کیا ہندستان کا پارلیمانی انتخاب وزیر اعظم صرف پاکستان کے سوالوں پر جیتنا چاہتے ہیں؟

 صفدر امام قادری

ہمارے وزیراعظم ان معنوں میں نرالی شان کے آدمی ہیں کیوں کہ وہ روایت کے بجاے نئے نئے انداز و اسلوب کی کارکردگیوں میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ملک میں سات مرحلوں میں مکمل ہو نے والے عمومی انتخابات کا دور دورہ ہے اور صاحبِ اقتدار جماعت وزیرِ اعظم کی قیادت میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے جی توڑ کوشش کر رہی ہے۔ خاص طور سے حزبِ اقتدار کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی بنیادپر ووٹ مانگے اور اس کے بر خلاف حزبِ اختلاف حکومت کی ناکامیوں کی تفصیل پیش کر کے عوام کے دروازے پر دستک دے۔

نریندر مودی کو ہندستان کے پُرانے آداب واطوار سے کچھ زیادہ شغف نہیں۔ انھوں نے منصوبہ بندی کمیشن کا خاتمہ کیا اور جشنِ آزادی کے موقعے کی تقریر میں تحریر ی حصّے کو ختم کیا۔ یہ صرف دو روایات کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہیں سے نریندر مودی کی حکومت کس انداز سے خود کو بدلنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس کے ٹھوس اشارے ملنا شروع ہو گئے۔ اب جب وزیراعظم کو ملک کی پالیسیوں کو آیندہ اقدامات کے بارے میں زبانی جمع خرچ سے ہی کام کر لینا ہے توکسی کو کیا پڑی ہے کہ ملک و قوم کی ترجیحات اور پورے ایک سال کا لائحۂ عمل پیش کرنے کی مشقت اٹھائی جائے۔

دنیا کے ہر ملک میں عمومی انتخابات کا بنیادی موضوع مقامی مسائل اور ملک کے لیے آیندہ منصوبے ہو تے ہیں۔ امریکہ سے لے کر فرانس اور برطانیہ چلے جائیں، یا پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے عمومی انتخابات کو نظر میں رکھیں ؛ہر جگہ اُس ملک کے معاملات بنیادی حوالہ بنتے ہیں اور عوام اسی دائرے میں سیاسی جماعتوں کی کارکردگیوں کا حساب کرکے ووٹ دیتے ہیں اور جب ضرورت ہو تو نئی پارٹی حکومت بنانے کے لیے منتخب کر لی جا تی ہے۔ وہاں کی اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کی ملکی کارکردگیوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ مطلب یہ کہ صاحبِ اقتدار جماعت کی کارکردگی بالخصوص قومی ضرورت کے امور کا احتساب کیا جاتا ہے اور اسی ترازو پر تمام کا مو ں کو تولنے کی کوشش ہو تی ہے۔

مگر نرریندر مودی کی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے انداز کچھ یو ں نرالے ہیں جسے ان بکھیڑوں سے کچھ زیادہ مطلب نہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ جیسے ہی وہ اپنے پانچ برسوں کے کا م کاج کی فہرست عوام کے سامنے رکھیں گے تو اس سے نئے نئے مسائل اُبھر کر سامنے آئیں گے۔ انھوں نے آخر کس سمت اور شعبے میں ملک کو ترقّی دی، اسے بتانے میں پریشانیاں تو پیدا ہوں گی ہی۔ آخر کیا انھوں نے ملک کے بے روز گاروں کے مسائل حل کر دیے؟ کیا انھوں نے غربت اور افلاس سے لڑنے کے لیے کوئی نسخۂ کیمیاتلاش کر لیا؟ کیا انھوں نے بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے مسئلوں کو حل کر دیا؟کیا کالی دولت ممالک غیر سے ہندستان واپس آئی؟ کیا ملک سے رشوت خوری غائب ہوگئی؟ کیا تعلیم کے شعبے میں اس ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جگہ مل گئی؟ کیا ہندستان میں انصاف اور ایمان کی سیاست عام ہوگئی؟ کیا مٹھّی بھر صنعت کاروں کے چنگل سے یہ ملک نکل پایا؟ کیا ہندستانی سماج اور سیاست کی عالمی ساکھ میں اضافہ ہوا؟ کیا ہمارے روپے کی عالمی سطح پر پوچھ بڑھ گئی؟ کیا ملک میں امن و امان اور خیر سگالی کے ماحول میں اضافہ ہوا؟ کیا کمزور طبقوں تک حکومت کی انصاف پسندی پہنچ گئی؟

ان باتوں کے جواب کے بجاے وزیر اعظم کی دوسری ہی راگنی ہوتی ہے۔ فارسی ضرب المثل ہے: سوال از آسماں و جواب از ریسماں۔ نریندر مودی سے پہلے شاید ہی کوئی دوسرا سیاست دان آیا ہو جس کی باتوں پر یہ مثل مکمل طور پر منطبق ہوتی ہو۔ یہ بے خیالی میں ہو رہا ہے، ایسا ہرگز نہ سمجھیے۔ یہ ہوشیار سیاست داں کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ سوال و جواب اور حساب و کتاب کے کھکھیڑ میں کیوں پھنسا جائے؟ اس سے بہتر ہے کہ اپنے پڑوسی ملک اور اس سے دیرینہ دشمنی کو ہی ہندستانی انتخاب کا موضوع بنالیا جائے۔ اسی کے اِرد گرد کروڑوں ووٹ بڑے ہوئے ہیں۔ اسی کے سہارے سماج میں خطِ تقسیم کھینچا جاسکتا ہے اور اپنے حصے کی کامیابی درج کی جاسکتی ہے۔ گذشتہ تین مہینوں کی تقریریں سنیے اور اندازہ کیجیے کہ اس میں پاکستان اور پاکستان کے حوالے کے معاملات اَسّی فی صد سے کم نہیں رہے۔

