاے میں دست ہویا پائے۔ اور اگر مجھے تحفہ دیا جائے تو قبول کرلوں گا خواہ تحفہ میں دست ہو یا پائے۔ ‘‘

شاید عورتوں میں یہ جذبہ دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ کسی کو کھانا کھلانا یا کسی کے یہاں کھانے کی کوئی چیز بھیجنا اسی وقت پسند کرتی ہیں جب ان کے یہاں اہتمام ہو۔ دوسری صورت میں انھیں اپنی حیثیت مجروح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے یہاں پڑوس سے کھانے کی کوئی معمولی چیز آگئی تو وہ اسے پسند نہیں کرتیں اور اس میں اپنی تحقیر محسوس کرتی ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کتنی ہی معمولی چیز کیوں نہ ہو، نہ اسے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے یہاں بھیجنے میں شرمانا چاہیے اور نہ جس کے یہاں وہ بھیجی گئی ہو، اسے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے:

یا لنساء المسلمات! لا تحقرنّ جارۃ لجارتہا و لو فرسن شاۃ۔

(صحیح بخاری، کتاب الہبۃ و فضلہا والتحریض علیہا، کتاب الادب باب لا تحقرن جارۃ لجارتہا۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحثّ علی الصدقۃ ولو بالقلیل۔ )

’’ اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو حقارت سے نہ دیکھے خواہ تحفہ میں بھیجی جانے والی چیز بکری کا کھُر ہو۔ ‘‘

اسی مضمون کی ایک حدیث عمرو بن معاذ الأشہلی کی دادی (حضرت حواء بنت یزید بن سنان الانصاریہؓ) کے واسطے سے مروی ہے جس میں ’’محرق‘‘ کا اضافہ ہے۔ (مسند احمد، 6/435) یعنی اگر کوئی بکری کا جلا ہوا کھُر بھی دے تو اسے حقیر نہ سمجھو۔

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اچھے کاموں میں سے کسی کام کو حقیر اور معمولی سمجھ کر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے اسی طرح برے اور گناہ کے کاموں میں سے بھی کسی کام کو معمولی سمجھ کر اس کے ارتکاب پر جری نہیں ہونا چاہیے۔ برا کام برا ہے خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا اور رائی کا ایک ایک دانہ جمع ہوکر پربت بن جاتا ہے اسی طرح اگر انسان معمولی گناہوں سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہ کرے تو معمولی معمولی بہت سے گناہ اکٹھا ہوکراس کے لیے موجبِ ہلاکت بن جائیں گے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إیاکم و محقرات الذنوب فإنہن یجتمعن علی الرجل حتی یہلکنہ۔                                 (مسند احمد، 1/402-403)

’’ معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ وہ اکٹھا ہوکر انسان کے لیے موجب ہلاکت بن سکتے ہیں۔ ‘‘

اسی بات کو آں حضرت ﷺ نے ایک تمثیل کے ذریعہ سمجھایا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ ایک بیابان میں ٹھہرے۔ وہاں انھیں کھانا پکانے کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑی۔ تما م لوگ منتشر ہوگئے اور ایک ایک آدمی ایک ایک لکڑی لے آیا۔ اس طرح انھوں نے ڈھیرسا ایندھن اکٹھا کرلیا اور اس کے ذریعہ کھانا تیار کرلیا۔ اسی طرح کہنے کو تو ایک بہت معمولی سا گناہ ہوتا ہے لیکن ایک ایک کرکے انسان بہت سے گناہوں میں لت پت ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ہلاکت اور خسران اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ (مسند احمد، 1/402-403، 5/331)

دنیا کی کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے انسان جو کچھ یہاں کرتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے اور اس کے مقرر کردہ فرشتے اسے نوٹ کرتے  رہتے ہیں :

وَ لَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْداً إِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَبِّکَ مِن مِّثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی الأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ وَلَآ أَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَ لَا أَکْبَرَ إلِاَّ فِیْ کِتَابٍ مُبِیْنٍ۔

                                     (یونس:61، مزید دیکھیے، سبا:3)

’’جو کچھ تم کرتے ہو اس کے دوران ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ براب چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو، اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔ ‘‘

قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں انسان کانامہ اعمال اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس کا معمولی سے معمولی عمل بھی خواہ وہ نیکی کا ہو یا گناہ کا، اس میں درج ہوگا اور اس کے مطابق اس کے ساتھ برتاؤ کیا جائے گا:

