کس لیے سوچوں کہیں اور میں جانے کے لیے
سحر محمود
کس لیے سوچوں کہیں اور میں جانے کے لیے
دل سے بہتر تو نہیں کچھ بھی ٹِھکانے کے لیے
…
میں تو تیار ہوں دل، دل سے ملانے کے لیے
ان سے دیوارِ انا کہہ دو گرانے کے لیے
…
کوئی ملتا نہیں یہ بار اٹھانے کے لیے
میں ہوں بے تاب دل و جان لٹانے کے لیے
…
آ بھی جاؤ کہ تمھارا ہی سہارا ہے مجھے
” شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے”
…
دل کے ارمان مچلتے رہے دل میں میرے
تم تو آئے تھے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے
…
وقت کس موڑ پہ لے آیا ہے ہم دونوں کو
کچھ بچا ہی نہیں اب سننے سنانے کے لیے
…
میں تو حیران ہوں اس طرزِ تعیُّش پہ سحر
لوگ کیا کچھ نہیں کرتے ہیں دکھانے کے لیے
تبصرے بند ہیں۔