نریندر مودی اس انتخاب میں اسی حکمتِ عملی کے تحت سب کچھ کر رہے ہیں۔ انھیں روز یہی کہتے سُنا جاتا ہے کہ وہ ملک کے دشمن پاکستان کو اُس کے گھر میں جاکر کس طرح زیر کر آئے اور اس سے ملک کے وقار میں کتنا اضافہ ہوا؟ کشمیر میں دہشت گردی سے مقابلے میں بھی وہ پاکستان کو ہی اوّل و آخر ہدفِ ملامت بناتے ہیں اور وہاں بھی اپنی کامیابیوں کے ڈنکے پیٹتے ہیں۔ اس طرح کے تمام معاملات میں ہندستان نے کس طرح مردانہ وار مقابلہ کیا اور ملک کی افواج نے کس بہادری سے پاکستان کے چھکّے چھڑائے، یہی باتیں روز نئے نئے انداز سے نریندر مودی پیش کرتے ہیں۔ اسی مرحلے میں اپوزیشن اپنے آپ موضوعِ بحث بن جاتا ہے۔ اب کانگریس ہو یا اس کی حلیف جماعتیں، آسانی سے ملک دشمن قرار دی جائیں گی۔

ایسا نہیں کہ نریندر مودی تنہا یہ باتیں پیش کررہے ہیں اور ان کی پارٹی کے دوسرے افراد حکومت کی کارکردگیوں سے انتخابی ماحول کو مستحکم کررہے ہیں۔ نریندر مودی کی طرح بھلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر جناب امت شاہ میں طلاقتِ لسانی نہ ہو مگر وہ بھی اپنی توتلی ہندی میں پاکستان اور پاکستان دشمنی کی بنیادوں پر ہی پورے ملک میں اپنے حصّے کے ووٹ مانگتے پھر رہے ہیں۔ اس پارٹی کے وزرا، بڑے لیڈران اور علاقائی اہمیت کے بہت سارے لیڈر بھی صرف پاکستان پاکستان کیے جارہے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ یہ الیکشن ہندستان میں ہو رہا ہے یا پاکستان میں۔

ساحر لدھیانوی نے ہندوپاک جنگوں کے سلسلے سے اپنی مشہور نظم میں یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر جنگ ضروری ہی ہے تو ہمیں غربت اور افلاس سے جنگ کرنی چاہیے۔ یہ دونوں ملکوں کا مشترک مسئلہ ہے۔ نریندر مودی سے ہم دست بستہ گزارش کریں کہ ہندستان کے اندرونی مسائل کی طرف بھی وہ کبھی کبھی توجہ کریں۔ وہ بتائیں کہ ملک کے بیس کروڑ بے روگار نوجوانوں کو آگے وہ کس طرح جلائیں گے۔ چائے بیچنا، پکوڑے بنانا اور اب چوکیداری؛ اب اس سے آگے بھی کچھ نئی مضحکہ خیزیاں چاہیے۔ ہمارے اسکول، کالج، یونی ورسٹیوں سے لے کر آئی آئی ٹیز، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں سے جونسل تعلیم اور ٹکنالوجی کی ڈگریوں سے لیس ہوکر سامنے آرہی ہے، اسے کون سنبھالے گا؟ کیا بے روزگاری کے جبر میں سڑک پر مارے مارے پھرنے والی باصلاحیت اور خواب دیکھنے والی نسل مشکل وقت میں گمراہی کے راستے پر چلی جائے تو اس کی ذمہ داری وزیراعظم اور ان کی حکومت کو نہیں لینی چاہیے؟

شُترمرغ ریت میں سر گاڑ لے تو اس سے طوفان ختم نہیں ہوجائے گا۔ اس کی تباہیاں آئیں گی اور ہزاروں کو کیفرِ کردار تک پہنچنا پڑے گا۔ جمہوریت کی خاموش دھڑکنیں کئی بار بہت تباہ کُن ثابت ہوئی ہیں۔ اسی ملک میں جب یہ کہا جاتا تھا کہ ’اندرا از انڈیا‘ اور ’انڈیا از اندرا‘ مگر ایک عوامی تحریک نے انھیں پارلیامنٹ تک نہیں پہنچنے دیا تھا۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے انھیں جانا پڑا۔ انھوں نے اس سے پہلے تقریباً گیارہ برس حکومت کی تھی۔ نریندر مودی کے تو ابھی پانچ برس پورے نہیں ہوئے۔ عوامی معاملات اور عمومی سوالات سے گریز کی جو خوٗ انھوں نے اپنا رکھی ہے، وہ دن دوٗر نہیں کہ جمہوریت کے کالے جادو میں وہ گرفتار ہوکر ہمیشہ کے لیے اقتدار سے دور ہوجائیں۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا ہمیشہ نوٹنکی نہیں ہے۔ یہ سنجیدہ اور ایمان دارانہ کوشش کے بغیر خالی ڈھول کی طرح ہوجاتی ہے۔ باہر سے آوازیں مگر اندر سے خالی۔ اب زیادہ وقت نہیں، مئی کے اواخر تک عوام اپنا حساب کتاب ان شاء اللہ برابر کرلیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