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ۔

                                                     (الزلزال:7-8)

’’ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ ‘‘

اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کو معمولی معمولی گناہوں سے بھی بچنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے اور انھیں ہوشیار کرتے تھے کہ بارگاہِ الٰہی میں ان کا بھی حساب دینا ہوگا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یا عائشۃ! إیاک و محقرات الذنوب، فإن لہا من اللہ عزوجل طالباً۔ (مسند أحمد، 6/70، سنن ابن ماجہ، ابواب الزہد، باب ذکر الذنوب، سنن الدارمی، کتاب الرقاق باب فی المحقرات)

’’اے عائشہ! معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ اللہ کے یہاں ان کا بھی حساب ہوگا۔ ‘‘

 مسند احمد کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت ﷺ حضرت عائشہؓ کو برابر اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے:

إن النبی ﷺ کان یقول۔ (مسند أحمد، 6/151)

شیطان انسانو کو بہکانے کے لیے اسی چور دروازے کا سہارا لیتا ہے۔ وہ ان کے سامنے بظاہر معمولی گناہوں کو ہلکا کرکے پیش کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ان سے بچنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اچھے اچھے لوگ آسانی سے اس کے اس بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی امت کو جہاں بہت سے چیزوں کی تعلیم دی تھی اور بہت سے معاملات میں انھیں متنبہ کیا تھا وہاں آپؐ نے اس پہلو سے بھی ان کی رہنمائی فرمائی اور شیطان کے اس ہتھکنڈے سے انھیں ہوشیار کیا تھا۔ حضر عمروبن الاحوصؓ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ألا و إن الشیطان قد ألیس أن یعبد فی بلادکم ہدا أبداً۔ ولکن ستکون لہ طاعۃ فیما تحقرون من أعمالکم فسیرضی بہ۔

(جامع ترمذی، ابواب الفتن، باب ماجاء فی تحریم الدماء والاموال۔ و مسند أحمد2/368 براویۃ ابی ہریرۃؓ)

’’ خبردار! شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں اس کی پرستش کی جائے گی لیکن اس کا اندیشہ ہے کہ جن کاموں کو تم بہت معمولی سمجھتے ہو ان میں اس کی اطاعت کروگے اور وہ اسی سے خوش رہے گا۔ ‘‘

علماء نے لکھا ہے کہ صغیرہ گناہ اگر کثرت سے اور بار بار کیے جائیں تو وہ کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔ محدث ابن بطّال فرماتے ہیں :

المحقرات إذا کثرت صارت کباراً مع الإصرار۔

(فتح الباری ابن حجر  عسقلانی، دارالمعرفۃ، بیروت، 11/330)

’’یعنی معمولی گانہ جب بہت زیادہ ہوجائیں اور انھیں بار بار کیا جائے تو وہ کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔ ‘‘

حضرات صحابہ کرامؓ اس معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہتے تھے۔ وہ جتنی اہمیت کبیرہ گناہوں کو دیتے تھے اور ان سے بچنے کی کوشش کرتے تھے اتنی ہی اہمیت صغیرہ گناہوں کو دیتے تھے اور انھیں بھی موجب ہلاکت و خسران تصور کرتے تھے اور شعوری طور پر ان سے بچنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ صحابی رسول حضرت انس بن مالکؓ نے اپنے شاگردوں میں جب اس معاملے میں تساہلی دیکھی تو انھیں ٹوکتے ہوئے فرمایا:

إنکم لتعملون أعمالا ہی أدق فی أعینکم من الشعر، وإن کنا نعدہا علی عہد النبی ﷺ من الموبقات۔

( صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب ما یتقی من محقرات الذنوب۔ )

’’ تم لوگ ایسے کام کرتے ہو جو تمھاری نگاہوں میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی تم انھیں بہت معمولی سمجھتے ہو) لیکن ہم نبی ﷺ کے عہد میں انھیں موجبِ ہلاکت تصور کرتے تھے۔ ‘‘

کامیاب انسان وہ ہے جو گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ کے خانوں میں تقسیم کرکے صغیرہ گناہوں کے معاملے میں ڈھیل نہ اختیار کرے  بلکہ گناہ کے ہر کام سے بچنے کی کوشش کرے چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ ہو یا چھوٹے سے چھوٹا گناہ۔ اور نیکی کے ہرکام کی طرف لپکے، چاہے وہ برے سے بڑا کام ہو یا معمولی سے معمولی کام۔

تبصرے بند ہیں۔